راشد لطیف نے اسپنر راشد خان کو وسیم اکرم سے بھی بہتر کیوں قرار دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر اور افغان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ راشد لطیف نے افغان کرکٹ ٹیم کے سپنر راشد خان سابق کپتان وسیم اکرم سے اچھا کرکٹر قرار دیتے ہوئے کہا ہے راشد خان کی وجہ سے افغانستان ٹیم کو صحیح معنوں میں شہرت ملی، مجھے لگتا ہے کہ افغان سپنر راشد خان سوئنگ کے سلطان وسیم سے بڑے کرکٹر ہیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں مختلف کرکٹرز کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سابق کرکٹر راشد لطیف نے قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو مشورہ دیا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں بھرپور واپسی کریں کیوں کہ لیجنڈ ہمیشہ ٹیسٹ کرٹ بناتی ہے، وائٹ بال سے کبھی کوئی لیجنڈ نہیں بنتا۔
یہ بھی پڑھیں: ’مجھے لوٹ لیا گیا‘، وسیم اکرم کے ساتھ آسٹریلیا میں کیا واردات ہوئی؟
میزبان نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی اپنے شاہد آفریدی کے اثرورسوخ میں ہیں، اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب میں راشد لطیف نے کہا کہ شاہد خان آفریدی سے تو ہم بھی متاثر ہیں، شاہین تو ان کے داماد ہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ زیراثر ہیں، کیوں کہ شاہین آفریدی مینٹلی تگڑے ہیں۔
انہوں نے محمد رضوان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال میں اگر کوئی اچھا کریکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم میں آیا ہے تو وہ محمد رضوان ہیں، کرکٹ کو سائیڈ پر رکھ دیں تو محمد رضوان بہت اچھے انسان ہیں۔
انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان روہیت شرما کے بارے میں راشد لطیف نے کہا کہ وہ وائٹ بال کے کھلاڑیوں میں سے ایک بڑے کھلاڑی ہیں، روہیت شرما کو اب انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے، چیمپیئنز ٹرافی کے بعد وہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑ دیں گے، وہ آئی پی ایل کھیلتے رہیں گے۔
سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ افغانستان کو پہیچان صحیح معنوں میں راشد خان سے ملتی ہیں، وہ وسیم اکرم سے بھی اچھے کھلاڑی ہیں، اپنے ملک کے حساب سے سب کو دیکھنا چاہیے، میں ان کو مشورہ دوں گا کہ اپنی ٹیسٹ ٹیم کو بہتر کریں اور پاکستان سے جتنی ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے ہیں کھیلیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’پنگا نہیں لینے کا اپن سے‘، راشد لطیف نے یہ دھمکی کس کو دی؟
انہوں نے کہا کہ تین پلیئرز نے اپنا کیریئر ضائع کیا، سلمان بٹ اچھے کپتان تھے جبکہ محمد آصف جیسا بولر پاکستان میں کبھی آیا ہی نہیں۔’محمد عامر گریٹ ٹیلینٹ، لیکن اپنے آپ کو گنوا دیا، 5 سال بہت ہوتے ہیں، پاکستان کا بھی بہت بڑا نقصان ہوا، اپنا نقصان بھی ہوا اور کرکٹ کا بہت زیادہ نقصان کرگئے یہ لوگ۔
راشد لطیف نے کہا کہ اگر کوئی پلیئر ایک بار کسی غیرقانونی کام میں ملوث پایا جائے تواسے دوبارہ قومی ٹیم میں نہیں آنا چاہیے، عامر سے ملتا بھی ہوں، کوچنگ بھی کی ہے، میرا اختلاف عامر سے نہیں بلکہ کرکٹ کو جو نقصان ہوا اس سے دکھ ہے۔
وسیم اکرم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک بار انگلینڈ میں سائیڈ میچ ہورہا تھا، میں کھیل نہیں رہا تھا، وسیم اکرم مجھے لے گئے پریکٹس کے لیے، میں نے کہا پیچھے بال نہیں کرانا، وسیم اکرم نے دو بالیں کروائیں پھر تیسرا باؤنسر مار دیا، وسیم اکرم، وقار یونس مینٹلی ٹف لوگ ہیں، ان سے ڈریسنگ روم میں ہم نے سیکھا کہ ڈریسنگ روم کا ماحول کیسے رکھنا ہے۔
احمد شہزاد سے متعلق گفتگو میں انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وہ اچھا بولتے ہیں، ان کی اب دوسری فیلڈ ہوگئی ہیں، ان کو اب کرکٹ میں واپس نہیں آنا چاہیے، ان کو اسی فیلڈ میں رہنا چاہیے، ان کے پاس کنٹینٹ اچھا ہوتا ہے، یہ پی سی بی میں جاکر اچھا کام کرسکتے ہیں۔
بابر اعظم کی کرکٹ سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے راشد لطیف نے کہا کہ بابراعظم اب آؤٹ ہونا شروع ہوگئے ہیں، جاوید میاںداد اور یہ دونوں اپنے زمانے میں آؤٹ نہیں ہوتے تھے، اگر آپ نے جاوید میاںداد کے نقش قدم پر چلنا ہے تو آؤٹ نہیں ہونا، ان کو کپتانی سے ہٹا کے شاہین آفریدی کو لایا، پھر ان کو کپتان بنایا پھر ہٹایا، اس سے ان کی طاقت توڑی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ’تم کہاں جاؤ گے سوچو محسن‘ راشد لطیف کی محسن نقوی پر شاعرانہ تنقید
سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا تھا کہ شعیب اختر کا ریکارڈ توڑنا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا بالنگ کرنے کا انداز مختلف تھا۔ فاسٹ بولر محمد سمیع کی گیند ایسی تھی جو ہاتھ میں آکر بہت تیز لگا کرتی تھی، محمد سمیع، شعیب اختر کے برابر کے ہی بولر تھے ۔سابق کپتان نے کہا کہ ہم محمد سمیع کو دیکھ نہیں پائے کہ وہ کس فارمیٹ کا کھلاڑی ہے اس کو ٹیسٹ میچ کھلاتے چلے گئے ، وہ وائٹ بال کا بہت اچھا بولر تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان بابر اعظم پاکستان راشد خان راشد لطیف رضوان روہیت شرما کرکٹ محمد عامر وسیم اکرم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان راشد لطیف رضوان کرکٹ وسیم اکرم راشد لطیف نے کہا کہ کے بارے میں کرکٹ ٹیم کے وسیم اکرم انہوں نے
پڑھیں:
قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔
لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔(جاری ہے)
آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔
وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔
انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔ جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔
لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔
ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔
جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔