سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس قاضی جواد احسان اللہ نے کی۔ اسلام ٹائمز۔ سرکاری گاڑیوں کے ڈیوٹی کے بعد استعمال کے خلاف پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس قاضی جواد احسان اللہ نے کی۔ وکیل درخواست گزار ملک سلمان خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے درخواست سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف کی ہے، سرکاری افسران ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کو بے رحمانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ افسران سرکاری گاڑیوں کو پرائیویٹ تقریبات میں بھی استعمال کرتے ہیں، سرکاری گاڑیاں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی جاتی ہیں، سرکاری افسران جس طرح گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے، عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں درخواست پر سماعت سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف سرکاری افسران کے ڈیوٹی

پڑھیں:

شہباز شریف بھی جلد "مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگائیں گے، سراج الحق

مردان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ شہباز شریف بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود ڈیلیور نہیں کر سکے اور ملکی معیشت مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سراج الحق نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف بھی جلد "مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود ڈیلیور نہیں کر سکے اور ملکی معیشت مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے۔ مردان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ پاکستان مسائل میں بری طرح الجھ چکا ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے اثرات عدلیہ تک جا پہنچے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا آئی ایم ایف کے قرضے معیشت کے لیے ہیں یا کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لیے ہیں؟ سراج الحق نے الزام لگایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر غزہ اور فلسطینی عوام کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے بگڑتے تعلقات دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہیں اور صوبائی حکومت کا جرگہ اسٹیبلشمنٹ اور مرکزی حکومت کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مرکز کی موجودگی میں صوبائی حکومت کا افغانستان سے مذاکرات کرنا قومی پالیسی کے خلاف ہے اور اگر آج ایک صوبائی حکومت افغانستان سے مذاکرات کر رہی ہے تو کل بھارت سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق، خارجہ اور دفاعی پالیسی ملک بھر کے لیے ایک ہوتی ہے کیا اب ہر صوبہ اپنی الگ خارجہ پالیسی بنائے گا؟ سراج الحق نے مولانا فضل الرحمان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کرم ایجنسی کے مسئلے کو فرقہ وارانہ مسئلہ قرار دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تنازعات کی وجہ سے خیبر پختونخوا مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور بدامنی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کے پی میں جامعات کی وی سیز کے اختیارات گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو دینے پر جواب طلب
  • پارلیمنٹ آپ کچھ اور بات، یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی 
  • شہباز شریف بھی جلد "مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگائیں گے، سراج الحق
  • چیف جسٹس ڈوگرکاالقادر یونیورسٹی کی درخواست پر سماعت سے انکار
  • القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی چیریٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل طلب
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی درخواست پر سماعت سے انکار
  • ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • امریکی خاتون کی بہترین نگہداشت پر 16 سرکاری افسران کیلئے تعریفی اسناد کا اعلان
  • سیاست میں حصہ لینے پر کسی پر پابندی نہیں، پشاور ہائیکورٹ
  • ’ٹک ٹاکر نا بنیں‘ سرکاری ملازمین پر پابندی عائد