UrduPoint:
2025-02-20@10:05:44 GMT

جرمنی کو ایک نئے کاروباری ماڈل کی ضرورت کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

جرمنی کو ایک نئے کاروباری ماڈل کی ضرورت کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) جرمنی میں 23 فروری کو ہونے والے وفاقی انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کو سنبھالنا ہو گا اور اسے معاشی ترقی کے لیے کوئی نئی حکمت عملی پیش کرنا ہو گی۔ جو قوم دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کے معیار کی وجہ سے مشہور ہوئی، اس نے گزشتہ پانچ برسوں سے کوئی حقیقی معاشی ترقی نہیں دیکھی۔

جرمن معشیت پٹری سے کیسے اُتری؟

متعدد عوامل نے جرمنی کو صنعتی پاور ہاؤس سے نکال کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان عوامل میں بہت زیادہ بیوروکریسی، ہنر مند کارکنوں کی کمی، نئی ٹیکنالوجی کی جانب سست منتقلی اور سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت کی جانب سے واضح سمت کا فقدان بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

یوکرین میں روس کی جنگ کی وجہ سے چین سے بڑھتا ہوا مقابلہ اور توانائی کی بلند قیمتیں اضافی بوجھ ثابت ہوئی ہیں۔

پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت

صنعتی پنکھے بنانے والی کمپنی 'ای بی ایم پاپسٹ‘ کے سی ای او کلاؤس گائسسڈوفر کہتے ہیں، ''ہمیں واقعی زیادہ سے زیادہ کمپنی اینڈ انٹرپرائز فرینڈلی سیاست کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمارے پاس جرمنی میں روشن ٹیلنٹ ہے۔ ہماری اچھی کمپنیاں ہیں لیکن اس وقت ہمارے پاس سیاسی سطح پر شعور نہیں ہے۔

‘‘

انتخابات کے قریب آتے ہی جرمن کمپنیوں کی طرف سے تنقید بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ 'ای بی ایم پاپسٹ‘ 2.

5 بلین یورو کی سالانہ آمدنی اور تین براعظموں میں موجود ذیلی کمپنیوں کے ساتھ خود کو اس شعبے کی ایک سرکردہ فرم قرار دیتی ہے۔

کمپنیوں کا کن مسائل کا سامنا ہے؟

اس کمپنی نے گزشتہ سال اطلاع دی تھی کہ وہ ''خاص طور پر جرمنی میں مصائب کا شکار ہے‘‘ اور مقامی مارکیٹ میں اس کی آمدن 4.1 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔

توانائی کے نئے حکومتی ضوابط کی وجہ سے اس کمپنی کی ہیٹنگ ٹیکنالوجی ڈویژن کی مصنوعات کی فروخت میں تقریباً 19 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کمپنی پر اضافی بوجھ ثابت ہوا۔

جرمنی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کمپنی نے اپنی سرمایہ کاری ایشیا اور امریکہ میں منتقل کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ہی اس کمپنی نے بیرون ملک پیداوار بڑھا دی تھی۔

یہ کمپنی اپنی متعدد مصنوعات امریکہ برآمد کرتی ہے۔ اس کی بیرون ملک پیداوار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی نئے درآمدی ٹیکس کے خلاف بھی ڈھال فراہم کرے گی۔ عالمی تعلقات اور سیاست کے اثرات

چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے اضافی بوجھ ڈال دیا ہے اور مقامی مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات نے بھی جرمن معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔

یوکرین جنگ کی وجہ سے جرمنی کو روس کی طرف سے ملنے والی سستی گیس کی زیادہ تر سپلائی بند ہو چکی ہے۔

اسی طرح بجلی کی قیمتیں صنعت کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں جبکہ چین اور امریکہ کے مقابلے میں بجلی کی قمیتیں بھی یہاں ڈھائی گنا زیادہ ہو چکی ہیں۔

مہنگی بجلی کے نقصانات

جرمنی کی کمپنی 'میکانینڈوس فوگل زانگ گروپ‘ دھاتی مصنوعات تیار کرنے والی فرم ہے اور کارساز اداروں کے لیے بھی مختلف پارٹس تیار کرتی ہے۔

اس کمپنی کے مطابق امریکہ کے مقابلے میں وہ اپنے جرمن پلانٹس میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے فی کلو واٹ دو گنا زیادہ ادائیگی کرتی ہے۔

اس کمپنی کے سی ای او اُلرش فلاٹن کے مطابق وہ اس طرح ایک لاکھ یورو زیادہ ادا کر رہے ہیں، جو کہ ایک بہت بڑا مسابقتی نقصان ہے۔

چین کی طرف سے دھچکا

جرمن معیشت کو چین کی طرف سے بھی ایک دھچکا لگا ہے، جس نے سن 2010 کی دہائی میں جرمن ساختہ مشینری اور آٹوموبائل کے لیے ایک منافع بخش مارکیٹ کا کام کیا۔

اب چینی کمپنیوں نے حکومتی سبسڈی کے ساتھ وہی مصنوعات بنانا شروع کر رکھی ہیں، جنہیں کبھی وہ جرمنی سے خریدا کرتی تھیں اور اس سے بھی جرمن برآمدات کو نقصان پہنچا ہے۔

جرمن معیشت گزشتہ دو برسوں سے مسلسل سُکڑ رہی ہے۔ سن 2019 کے مقابلے میں سن 2024 کے دوران اس میں صرف 0.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر کے مطابق اسی عرصے کے دوران امریکی معیشت میں 11.4 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ چین میں 25.8 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

بہت سے کاروباری ایگزیکٹوز اور ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ جرمنی کی اگلی حکومت کو قرضوں کی آئینی حدود کو کم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ وہ بنیادی ڈھانچے اور تعلیم جیسے عوامی اخراجات میں اضافہ کر سکے۔

جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے صدر مارسیل فراٹسشر کہتے ہیں کہ اگر آئندہ حکومت بھی فوری تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی تو اس کے شدید نقصانات ہوں گے، ''گزشتہ 75 برسوں کے دوران جرمنی کو بہت زیادہ اتفاق رائے، استحکام اور چیک اینڈ بیلنس والے نظام پر کھڑا کیا گیا ہے اور یہ تمام عناصر 'تیزی سے تبدیلی‘ کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔

‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ''یہ سمجھنے کے لیے کہ ہمیں معاشی تبدیلیوں پر بہت تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، ذہنیت تبدیل کرنا ہو گی۔‘‘

ا ا/ا ب ا (اے پی)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی طرف سے کی وجہ سے جرمنی کو کی ضرورت کے لیے

پڑھیں:

جرمن اور ڈچ ہاکی کلب ٹیموں کے اعزاز میں تقریب

نیدر لینڈز کی سفیر، ہینی ڈی ویریز نے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ڈچ اور جرمن ہاکی ٹیموں کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر تقریب کا اہتمام کیا۔ تقریب ڈچ ہاکی کلب HGC کے دورے کے اختتام پر منعقد ہوئی۔ سفیر ہینی ڈی ویریز نے تقریب میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور کھیلوں کی اہمیت پر بات کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیر ہینی ڈی ویریز نے کہا کہ پچھلے سال فروری 2024 میں، 22 سالوں میں پہلی بار، ایک ڈچ ہاکی ٹیم، پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام پاکستان کی ٹیم کے خلاف میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی تھی۔ مجھے امید ہے کہ یہ دورے ایک طویل روایت کی بنیاد ڈالیں گے اور پاکستان میں ہاکی کی بحالی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ایڈیشنل سیکریٹری یورپ شفقت علی خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج رات ہم نے کھیلوں کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ایسے تعلقات استوار کرنے کے لیے ملاقات کی ہے جو سرحدوں سے بڑھ کر ہمیں جوڑیں۔ نیدر لینڈز کا ہاکی میں ورثہ بے مثال ہے، جو دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

ٹیم کے ڈچ پاکستانی کوچ فرید احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال مجھے خواجہ جنید ہاکی اکیڈمی میں دوستوں اور ساتھیوں کے تعاون سے ڈچ ٹیم کے پاکستان کے دورے کا اہتمام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہم ایک طویل عرصے میں پاکستان آنے والی پہلی ٹیم ہیں اور میں بہت خوش ہوں کہ اس سفر نے دوسروں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔

اولمپیئن خواجہ جنید نے کہا کہ یہ تعاون صرف میچز کھیلنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں خوابوں کو زندہ کرنے کا معاملہ ہے۔ خواجہ جنید ہاکی اکیڈمی ایک ایسی اکیڈمی ہے جس نے پاکستان میں 500 سے زائد پسماندہ نوجوانوں کے ساتھ کام کیا۔ ہاکی کے ذریعے یہ نوجوان پاکستان میں تعلیم اور مواقع تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

ڈچ ٹیم کے ٹیم منیجر رابرٹ جان ڈونکر نے کہا کہ پا کستان آنا میرے لیے ایک لاجواب تجربہ تھا، یہاں میچز کھیلنے کا تجربہ بہت اچھا رہا۔ دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم، لاہور میں کھیلنا واقعی ایک شاندار تجربہ تھا، اور تماشائیوں کی پذیرائی ہماری ٹیم کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیدر لینڈز ہاکی ہینی ڈی ویریز

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
  • جرمن اور ڈچ ہاکی کلب ٹیموں کے اعزاز میں تقریب
  • چین کی نجی معیشت کا دنیا کے لئے  موسم بہار کا پیغام ہے، چینی میڈیا
  • ایلون مسک کا دنیا کا سب سے اسمارٹ اے آئی ماڈل متعارف کرانیکا دعویٰ
  • جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
  • فیکٹ چیک: روس، جرمن انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟
  • جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ
  • جرمن قونصل جنرل کو کوئٹہ آنے سے کیوں روکا؟ گورنر بلوچستان نے سب بتا دیا
  • مسلح افواج کے سربراہان قوم کو جواب دیں کہ اتنے زیادہ جوان کیوں شہید ہورہے ہیں؟ عمر ایوب