حارث رؤف نے ایک ہفتے مکمل آرام کے بعد نیٹ پر بولنگ شروع کر دی
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا پریکٹس سیشن شروع ہوگیا، فاسٹ بولر حارث رؤف نے نیٹ پر بولنگ شروع کر دی۔
ایک ہفتے مکمل آرام کے بعد قومی ٹیم کے فاسٹ بولر حارث رؤف نے آج نیٹس پر ہلکی پھلکی ٹریننگ شروع کی، حارث کی ٹریننگ کے دوران ڈاکٹر بھی ان کی فٹنس کا جائزہ لیتے رہے۔
رپورٹ کے مطابق حارث رؤف نے سیشن کے آغاز میں تنہا نیٹس پر چند گیندیں کرائیں۔
واضح رہے کہ حارث رؤف 3 ملکی ٹورنامنٹ کے پہلے میچ میں انجری کا شکار ہو گئے تھے۔
حارث رؤف انجری کی وجہ سے جنوبی افریقا اور فائنل میچ نہیں کھیل سکے تھے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
’اے آئی ڈی کوڈر‘ نے بنا کسی ٹریننگ کے انسانوں کا دماغ پڑھ کر سائنسدانوں کو حیران کردیا
ذرا تصور کریں کہ آپ کے دماغ میں چلنے والے خیالات کو بغیر کسی ٹریننگ کے پڑھا جا سکے اور انہیں الفاظ کی صورت میں تبدیل کیا جا سکے، یہ خیال کسی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ جدید سائنسی تحقیق کا ایک حیران کن قدم ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کے سائنسدانوں نے ایک ایسا مصنوعی ذہانت’ اے آئی برین ڈی کوڈر’ تیار کیا ہے جو انسانی دماغ کے خیالات کو بغیر کسی طویل مشق کے پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو ”کول“ یعنی زبردست کا خطاب دیا گیا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر ان لوگوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے جو افیزیا جیسے مرض کا شکار ہیں۔ ایک ایسی حالت جس میں انسان بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
پرانے طریقوں کا خاتمہ، ایک نئی راہ کی تلاش
ماضی میں دماغ پڑھنے کے لیے استعمال ہونے والے ڈی کوڈرز کو کئی گھنٹوں تک ایم آر آئی مشین میں بیٹھ کر کہانیاں سننے کی ضرورت ہوتی تھی، اور یہ بھی صرف اسی شخص کے لیے مؤثر ہوتے تھے جس کے دماغ پر انہیں مخصوص کیا جاتا تھا۔ تاہم، نئی تحقیق نے اس طویل اور مشکل مرحلے کو بڑی حد تک آسان بنا دیا ہے۔
کمپیوٹیشنل نیورو سائنٹسٹ الیگزینڈر ہتھ اور ان کے ساتھی گریجویٹ طالب علم جیری ٹینگ نے اس تحقیق کو کرنٹ بایولوجی نامی جرنل میں شائع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’ہم نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم مختلف طریقے سے یہ کام کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایک شخص کے دماغ کے لیے تیار کیے گئے ڈی کوڈر کو کسی دوسرے شخص کے دماغ پر منتقل کر سکتے ہیں؟‘
تحقیقاتی ٹیم نے ’فنکشنل الائنمنٹ‘ نامی ایک جدید طریقہ استعمال کیا۔ اس طریقے میں پہلے ایک فرد اور ایک دوسرے شخص یا ہدف فرد کے دماغ کی سرگرمیوں کا تجزیہ کیا گیا جب وہ ایک ہی آڈیو یا بصری مواد دیکھ یا سن رہے تھے۔ اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے ڈی کوڈر کو ہدف فرد کے دماغی عمل کے لیے تیار کیا، بغیر اس کے کہ اسے گھنٹوں کی ٹریننگ کی ضرورت ہو۔
جب اس ڈی کوڈر کو ایک نئی کہانی کے ذریعے ٹیسٹ کیا گیا، تو اگرچہ وہ الفاظ جو ڈی کوڈر نے پیش گوئی کیے، پوری طرح درست نہیں تھے، مگر ان کا مطلب کہانی کے مفہوم کے قریب تھا۔
ہتھ کے مطابق، سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ڈی کوڈر کو زبان کے ڈیٹا کے بغیر بھی تربیت دی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص صرف خاموش ویڈیوز دیکھ رہا ہو، تو بھی یہ ٹیکنالوجی اس کے دماغ میں زبان سے متعلق خیالات کو ڈی کوڈ کر سکتی ہے۔
افیزیا کے مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن
محققین کے مطابق، اس تکنیک کے ذریعے افیزیا کے شکار لوگوں کے لیے ایک ایسا انٹرفیس بنایا جا سکتا ہے جو ان کے خیالات کو الفاظ میں تبدیل کرے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق اظہار کرنے میں مدد دے۔ یہ ٹیکنالوجی اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی دماغ زبان اور بصری کہانیوں کو سمجھنے کے ایک جیسے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔
مستقبل کے امکانات، سائنس اور معاشرے کے لیے ایک تحفہ
یہ تحقیق نہ صرف سائنسی میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں اظہارِ خیال کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ تصور کریں کہ وہ لوگ جو بول نہیں سکتے یا جسمانی طور پر معذور ہیں، اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکیں گے۔
یہ ٹیکنالوجی ایک دن شاید ہمیں دماغی خیالات کے ذریعے ڈیوائسز کنٹرول کرنے، خوابوں کو ریکارڈ کرنے یا یہاں تک کہ ذہنوں کے درمیان براہِ راست رابطے کے قابل بنا دے۔
’اے آئی برین ڈی کوڈر‘ نہ صرف ایک سائنسی کامیابی ہے بلکہ یہ انسانی تجربے میں انقلاب برپا کرنے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ کون جانتا ہے، شاید آنے والے وقت میں ہم اپنے خیالات کو کاغذ پر لکھنے کے بجائے محض سوچ کر اپنی کہانیاں تخلیق کر رہے ہوں۔