موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، انسان کی جانب سے دہائیوں تک فطرت میں کی جانے والی چھیڑ چھاڑ اب موسمیا تی تغیرات کے نتیجے میں منفی اثرات مر تب کررہی ہے۔

ان موسمی حالات سے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع صوبہ بلوچستان بھی محفوظ نہیں رہا۔ ماضی میں جو صوبہ اپنے منفرد موسم کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک الگ مقام رکھتا تھا حالیہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی نے یہاں گہرے منفی نقوش چھوڑ دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں ملک میں خشک سالی کے خدشات: ’چنے کی تقریباً آدھی فصل کو نقصان پہنچ چکا ہے‘

رواں برس صوبے بھر میں بارشوں اور برف باری کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر تھا جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیر زمین پانی کی سطح متاثر ہورہی ہے۔

بات کی جائے اگر صوبے کے سب سے زیا دہ آباد شہر کوئٹہ کی تو کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1200 فٹ تک جا پہنچی ہے جبکہ زیر زمین پانی کی گراؤٹ میں سالانہ 10 سے 12 میٹر تک کمی واقع ہورہی ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں گرتی پانی کی سطح کی ایک بڑی وجہ پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیمز کا نہ ہونا ہے۔ حکومت ڈیمز تعمیر کرتی ہے لیکن مناسب میٹریل استعمال نہ ہونے سے یہ پائیدار نہیں رہتے۔ جس کی واضح مثال سال 2022 میں شدید بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب میں دیکھی گئی۔ جب سیلاب کی وجہ سے ڈیمز ٹوٹ کر ناکارہ ہوگئے۔

’اس کے علاوہ حکومت بارشوں سے جمع ہو نے والے پانی کو بھی ذخیرہ کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں گیلن پانی ندی نالوں کی نذر ہو جا تا ہے۔‘

بات کی جائے اگر کوئٹہ کی تو کوئٹہ میں کل 405 ٹیوب ویلز میں سے 51 غیر فعال ہیں، پینے کے پانی کے لیے بنائے گئے فلٹریشن پلانٹس میں سے بھی 90 فیصد بند پڑے ہیں۔ ایسے میں کوئٹہ کے لوگوں کا انحصار فوسل واٹر پر ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو تا جارہا ہے۔

سیکریٹری آبپاشی بلوچستان حافظ عبدالماجد کے مطابق صوبے میں پانی کے ذخائر کو بہتر بنانے اور زراعت کے فروغ کے لیے اہم اقدامات جاری ہیں، اس ضمن میں پنجگور ڈیم اور خاران میں زیرتعمیر گروک ڈیم جیسے بڑے منصوبے نہ صرف زرعی ترقی بلکہ عوامی فلاح کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ پنجگور ڈیم جو اس سال شروع کیا گیا ہے، یہ علاقے میں سماجی و اقتصادی ترقی کی نوید ہے، اس منصوبے کے تحت 24 ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کیا جائے گا جبکہ پنجگور کو پینے کے پانی کی ضروریات آئندہ 50 سال تک پوری ہوں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح خاران میں زیر تعمیر گروک ڈیم دسمبر 2025 تک مکمل ہوگا جس پر 27 ارب روپے کی لاگت آئےگی، اس ڈیم سے 12 ہزار 500 ایکڑ اراضی سیراب ہوگی اور آئندہ 45 سال تک علاقے میں پانی کی قلت دور کرنے میں مدد ملے گی۔

سیکریٹری آبپاشی بلوچستان حافظ عبدالماجد کے مطابق اس منصوبے سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا، مقامی معیشت کو استحکام ملے گا اور خوراک کی فراہمی یقینی بنائی جائےگی۔

یہ بھی پڑھیں طویل خشک سالی کے بعد ملکہ کوہسار مری میں برفباری، سیاحوں کی بڑی تعداد امڈ آئی

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آبی وسائل کے بہتر استعمال، نہری نظام کی بحالی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے ضیاع کو روکنے پر خصوصی توجہ دی جار ہی ہے۔ گروک ڈیم بلوچستان کی زرعی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا جو پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافہ کرےگا اور زرعی پیداوار کو فروغ دےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بارشیں برف باری بلوچستان پانی پانی ذخیرہ خشک سالی ڈیمز کی تعمیر نہری نظام وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان پانی پانی ذخیرہ خشک سالی ڈیمز کی تعمیر وی نیوز کی وجہ سے خشک سالی پانی کی نے والے کے لیے

پڑھیں:

بھارت اور نیپال میں شدید بارشیں، تقریباﹰ سو افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) بھارت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وہاں اور پڑوسی ملک نیپال میں حالیہ دنوں میں ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں بدھ کے دن سے اب تک تقریباﹰ 100 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ساتھ ہی بھارتی محکمہ موسمیات نے اس خطے میں مزید بے موسمی بارشوں کی پیش گوئی کرتے ہوئے بدھ کے روز ملک میں شدید موسم سے جڑے خطرات کے خلاف وارننگ بھی جاری کی تھی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق آج ہفتے کے روز بھی بھارت کے مشرقی اور وسطی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارشیں ہونے کے امکانات ہیں، جب کہ ملک کے مغربی علاقوں میں گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) جیسی صورتحال رہے گی۔ بارشوں کے نتیجے میں انسانی اموات

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں بھارتی ریاست بہار کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بدھ کے دن سے اب تک وہاں شدید بارشوں کے باعث کم از کم 64 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اس بارے میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے آج بروز ہفتہ بتایا کہ گرج چمک کے ساتھ ہونے والی طوفانی بارشوں میں جمعرات اور جمعے کے روز صرف ریاست بہار میں ہی کم از کم 61 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

علاوہ ازیں روئٹرز کی ایک رپورٹ میں مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بدھ سے اب تک بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھی 20 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

اسی طرح نیپال کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اہلکاروں کے مطابق اسی عرصے میں وہاں آسمانی بجلی گرنے اور شدید بارشوں کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

جنوبی بھارت میں عام طور پر گرمیوں میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جون میں شروع ہوتا ہے۔ وہاں حالیہ برسوں میں سال کے اس حصے میں شدید گرمی کی متعدد لہروں کے باعث کئی اموات بھی ہوئی ہیں۔

بھارتی محکمہ موسمیات نے اس سال بھی پیش گوئی کی ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں اپریل میں ماضی کے مقابلے میں گرمی کی شدت کہیں زیادہ ہو گی۔

پچھلے سال ماہرین کی جانب سے جاری کردہ ایک انتباہ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھارت میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گرمی کی لہروں اور طوفانی بارشوں جیسے شدید موسمی حالات میں آئندہ اور اضافہ دیکھا جائے گا۔

م ا / م م (روئٹرز، اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • مئی سے مہنگائی میں اضافہ ِ پھر استکام ِ آئی ایم ایف دسط وصولی میں تاخیر ہوسکتی : گورنر سٹیٹ بنک 
  • جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
  • پاکستان میں مون سون کے دوران زائد بارشوں کی پیشگوئی
  • بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات، بولان میل کی وقت تبدیل
  • فتنے کےساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوسکتی، حکومت کسی اصول پر کمپرومائز نہیں کرے گی، اسحاق ڈار
  • کوئٹہ، مون سون بارشوں کے دوران ہنگامی صورتحال کیلئے کنٹرول روم قائم
  • امریکا میں شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلاب، 25 ہلاکتیں، متعدد ریاستیں متاثر
  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات
  • بھارت اور نیپال میں شدید بارشیں، تقریباﹰ سو افراد ہلاک