جوہری پروگرام کے دفاع میں کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے، ایرانی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) اسماعیل بقائی کے مطابق، ''ایران کا پرامن جوہری پروگرام جاری ہے اور گزشتہ تین دہائیوں سے ایسا ہی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے رکن کی حیثیت سے یہ ایران کا حق ہے… یقینی طور پر ہم اس سلسلے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے۔‘‘
یروشلم میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار 16 فروری کو کہا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے جوہری عزائم اور اس کے اثر و رسوخ کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس موقع پر کہا: ''ہر دہشت گرد گروہ کے پیچھے، تشدد کی ہر کارروائی کے پیچھے، عدم استحکام پیدا کرنے والی ہر سرگرمی کے پیچھے، ہر اس چیز کے پیچھے ایران ہے، جو ان لاکھوں لوگوں کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہے، جو اس خطے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت
ایران نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے خلاف بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
نیتن یاہو نے اتوار کے روز یروشلم میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کی مدد سے ایران کے خلاف ''کام کی تکمیل کرے گا‘‘۔
نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ 16 ماہ کے دوران ایران کے دہشت گردانہ عمل کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''دوسروں کو دھمکیاں دینا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر دونوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل ایران کے خلاف ''کچھ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی بحال کر دی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز یروشلم میں یہ بھی کہا تھا کہ ایران کبھی بھی جوہری طاقت نہیں بنے گا۔
ایرانی وزار خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس حوالے سے کہا کہایران کی جوہری سرگرمیاں اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے حفاظتی پروٹوکول کے مطابق ہیں۔
ا ب ا/ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ایران کے خلاف کہ اسرائیل نیتن یاہو کے پیچھے تھا کہ
پڑھیں:
ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
تہران (سب نیوز )ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں تہران کے جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔غیر ملکی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی کر رہے تھے جب کہ امریکی وفد کی قیادت صدر ٹرمپ کے مشرق وسطی کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کی۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمعیل بغائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ایران اور امریکا کے درمیان عمان کے وزیر خارجہ کی ثالثی سے بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔اسمعیل بغائی کا کہنا تھا کہ دونوں وفود کے لیے الگ الگ کمرے مختص کیے گئے تھے اور وہ عمان کے وزیر خارجہ کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات پہنچا رہے تھے۔یاد رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے بڑھتے ہوئے پروگرام کو نہ روکا تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
اگرچہ دونوں فریق مذاکرات میں کچھ پیش رفت کی امید ظاہر کر رہے ہیں تاہم وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازع پر اتفاق رائے سے بہت دور ہیں جب کہ ابھی تک اس بات پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا ہے کہ مذاکرات ٹرمپ کی خواہش کے مطابق براہ راست ہوں یا پھر ایران کے مطالبے پر بلواسطہ جاری رہیں۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اور ایران کے درمیان پہلی بار ہونے والے مذاکرات سے قبل عباس عراقچی نے مسقط میں عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی سے ملاقات کی تاکہ انہیں تہران کے اہم نکات اور مقف سے آگاہ کیا جاسکے جو وہ دوسرے فریق تک پہنچائیں۔
مذاکرات میں پیش رفت مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جہاں پر 2023 سے غزہ اور لبنان میں تنازعات کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل حملوں، بحیرہ احمر میں حوثی حملوں، اور شام میں حکومت کی برطرفی جیسے واقعات کے باعث کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم، مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں خطے میں تصادم کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔دوسری جانب، تہران نے اپنے ان پڑوسی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ جہاں پر امریکی اڈے موجود ہیں کہ وہ اگر ایران پر کسی امریکی فوجی حملے میں ملوث ہوئے تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے سرکاری میڈیا کو بتایا اگر امریکا برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہو تو ابتدائی مفاہمت کا امکان موجود ہے تاہم مذاکرات کے دورانیے سے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ان کا کہناتھا کہ ابھی پہلی ملاقات ہوئی ہے اور میں کئی بنیادی اور ابتدائی امور کو واضح کیا گیا ہے، اس دوران یہ بھی دیکھا جائے گا کہ دونوں فریقین مذاکرات کے حوالے سے کتنا سنجیدہ ہیں اور ان کے کیا ارادے ہیں، اس کے بعد ہی ٹائم لائن کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ایک ایرانی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عباس عراقچی کو مذاکرات کے لیے مکمل اختیار دے دیا ہے۔
امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک نے کئی دہائیوں سے تہران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے، ایران اس الزام کو مسترد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف سویلین مقاصد کے لیے ہیں۔ہفتہ کے روز، پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ حسین سلامی نے کہا کہ ملک جنگ کے لیے تیار ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایرنا ( آئی آر این اے ) کے مطابق حسین سلامی نے کہا کہ ہمیں جنگ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم جنگ میں پہل نہیں کریں گے لیکن ہم کسی بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔2015 میں، ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی امریکا، فرانس، چین، روس، اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ جرمنی کے ساتھ اپنی جوہری سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔
2015 کے معاہدے کے بعد، جسے باضابطہ طور پر مشترکہ جامع ایکشن پلان (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکنے کی ضمانت کے بدلے ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔ 2018 میں، ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت کے دوران، امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا اور ایران پر سخت پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔
ایک سال بعد، ایران نے معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا اور اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر دیا۔گذشتہ پیر کے روز، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی مشیر علی لاریجانی نے خبردار کیا تھا کہ اگرچہ ایران جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر اس پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔