واشنگٹن: امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کے صدارتی اختیارات کے معاملے پر بڑے قانونی چیلنج کا سامنا ہے جس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ہیمپٹن ڈیلنگر کو ان کے عہدے سے 7 فروری کو ایک مختصر ای میل کے ذریعے فوری طور پر برطرف کر دیا، حالانکہ وہ آفس آف اسپیشل کونسل کے سربراہ تھے، جو سرکاری بدعنوانیوں، اخلاقیات کی خلاف ورزیوں اور سرکاری ملازمین کے تحفظ کا ذمہ دار ایک آزاد ادارہ ہے۔

ڈیلنگر نے اپنی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا، جس پر ضلعی عدالت اور اپیلز کورٹ نے ٹرمپ کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر بحال کرنے کا حکم دیا۔ اب معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ صدر کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے اور کوئی بھی وفاقی جج صدر کی انتظامی طاقت میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

ٹرمپ کے وکیل سارہ ایم ہیرس نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عارضی احکامات کے ذریعے صدر کے اختیارات محدود کرے اور کسی افسر کو زبردستی عہدے پر برقرار رکھے۔

ڈیلنگر اور ان کے وکلا نے مؤقف اپنایا کہ ان کی برطرفی امریکی قوانین کے خلاف ہے، کیونکہ 2024 میں جب انہیں سینیٹ کی منظوری سے تعینات کیا گیا تھا تو ان کے عہدے کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی تھی۔

امریکی قانون کے مطابق، صدر کسی آزاد ادارے کے سربراہ کو صرف غفلت، نااہلی یا سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر برطرف کر سکتے ہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایسی کوئی قانونی وجہ فراہم نہیں کی۔

سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت پہلے بھی صدارتی اختیارات میں توسیع کے حق میں فیصلے دیتی رہی ہے۔ اگر ٹرمپ کے مؤقف کو تسلیم کر لیا گیا، تو اس کا مطلب ہوگا کہ مستقبل میں امریکی صدر کو کسی بھی آزاد حکومتی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کا لامحدود اختیار حاصل ہو جائے گا، جو کہ امریکی انتظامی نظام میں بڑی تبدیلی ہوگی۔

کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے 1935 کے تاریخی فیصلے Humphrey’s Executor v.

United States کو ختم کر دیا تو اس سے وفاقی حکومت کی آزادی کمزور ہو جائے گی، اور صدر کو زیادہ طاقتور انتظامی کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس اہم مقدمے پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے، جس کا امریکی سیاست پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سپریم کورٹ میں کرنے کا

پڑھیں:

پشاور ہائی کورٹ کا اسد قیصر کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم

پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس عبد الفیاض نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر اسد قیصر عدالت میں خود پیش ہوئے۔

اسد قیصر نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ وہ گزشتہ 10 سال سے ہر رمضان میں عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں اور اس رمضان میں بھی ان کا عمرہ پر جانے کا ارادہ ہے، لہٰذا کیس کی سماعت رمضان کے بعد کی جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آفس سے پوچھا جائے کہ آیا رپورٹ موصول ہوئی ہے یا نہیں، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ جلد رپورٹ جمع کروا سکیں۔

عدالت نے اسد قیصر کو 8 اپریل تک حفاظتی ضمانت فراہم کرتے ہوئے گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ بڑی مصیبت میں پھنس گئے
  • پشاور ہائی کورٹ کا اسد قیصر کو 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • انسانی اسمگلنگ میں ایف آئی اے کے51 افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف
  • ایلون مسک کی سرپرستی میں قائم ادارے پر ٹیکس دہندگان کی ذاتی معلومات تک رسائی کی کوششوں کا الزام ، 14 امریکی ریاستوں کا عدالت سے رجوع
  • ٹرمپ کے اختیارات کا پہلا بڑا امتحان، عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر
  • کشی نگر کی مدنی مسجد پر بلڈوزر کارروائی سے سپریم کورٹ حکومت سے ناراض
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کا دورہ مکمل کرکے سعودی عرب پہنچ گئے
  • امریکا سے بے دخل کیے جانے والے شہریوں کو لے کر ایک اور جہاز بھارت پہنچ گیا
  • پتوکی ، کھلے مین ہول میں گر کر دو افراد جاں بحق، ورثا کے احتجاج پر بلدیہ کے دو افسران کے خلاف مقدمہ درج