نو دریافت شدہ مینڈک کا نام مشہور اداکار کے نام پر رکھ دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سائنس دانوں نے دریافت ہونے والی مینڈک کی نئی قسم کا نام آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو پر رکھ دیا۔ اداکار کو یہ اعزاز ماحولیات کے تحفظ کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔
’فائلوناسٹیس ڈی کیپریوئی‘ نام پانے والی یہ قسم ان سات اقسام میں سے ایک ہے جو کیتھولک یونیورسٹی آف ایکواڈور کے ایکواڈورز نیشنل اِنسٹیٹیوٹ آف بائیو ڈائیورسٹی اور سان فرانسسکو یونیورسٹی آف کوئیٹو (یو ایس ایف کیو) کے سائنس دانوں نے دریافت کیے ہیں۔
یو ایس ایف کیو کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ یہ تحقیق منفرد مساکن کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے جہاں یہ انواع زندہ رہتے ہیں۔
مینڈک کی یہ قسم ایکواڈور کے صوبے ایل اورو میں موجود مغربی پہاڑی جنگل میں پائے جاتی ہے۔ اس مینڈک کی جسامت چھوٹی اور اس کے کتھئی جسم پر گہرے رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق یہ مینڈک سطح سمندر سے 1330 میٹر سے 1705 میٹر کی بلندی پر رہتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
برف میں 100 فٹ نیچے چھپا ہوا خفیہ شہر دریافت، کس خطرناک منصوبے کے تحت بسایا گیا ،ترک کیوں کیا گیا؟جانیں حیران کن تفصیلات
ایک چھپا ہوا شہر جو تقریباً 100 فٹ برف کے نیچے دفن تھا پہلی بار منظر عام پر آیا ہے۔ اس کا انکشاف حیرت انگیز خفیہ دستاویزات میں ہوا ہے۔ یہ شہر دراصل ایک خفیہ فوجی اڈہ تھا جو سرد جنگ کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اسے کیمپ سینچری کے نام سے جانا جاتا تھا اور 1959 میں گرین لینڈ کے ایک گلیشیئر کے نیچے امریکی فوجی انجینئرز نے تعمیر کیا تھا۔ “برف کے نیچے شہر” کہلانے والا یہ بیس 9800 فٹ پر پھیلی 21 باہم جڑی ہوئی سرنگوں پر مشتمل تھا۔
مرر کے مطابق اگرچہ اسے سائنسی تحقیق کے مرکز کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن اس کا اصل مقصد دہائیوں تک راز میں رکھا گیا۔ درحقیقت کیمپ سینچری کا اصل مقصد “پراجیکٹ آئس ورم” کو چھپانا تھا۔ یہ برف کے نیچے جوہری میزائلوں کا ذخیرہ بنانے کا منصوبہ تھا تاکہ سوویت یونین پر حملہ کیا جا سکے۔ یہ بیس ایک پورٹیبل جوہری ری ایکٹر PM-2A کے ذریعے چلایا جاتا تھا اور اس کا مقصد ہنگامی حالات میں تقریباً 600 جوہری میزائلوں کو محفوظ رکھنا تھا۔ یہ سرد ترین حالات میں بجلی اور حرارت فراہم کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ برف کے پگھلنے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ثابت ہوا اور 1966 میں اسے ترک کر دیا گیا۔ امریکی حکام نے وہاں سے جوہری ری ایکٹر تو نکال لیا لیکن مضر فضلہ وہیں چھوڑ دیا گیا۔
امریکی حکام بھی اس خفیہ بیس کو بھول چکے تھے۔ ناسا کے ایک سائنسدان چَیڈ گرین نے ایک امدادی مشن کے دوران حادثاتی طور پر اس کا پتہ چلایا۔ گرین لینڈ کے سفر کے دوران ان کے طیارے نے “کیمپ سینچری” کے باقی ماندہ حصے کا پتہ لگایا۔ ناسا کے جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے کرائوسفیئرک سائنسدان ایلکس گارڈنر نے کہا “ہم برف کی تہہ کے نیچے کا نقشہ بنا رہے تھے اور اچانک ‘کیمپ سینچری’ کے نشانات ظاہر ہو گئے۔ ہمیں پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ نئے ریڈار ڈیٹا میں اس خفیہ شہر کی انفرادی عمارتیں صاف نظر آ رہی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔” جب ریڈار ڈیٹا میں کیمپ کی سرنگوں اور ڈھانچے کا خاکہ ظاہر ہوا تب سائنسدانوں کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا دریافت کر چکے ہیں۔