Express News:
2025-04-16@22:48:50 GMT

سیاست میں حصہ لینے پر کسی پر پابندی نہیں، پشاور ہائیکورٹ

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

پشاور:

پشاور میں قائمقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کی زیرِ صدارت چارسدہ سرڈھیری سے لاپتہ دو بھائیوں کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

دورانِ سماعت عدالت نے فوکل پرسن سے متعلق پوچھا جس پر جواب دیا گیا کہ فوکل پرسن دوسری عدالت میں ہیں اور جلد آئیں گے۔

مدعی نے عدالت میں بیان دیا کہ اس کے دو بھائی 2023 سے لاپتہ ہیں اور وہ چھ بھائی ہیں، ہمارا تعلق چارسدہ سرڈھیری سے ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ چھ بھائیوں میں سے انہیں کیوں اٹھایا گیا؟ جس پر مدعی نے کہا کہ ان کے دو بھائیوں کو اٹھایا گیا ہے، ایک کی عمر 16 سال ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ گاؤں میں اور بھی ہزاروں لوگ ہیں، تو صرف ان دونوں کو کیوں اٹھایا گیا؟ جس پر مدعی نے کہا کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میں نے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی ہے اور پیش امام ہوں۔

قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں حصہ لینے پر کسی کو پابندی نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن بھی تو سیاست کرتے ہیں، اس کیس میں حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

مدعی نے کہا کہ اگر ان کے بھائیوں کے خلاف کوئی گناہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، جہاں انہیں سزا دی جائے یا سزا کے طور پر ان کا معاملہ حل کیا جائے۔

اے اے جی محمد انعام نے عدالت کو بتایا کہ ایک لاپتہ شخص کے خلاف پہلے بھی ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں۔  وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ 

قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جواب آنے کے بعد اس کیس کو سنیں گے، انہوں نے مدعی کو ہدایت دی کہ وہ چارسدہ سے یہاں نہ آئیں وہاں عدالت میں پیش ہوں، ہم ویڈیو لنک کے ذریعے آپ کو سنیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قائمقام چیف جسٹس چیف جسٹس نے عدالت میں نے کہا کہ

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی کیس: جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی سے متعلق اہم کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو بھی کام سے روکنے کی استدعا قبول نہیں کی۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز کو نوٹسز جاری کر دیے، جبکہ اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس میں ہمارے سامنے سات درخواستیں ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل ادریس اشرف نے عدالت کو بتایا کہ وہ بانی پی ٹی آئی اور راجہ مقسط کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور ان کی جانب سے بنیادی حقوق کے معاملے پر درخواست دائر کی گئی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پہلے ججز کی درخواست سننا بہتر ہوگا، رولز کے مطابق بھی سینئر وکیل کو پہلے سنا جانا چاہیے۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے وکلا منیر اے ملک اور صلاح الدین روسٹرم پر آگئے، اور منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس میں دو اہم نکات ہیں؛ ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سینیارٹی کیا ہوگی؟ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سول سروس ملازمین کے سینیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سینیارٹی پرانی ہائیکورٹ والی چلے گی یا تبادلے کے بعد نئی ہائیکورٹ سے سینیارٹی شروع ہوگی؟

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سینیارٹی میں تبدیلی پر؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج کا تبادلہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہوا، وہ پڑھ دیں۔ منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے مطابق جس جج کا تبادلہ ہو، اس کی رضامندی ضروری ہے، اور دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کی رضامندی بھی لازم ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جج کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، ہمارا اعتراض یہی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا ہوتا، وہاں تو عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر جج کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔

منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ صدر مملکت کے پاس ججز تبادلوں کا لامحدود اختیار نہیں، اور ججز کی تقرری کے آرٹیکل 175 اے کے ساتھ ملا کر اس معاملے کو پڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق تمام ججز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ججز کے تبادلوں میں اضافی مراعات ہوتیں تو اعتراض بنتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر صدر خود سے ججز کے تبادلے کرے تو سوال اٹھے گا، لیکن چیف جسٹس کی سفارش پر تبادلے آئین کے مطابق ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے۔

سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ اسی طرح جسٹس خادم حسین اور جسٹس محمد آصف کو بھی کام سے روکنے کی استدعا مسترد کی گئی۔

عدالت نے متعلقہ ہائیکورٹس کے رجسٹرارز اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا
  • وفاقی حکومت نے ججز تبادلہ کیس میں تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی
  • وفاقی حکومت کی ہائیکورٹ کے 5 ججز سمیت تمام درخواستیں خارج کرنیکی استدعا
  • حکومت پر پیٹرول لیوی 70 روپے تک لینے کی پابندی ختم، صدارتی آرڈیننس جاری
  • لاپتا 4افغان بھائی؛ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بازیابی کیلیے پولیس کو مزید دو ہفتوں کا وقت دیدیا
  • وائس چانسلرز کی تقرریوں کا معاملہ: خیبر پختونخوا حکومت کی اپیل واپس لینے پر خارج
  • پشاور ہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپور کو 40 روزہ حفاظتی ضمانت دیدی
  • ملزمان کو گنجا کر کے ویڈیو اپلوڈ کرنے پر لاہور ہائیکورٹ پولیس پر برہم
  • لاہور ہائیکورٹ: ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر پولیس کیخلاف اظہار برہمی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی کیس: جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین اور جسٹس آصف سعید کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد