کراچی:

سرکاری گاڑیوں کے ڈیوٹی کے بعد استعمال کے خلاف پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر سماعت جسٹس وقار احمد اور جسٹس قاضی جواد احسان اللہ نے کی۔

وکیل درخواست گزار ملک سلمان خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے درخواست سرکاری افسران کے ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے خلاف کی ہے، سرکاری افسران ڈیوٹی اوقات کار کے بعد سرکاری گاڑیوں کو بے رحمانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ افسران سرکاری گاڑیوں کو پرائیویٹ تقریبات میں بھی استعمال کرتے ہیں، سرکاری گاڑیاں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی جاتی ہیں، سرکاری افسران جس طرح گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ 

عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے بعد سرکاری گاڑیوں سرکاری افسران

پڑھیں:

مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

سندھ ہائی کورٹ نے نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل کے کیس میں ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے مصطفیٰ عامر کے اغواء کی ایف آئی آر پڑھ کر سنائی اور کہا کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغواء کیا گیا۔

سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ تحقیقات کے دوران مغوی کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا، مغوی کی والدہ نے بتایا کہ انہیں 2 کروڑ روپے کے تاوان کی کال موصول ہوئی ہے، تاوان کی کال کے بعد کیس کی انویسٹی گیشن اے وی سی سی پولیس کو منتقل ہو گئی، 8 فروری کو ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ملزم کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ سی آئی اے کی جانب سے کون تفتیش کر رہا تھا؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ انسپکٹر امیر سی آئی اے کے تفتیشی افسر تھے، 4 بج کر 40 منٹ پر کارروائی کی گئی جو 9 بجے تک جاری رہی، ملزم نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی۔

عدالت نے سوال کیا کہ ملزم کے گھر سے کونسا اسلحہ برآمد ہوا ہے؟

سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلحہ برآمدگی سے متعلق الگ ایف آئی آر درج کی گئی ہے، ملزم ارمغان کو 10 فروری کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا، ملزم کو 3 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کی فائرنگ سے پولیس افسر اور اہلکار زخمی ہوئے، ملزم کا ایک ماہ کا جسمانی ریمانڈ مانگا تھا جو نہیں ملا۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم کے قبضے سے مغوی کا ایک موبائل فون ملا تھا، ریکارڈ کے مطابق ملزم کے خلاف پہلے بھی 5 مقدمات ہیں، ملزم پہلے بھی بوٹ بیسن کے ایک کیس میں مفرور تھا، ملزم ارمغان پر بھتے کا مقدمہ تھا جس میں مفرور تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ ٹرائل کورٹ نے کس وجہ سے جسمانی ریمانڈ سے انکار کیا ہے؟

سرکاری وکیل نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ سے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ مار پیٹ کی وجہ سے جسمانی ریمانڈ نہیں ملا، بتائیں کیا تشدد ہوا ہے؟

ملزم ارمغان نے عدالت میں بتایا کہ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ دیکھیں ان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان ہے۔

ملزم کی شرٹ اوپر کر کے دکھایا گیا کوئی نشان نہیں ملا۔

ملزم ارمغان نے کہا کہ نچلے حصے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کی وجہ سے حکومت کو مطالبات پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، رانا ثنااللہ
  • کے پی میں جامعات کی وی سیز کے اختیارات گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو دینے پر جواب طلب
  • شہباز شریف بھی جلد "مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگائیں گے، سراج الحق
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • امریکی خاتون کی بہترین نگہداشت پر 16 سرکاری افسران کیلئے تعریفی اسناد کا اعلان
  • ’ٹک ٹاکر نا بنیں‘ سرکاری ملازمین پر پابندی عائد
  • سرکاری ملازمین کیلئے برُی خبر
  • امریکی خاتون کی بہترین نگہداشت پر 16 سرکاری افسران کو تعریفی اسناد دی جائیں گی