تحریک انصاف نے سپیکر قومی اسمبلی سے بیک ڈور رابطے ختم کردیئے
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
تحریک انصاف نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے بیک ڈور رابطے بھی ختم کردیئے۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سردار ایاز صادق سے رابطے میں تھے تاہم اب ایاز صادق سے بیک ڈور رابطے بھی ختم کردیئے گئے۔
دونوں رہنماؤں نے مذاکرات کی بحالی کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ رکھا تھا جبکہ پی ٹی آئی کی مذاکرات سے علیحدگی کے باوجود ایازصادق نے حکومتی کمیٹی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
عدلیہ کو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کہے بس اب بہت ہوگیا،تحریک انصاف
1971میں جنرل یحییٰ نے کہا تھا کہ سب ٹھیک ہے ، تب ہی سقوط ڈھاکا ہوا ، گوریلا جنگ جاری ہے ، مسلح افواج کے سربراہان سے کہتا ہوں تحقیقات کریں کیوں اتنے زیادہ پاک فوج کے جوان شہید ہورہے ہیں؟
اسٹیٹ عوام ہوتی ہے ، اسٹیٹ، قومی اسمبلی ، سینٹ ، صوبائی حکومتیں ہوتی ہے (عمرایوب)عمران خان نے پاورفل آدمی کو کچھ لیٹر لکھے جن میں لکھا کہ فوج، عوام کے درمیان خلیج نہیں ہونی چاہیے ،( چیئرمین پی ٹی آئی)
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ عدلیہ کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے ، عدلیہ کو کہنا چاہیے کہ بس اب بہت ہوگیا، انسداد دہشت گری عدالت کے ججوں کو کھڑے ہونا ہوگا۔چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، سینیٹر شبلی فراز اور سلمان اکرم راجا نے خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج تین ایشو پر عوام سے بات کرنا چاہیں گے ، ایک سال پورا ہونے کو آیا، پی ٹی آئی کو عوام نے مینڈیٹ دیا تھا، نیشنل اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پاس 180 سیٹیں آئی تھیں، پنجاب میں بھی اکثریت تھی۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی انسان ہو، وہ یہ جانتا ہے کہ 2024کے الیکشن ریگڈ تھے ، ہم نے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا، نہ کمیشن بنا نہ عدلیہ نے نوٹس لیا، ہماری 74 پٹیشنز میں سے کوئی ایک بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم آج بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنا آئینی حق واپس لیں گے ، جعلی مینڈیٹ کے ساتھ بنی حکومت نے آئینی ترامیم پاس کروائی تھی، پی ٹی آئی کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ چھبیسویں ترمیم پر فیصلہ کیا جائے ، اس کا فیصلہ وہ جج صاحبان کریں جو ترمیم سے پہلے تعینات تھے ، اس سے پہلے ہم نے مذاکرات کے لئے بھی کہا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ خان صاحب نے کمیٹی بھی بنائی لیکن مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے ، حکومت نے راہ فرار اختیار کی اور موقع ضائع ہو گیا، اس وقت پی ٹی آئی پاکستان کی نمبر ون پارٹی ہے ، خان صاحب نے کچھ لیٹر لکھے پاورفل آدمی کو، خان صاحب نے لکھا کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج نہیں ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر نہیں ملتا، یہ جمہوریت کے لئے اچھی بات نہیں ہے ۔اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور بشری بی بی تک رسائی بند کردی گئی ہے ، توشہ خانہ ٹو کیس میں سماعت عجیب طریقے سے ملتوی کی گئی، عدلیہ کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے ، عدلیہ کو کہنا چاہیے کہ بس اب بہت ہوگیا، انسداد دہشت گردی عدالت کے ججوں کو کھڑے ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، حسان نیازی، میاں محمود الرشید سمیت زیر حراست تمام قیدی سیاسی قیدی ہیں، ان سب کو رہا ہونا چاہیے ، پاکستان میں قانون کی بالادستی نہیں ہے ، یہاں کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہے ۔عمر ایوب خان نے کہا کہ میں تمام حکومتی وزراء کو چیلینج کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مہنگائی کے معاملے پر مناظرہ کرلیں، بجلی، آٹا، گیس، چینی، سب مہنگا ہوگیا، لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے ، یہ دنیا کے سب سے جھوٹے لوگ ہیں۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اوپن خط لکھا، بانی چیئرمین پی ٹی آئی وزیراعظم رہ چکے ہیں وہ دوبارا وزیراعظم ہوں گے ، ان کے تجربے کا فائدہ اٹھانا چاہیے ، ان کے ویژن اور تجربے سے فائدہ اٹھائیں، بانی چیئرمین پی ٹی آئی پوری قوم کو متحد کرسکتا ہے ۔عمر ایوب خان نے کہا کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں، بلوچستان کے 8اضلاع میں کوئی پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرا سکتا، بلوچستان کے ممبران قومی اسمبلی ڈرے ہوئے ہیں، 1971 میں جنرل یحییٰ نے کہا تھا کہ سب ٹھیک ہے اور تب ہی سقوط ڈھاکا ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ گوریلا جنگ جاری ہے ، مسلح افواج کے سربراہان سے کہتا ہوں تحقیقات کریں کیوں اتنے زیادہ پاک فوج کے جوان شہید ہورہے ہیں؟ قوم کو اس کا جواب دیں، اسٹیٹ عوام ہوتی ہے ، اسٹیٹ، قومی اسمبلی ، سینٹ ، صوبائی حکومتیں ہوتی ہے ۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ پہلی بار آئی ایم ایف کا اس نوعیت کا وفد پاکستان میں آیا ہے ، آئین اور قانون کی بالادستی جب تک نہیں ہوگی تو کوئی یہاں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، یہ چیز سب کو نظر آرہی ہے ، یہی بات بانی چیئرمین پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں، ہمیں چیف جسٹس آف پاکستان نے دعوت دی ہے جوڈیشل ریفارز کی میٹنگ میں، ہم انشاء اللہ اس میں جائیں گے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو ملک کو جوڑ سکتے تھے انہیں توڑا گیا، 8 فروری کو درندگی کی گئی، پٹن نے ہوشربا رپورٹ جاری کی، سوچ ٹی وی نے الیکشن 2024 سے متعلق شاندار ڈاکیومنٹری بنائی ہے ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا، پہلے دھاندلی فریقین کرواتے تھے ، الیکشن کا دن تقریبآ ٹھیک گزرا، لیکن اس کے بعد کارروائی ڈالی گئی، ہر پولنگ اسٹیشن پر ڈبے کھولے گئے ، فارم 45 کو بدلا گیا، پولنگ سٹیشن سے پریزائیڈنگ افسران نے ووٹ والے ڈبے اور فارم 45 رٹرننگ افسران کے دفاتر میں منتقل کیے ۔ان کا کہنا تھا کہ گنتی دونوں اُمیدواروں کی موجودگی میں ہونی چاہیے ، رٹرننگ افسران کے دفاتر میں ہم بیٹھے ہوئے تھے تو کہا گیا گولی چل گئی ہے ، ہمیں گریبانوں سے پکڑ کر وہاں سے باہر پھینکا گیا، گولی کس نے چلائی ؟؟ کوئی تحقیق نہیں ہوئی، یہی عمل 90 فیصد پاکستان میں ہوا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کہا گیا باقی عمل خفیہ طور پر ہوگا، فارم 45 کے ساتھ ایک فارم 46 ہوتا ہے جس پر پریزائڈنگ افسر یہ لکھتا ہے کہ کتنے بیلٹس استعمال ہوئے ، کتنے ووٹ ڈلے اور کتنے ضائع ہوئے ، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹس پر آج بھی فارمز ایسے ملیں گے جہاں فارم 46 اور 45 میں ڈالے گئے ووٹ کچھ اور ہیں اور مجموعی نتیجہ کچھ اور ہے ۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا رکارڈ ہی پڑھ لیں تو سب عیاں ہو جائے گا، اس انتخاب کو بے دردی سے لوٹا گیا،اس رپورٹ کا مطالعہ کریں، سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے ، یہ ڈاکا چھپ نہیں سکتا، پاکستان کی آواز کو سلب کیا گیا، ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی حلقے میں قومی اسمبلی کا ٹرن آؤٹ 80 فیصد ہو اور صوبائی اسمبلی کا ٹرن آؤٹ 40فیصد ہو۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ اسمبلی قانونی جواز نہیں رکھتی، ہماری پٹیشنز سنی نہیں جا رہیں، میں نے تمام مواد الیکشن کمیشن میں فائل کیا، الیکشن کمیشن نے ہمارا مذاق اڑایا، کہا گیا آپ راتوں رات 400 فارمز بنا لائے ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہم کچھ نہیں کریں گے ، الیکشن ٹریبونل بنے ، پنجاب جیسے 12 کڑور آبادی والے صوبے میں 2 ججوں کو الیکشن ٹریبونل کے طور پر تعینات کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا مزید جج تعینات کیے جائیں، نام دینے پر اصرار کیا گیا، جسٹس شہزاد احمد خان نے جن ناموں پر اتفاق کیا، اس پر ہم سب تسلی رکھتے تھے ، اس کے جواب میں حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، قاضی فائز نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔