ٹرمپ کے اقدامات سے ایڈز کے مریضوں کی ہلاکت بڑھ سکتی ہے، اقوامِ متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فنڈز میں کی جانے والی کٹوتی کے نتیجے میں ایڈز کے مریضوں میں ہلاکت بڑھ سکتی ہے۔ یہ اقدام دنیا بھر میں ایڈز کے علاج کے حوالے سے کی جانے والی مساعی کو ناکامی سے دوچار کرسکتا ہے۔
امریکا عالمی سطح پر انفرادی حیثیت میں سب سے زیادہ ترقیاتی امدادی فنڈز فراہم کرنے والا ملک ہے۔ یہ فنڈنگ دی یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جنوری میں امریکی صدر کا منصب دوبارہ سنبھالتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم دیا کہ تین ماہ کے لیے امریکا کی طرف سے بیرونی امداد روک دی جائے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے اہم منصوبے کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔ اِن منصوبوں سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
بیماریوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے پروگرام کے سربراہ نے اتوار کو ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکا کی بیرونی امداد تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ ایڈز کے لاکھوں مریضوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔
یو ایس ایڈز کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ونی بیانییما نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ میں یہ بات بتادینا چاہتی ہیں کہ امریکا کی غیر ملکی فنڈنگ میں رونما ہونے والی کمی انتہائی خطرناک ہے۔ ایڈز کے علاج کے حوالے سے دی جانے والی فنڈنگ روک کر امریکا کے صدر نے لاکھوں مریضوں کو موت کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
فاؤنڈیشن فار ایڈز ریسرچ کے تجزیے کے مطابق امریکا کی طرف سے ایڈز کے علاج کے لیے کی جانے والی فنڈنگ سے دنیا بھر میں ایڈز کے 2 کروڑ سے زائد مریض مستفید ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ 2 لاکھ 70 سے زائد ہیلتھ ورکرز کا بھی روزگار لگا ہوا ہے۔ ونی بیانییما نے بتایا کہ پانچ سال میں ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے اور مرنے والوں کی تعداد کم و بیش 63 لاکھ رہی ہے۔ اِسی مدت کے دوران مریضوں کی تعداد میں 87 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جانے والی امریکا کی کی طرف سے میں ایڈز ایڈز کے کے لیے
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟