آرمی چیف کا عمران خان یا ان کی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، فیصل واوڈا
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سینئر سیاستدان فیصل ووڈا نے کہاہے کہ نیا پاکستان بنانے والوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، عمران خان کے نام پر اوورسیزپاکستانیز سے فنڈز لے کر بنگلے اور جائیدادیں بنائی گئیں، شیر افضل مروت سمیت جو بھی پارٹی کے لیے اچھا کام کرتا ہے اسے سائیڈ لائن لگا دیا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ نیا پاکستان بنانے والوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، عمران خان کے نام پر اوورسیز پاکستانیز سے فنڈز لے کر جائیدادیں بنا لیں، جو پارٹی کے لیے اچھا کام کرتا ہے اسے سائیڈ لائن لگا دیا جاتا ہے، فواد چوہدری ٹھیک تنقید کررہا ہے، یہ وہ پارٹی نہیں جس کا ہم حصہ تھے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ نیا پاکستان بنانے والے کوئی کم چور ہیں یہ تو ان کے بھی باپ نکلے، چیف آف ارمی اسٹاف سب سے پہلے پاکستان کا ویژن لے کر سرگرم عمل ہیں، آرمی چیف نے میرا سیاسی ویژن بھی بدل دیا، سیاست سے زیادہ ملک کو عزیز رکھتا ہوں۔
سینئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے جو مجھے سیاست سکھائی تھی وہ خود بھول گئے، جو بھی چوری کرے گا میں ٹھوک بجا کر آواز اٹھاؤں گا، پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں بہت زیادہ کرپشن کی مجھے اب گنڈاپور نظر نہیں آرہا، پہلے ہی کہا تھا بانی پی ٹی آئی جب بھی آرمی چیف کو خط لکھیں گے وہ کوڑے میں جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف نہایت نفیس نیک نیت اور شفیق آدمی ہیں، آرمی چیف اپنے منصب کا ناجائز استعمال نہیں کرتے، جمہوریت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہے۔
فیصل واوڈا کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی چیف کا بانی پی ٹی آئی عمران خان یا ان کی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے، پاکستان پہلے ہوگا سیاست بعد میں ہوگی میں اس نظریے کا قائل ہوں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیصل واوڈا پی ٹی ا ئی ا رمی چیف
پڑھیں:
خطوط کی سیاست اور مفاہمتی امکانات
آجکل بانی پی ٹی کے کھلے خطوط کا خوب چرچا ہے۔ لکھنے اور بولنے والے اپنے اپنے انداز میں اس پر اپنا اپناتجزیہ بھی پیش کررہے ہیں۔ جب کہ سیاست دان اپنی اپنی پارٹی کو سامنے رکھ کر رائے دے رہے ہیں۔ ماضی میں ایسے خطوط اوپن نہیں کیے جاتے تھے لیکن اب شاید یہ کلچر تبدیل کردیا ہے۔بانی پی ٹی آئی نے تین فروری، آٹھ فروری اور 13 فروری کو یہ خطوط جاری کیے ہیں۔
آخری خط کی حیثیت ایک کھلے خط کی ہے جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔اس خط میں بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان جہاں خلیج پیدا ہوئی ہے، فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے بہت سے معاملات خراب ہوئے ہیں۔ بانی کی نظر میں ان کی پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ زیادتی کررہی ہے ، خط میں اس کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو مکمل طور پر دیوار سے لگانے کا نقصان صرف ایک جماعت کو ہی نہیں ہو رہا بلکہ جمہوری عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔
یہ خطوط تو اپنی جگہ رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی خطوط بھی لکھ رہے ہیں اور وہ مذاکرات بھی انھیں سے کرنا چاہتے ہیں، جنھیں خطوط لکھ رہے ہیں۔اب بھی یہ تین خطوط لکھ کر بنیادی طور پر انھوں نے اسٹیبلشمنٹ پر ہی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
آرمی چیف نے تو اس خط یا خطوط پر پوزیشن واضع کردی ہے ۔ان کے بقول اول توان کو اس طرز کے کوئی خطوط نہیں ملے اگرملے تووہ اسے نہیں پڑھیں گے بلکہ ان خطوط کو وہ وزیر اعظم کو بھیج دیں گے۔آرمی چیف نے جو کچھ کہا وہ درست ہے کیونکہ ان کے منصب کاتقاضہ ہے وہ یہ ہی کہیں جو انھوں نے کہا ہے۔ویسے آرمی چیف کا ان خطوط پر بیانات شہباز شریف کی حکومت کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے اور وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کی قیادت کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے ۔
پیغام دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور آنے والے وقت میں اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیںہوگا۔حکومت کے لیے اہم پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور بانی پی ٹی آئی کے تعلقات نہ صرف خراب رہیں گے بلکہ ان میں کسی بھی سطح پر کوئی مفاہمت کے امکانات پیدا نہ ہوں گے۔یہ ہی وجہ ہے حکومتی حکمت عملی میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ پی ٹی آئی کا کوئی حکومت پر سیاسی دباؤ ہے۔
اصل میں تو اوپن لیٹر سے مراد یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد میں اس خط کی رسائی ممکن ہو سکے۔کیونکہ خط لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے وہ صرف اسی کو نہیں سنانا چاہتا جس کو وہ مخاطب ہے۔ بلکہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ان تمام لوگوں کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے جن کو پاکستانی سیاست میں کوئی دلچسپی ہے۔کیونکہ بیانیہ کی اس جنگ میں مسلسل متحرک رہنا اہم ہوتا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو داخلی اور خارجی سیاست میں ایک بڑی طاقت میں تبدیل کر یں تاکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان میں سیاسی ، معاشی اور ادارہ جاتی بحران ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے جانے والے خطوط پاکستان اور پاکستان سے باہر زیر بحث ہیں اور لوگ اپنے اپنے انداز پر اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔اس لیے خط کے مندرجات کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ان خطوط سے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے، اگر کچھ بات چیت چل بھی رہی تو اس کے امکانات مزید محدود ہوںگے۔ویسے بھی اب تک جو کچھ اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ ہوا ور اس میں جو بھی کردار شامل ہوئے کوئی نتیجہ نہیں نکال سکے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اب عید کے بعد پی ٹی آئی قومی سطح دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی سیاسی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہی ہے۔مفاہمت کی ناکامی قومی سیاست کی ناکامی ہے اور اس سے جمہوری سیاست میںاورزذیادہ تلخیاں پیدا ہوںگی۔ویسے ہی پاکستان کی جمہوری سیاست مقدمہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اور واقعی جمہوری سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔خطوط کی یہ سیاست سیاسی اور غیر سیاسی فریقین میں مزید تلخیاں اور ٹکراؤ کے ماحول کو پیدابھی کرے گا سیاست میں نئی پیچیدگیوں کو بھی پیدا کرے گا۔
اصولی طورپر توحکومت ہو یاحزب اختلاف یا اسٹیبلیشمنٹ سب کو اپنے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر ایک بڑے قومی،سیاسی اور جمہوری فریم ورک پرمتفق ہونا پڑے گا۔کیونکہ موجودہ ٹکراو اور محازآرائی کی سیاست کس کے بھی حق میں نہیں ہے اور سب کو اس ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سب نے ایک دوسرے کے مقابلے میں لنگوٹ کس لیے ہیں اور سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں اس انداز سے تبدیل کردیا ہے کہ کوئی کسی کے سیاسی وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بات چیت اور مکالمہ کی سیاست سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی بقا جمہوری سیاست اور آئین و قانون کی بالادستی سمیت اداروں کی خود مختاری اور ہر ادارے کا اپنی اپنی حدودمیں ر ہ کر کام کرنے سے جڑاہوا ہے۔اگر ہم اس اصول کوبنیاد بناکراپنی ریاستی اورسیاسی ترجیحات کاتعین کرلیں توبہتری کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جو ہمیں ریاستی اور حکمرانی کے محاذ پر بڑے اہم مسائل درہیش ہیں اس علاج مہم جوئی اور ٹکراو کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ فیصلہ سا ز حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ مجموعی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیونکہ لڑائی اور ٹکراو کی سیاست میں ہم نے پہلے ہی بہت کچھ برباد کردیاہے اور اب بھی برباد کررہے ہیں۔
ہمیں اگر پاکستان کو سیاسی،انتظامی، قانونی، آئینی، سیکیورٹی اورمعاشی بنیادوں پر مستحکم کرنا ہے تویہ کام موجودہ سطح کی سیاست اوراس طرز عمل سے ممکن نہیں ہوگا۔ سیاست، معیشت میں بند دائروں کو کھولنے کے لیے بند راستوں کو کھولنا ہوگا مگر یہ تب ہی تو ممکن ہوگا جب ہم اپنے اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکلیں اور ریاستی سمیت عام آدمی کے مفادات کو زیادہ اہمیت دیںاور یہ ہماری قومی سطح کی ترجیحات کااہم حصہ ہونا چاہیے۔