اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فنڈز میں کی جانے والی کٹوتی کے نتیجے میں ایڈز کے مریضوں میں ہلاکت بڑھ سکتی ہے۔ یہ اقدام دنیا بھر میں ایڈز کے علاج کے حوالے سے کی جانے والی مساعی کو ناکامی سے دوچار کرسکتا ہے۔
امریکا عالمی سطح پر انفرادی حیثیت میں سب سے زیادہ ترقیاتی امدادی فنڈز فراہم کرنے والا ملک ہے۔ یہ فنڈنگ دی یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جنوری میں امریکی صدر کا منصب دوبارہ سنبھالتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم دیا کہ تین ماہ کے لیے امریکا کی طرف سے بیرونی امداد روک دی جائے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے اہم منصوبے کھٹائی میں پڑگئے ہیں۔ اِن منصوبوں سے مستفید ہونے والے لاکھوں افراد کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
بیماریوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے پروگرام کے سربراہ نے اتوار کو ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکا کی بیرونی امداد تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ ایڈز کے لاکھوں مریضوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔
یو ایس ایڈز کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ونی بیانییما نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ میں یہ بات بتادینا چاہتی ہیں کہ امریکا کی غیر ملکی فنڈنگ میں رونما ہونے والی کمی انتہائی خطرناک ہے۔ ایڈز کے علاج کے حوالے سے دی جانے والی فنڈنگ روک کر امریکا کے صدر نے لاکھوں مریضوں کو موت کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔
فاؤنڈیشن فار ایڈز ریسرچ کے تجزیے کے مطابق امریکا کی طرف سے ایڈز کے علاج کے لیے کی جانے والی فنڈنگ سے دنیا بھر میں ایڈز کے 2 کروڑ سے زائد مریض مستفید ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ 2 لاکھ 70 سے زائد ہیلتھ ورکرز کا بھی روزگار لگا ہوا ہے۔ ونی بیانییما نے بتایا کہ پانچ سال میں ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے اور مرنے والوں کی تعداد کم و بیش 63 لاکھ رہی ہے۔ اِسی مدت کے دوران مریضوں کی تعداد میں 87 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جانے والی امریکا کی کی طرف سے میں ایڈز ایڈز کے کے لیے

پڑھیں:

جانیے دنیا کے سب سے اندوہناک غذائی قلت اور مہاجرت کے بحران بارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 فروری 2025ء) سوڈان میں جاری تباہ کن خانہ جنگی نے ملک کو غذائی قلت، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور شدید عدم تحفظ کی صورت میں کثیرالجہتی انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

اب اس لڑائی کو تیسرا سال شروع ہونے والا ہے اور اس موقع پر اقوام متحدہ نے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے 4.2 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔

امدادی اداروں نے ملک کے موجودہ حالات کو اس وقت دنیا میں سب سے بڑا اور تباہ کن بحران قرار دیا ہے جسے سمجھنے کے لیے درج ذیل حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔1۔ خرطوم کی لڑائی اور امن عمل کا خاتمہ

2022 کے آخر تک امید تھی کہ اقوام متحدہ کی معاونت سے سوڈان میں شروع ہونے والا امن عمل ایک سویلین حکومت کے اختتام پر منتج ہو گا۔

(جاری ہے)

اس وقت ملک میں فوجی بغاوت کے ذریعے عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جمہوری حکمرانی کا مطالبہ کرنے والے شہریوں پر سختیاں ڈھائی جا رہی تھیں۔

سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے وولکر پرتھیز نے دسمبر 2022 میں کہا تھا کہ سیاسی فریقین کے مابین معاہدے کے ذریعے ملک کو جمہوری راہ پر گامزن کیا جانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ طویل عرصہ تک حکمران رہنے والے عمر البشیر کی حکومت ختم کرنے والی سوڈان کی مسلح افواج (آر ایس ایف) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کا خوش اسلوبی سے انضمام نہ ہوا تو ملک کو شدید عدم استحکام کا سامنا ہو سکتا ہے۔

2023 کے اوائل میں دونوں عسکری دھڑوں کے مابین تناؤ اور کشیدگی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی۔ 15 اپریل کو 'آر ایس ایف' نے دارالحکومت خرطوم پر حملہ کر دیا جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ ان حالات میں اقوام متحدہ نے خرطوم سے اپنے دفاتر خالی کر کے بحیرہ احمر کی بندرگاہ پورٹ سوڈان میں منتقل کر دیے۔

گزشتہ جمعے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں جاری مسلح تنازع کے اثرات ہمسایہ ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔

ادارے نے ملک میں جاری لڑائی کی مذمت کی ہے اور سوڈان کے لیے سیکرٹری جنرل کے ذاتی نمائندے رمتان لامامرا افریقن یونین جیسی علاقائی تنظیموں کی مدد سے قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ © WFP/Eulalia Berlanga 2۔

تین کروڑ لوگوں کو امداد کی ضرورت

خانہ جنگی سوڈان کے شہریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس وقت تقریباً تین کروڑ 4 لاکھ لوگوں کو غذائی، طبی اور دیگر امداد کی ضرورت ہے۔ لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، خوراک، ایندھن اور بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت سے گھرانے ان چیزوں تک رسائی سے محروم ہو گئے ہیں۔

شدید بھوک بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ شمالی ڈارفر اور مشرقی نوبا میں پانچ مقامات پر قحط پھیلنے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ رواں سال مئی تک مزید پانچ علاقوں میں یہ صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کی امدادی رابطہ کار اینکویتا سالامی نے کہا ہے کہ ریاست جنوبی کردفان کے بعض حصوں میں بھی غذائی عدم تحفظ کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں جہاں بہت سے خاندانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے اور غذائی کمی کے نتیجے میں جنم لینے والے جسمانی عوارض میں مبتلا ہونے والے لوگوں اور بالخصوص بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

تحفظ کے فقدان کی وجہ سے امدادی کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں انسانی امداد کی رسائی میں رکاوٹیں حائل ہیں اور امدادی کارکنوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔

خطروں کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت دار بدحال لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) روزانہ لاکھوں لوگوں کو خوراک مہیا کر کے ان کی زندگی کو تحفظ دے رہے ہیں۔

'ایف اے او' نے نئی فصلوں کی کاشت کے موسم میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاشتکار گھرانوں کو بیج مہیا کیے ہیں۔ 2024 میں تقریباً ایک کروڑ 56 لاکھ لوگوں نے اقوام متحدہ سے کم از کم ایک طرح کی مدد حاصل کی تھی۔

گزشتہ دو سال میں ملک کا طبی نظام انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ طبی مراکز پر حملوں کے باعث عملے کی بڑی تعداد نقل مکانی کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اب بھی ملک میں موجود ہیں اور لوگوں کو ہیضے اور ملیریا جیسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

3۔ سوئٹزرلینڈ کی آبادی کے برابر لوگ بے گھر

عدم تحفظ کے باعث سوڈان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اندرون و بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

تقریباً 90 لاکھ سوڈانی اپنے ملک میں بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ 30 لاکھ نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی مجموعی تعداد سوئزرلینڈ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

محاذ جنگ میں آنے والے تبدیلیوں کے باعث نقل مکانی بھی تواتر سے جاری ہے جس کی وجہ سے ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچانا مشکل عمل بن گیا ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے سوڈان کی صورتحال کو دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا بحران قرار دیا ہے۔

اندرون و بیرون ملک بے گھر ہونے والے ان لوگوں کو خوراک، قدرتی وسائل اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی حاصل ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہیضہ اور ملیریا جیسے وبائیں بھی پھیل رہی ہیں۔

سوڈان کے ہمسایہ ممالک کو بھی کئی طرح کے معاشی مسائل اور سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے اور ان میں بعض کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پناہ گزینوں کی آمد سے خدمات پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور 'یو این ایچ سی آر' جب اور جہاں ممکن ہو لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے اور ان کی بنیادی ضروریات کو باوقار طور سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔4۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے بڑھتے خطرات

سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد 18,800 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں مہینے کے آغاز پر صرف ایک ہی ہفتے میں کم از کم 275 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جو کہ اس سے گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں تین گنا بڑی تعداد ہے۔

شہری توپخانے کی گولہ باری، فضائی حملوں اور ڈرون طیاروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ریاست جنوبی کردفان اور نیل ازرق میں حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مسلح گروہوں کی جانب سے عام لوگوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے کارکنوں کو 'آر ایس ایف' کا ساتھ دینے کے الزام میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حقائق کی جانچ کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک مشن نے دونوں متحارب عسکری دھڑوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی تفصیلات جمع کی ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے کہا ہے۔

سوڈان میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے نائب سربراہ ایڈمور ٹونڈلانا نے یو این نیوز کو بتایا کہ سوڈان کے بحران میں خواتین اور لڑکیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں جنسی زیادہ، جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کا سامنا ہے۔

گزشتہ دنوں جنوبی کردفان میں ہلاک کیے گئے 79 افراد میں بڑی تعداد خواتین اور لڑکیوں کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ نوعمر لڑکوں کے لیے خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ محاذ جنگ والے علاقوں میں باآسانی سفر نہیں کر سکتے۔ ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد کو مسلح گروہوں کے لیے بھرتی اور مخالفین کی جاسوسی پر مجبور کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

5۔ اربوں ڈالر کے امدادی وسائل کی ضرورت

امدادی وسائل کی قلت کے باعث اقوام متحدہ کی سوڈان کے لوگوں کو مدد پہنچانے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ 'یو این ایچ سی آر' اور شراکت دار اب تک جتنی مدد مہیا کر سکے ہیں وہ ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث غذائی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھ گیا ہے۔

'اوچا' اور 'یو این ایچ سی آر' کل سوڈان کے لیے مالی وسائل کی اپیل کریں گے۔ اندازے کے مطابق ملک کے لیے 4.2 ڈالر کے وسائل درکار ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین سوڈانی لوگوں کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

ایڈمور ٹونڈلانا کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ رقم بہت بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن سوڈان میں جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بحران کا سامنا ہے انہیں دیکھتے ہوئے یہ وسائل بمشکل کافی ہوں گے۔ دو کروڑ 10 لاکھ لوگ مدد کے منتظر ہیں اور اس طرح سال بھر ہر فرد پر 200 ڈالر خرچ ہو گے۔ اگر روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اس سے ہر ضرورت مند کو نصف ڈالر مالیت کی مدد ملے گی۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت کو دھچکا‘ ٹرمپ نے بھارت کی مالی امداد پر اعتراض کردیا
  • جانیے دنیا کے سب سے اندوہناک غذائی قلت اور مہاجرت کے بحران بارے
  • غزہ کی تعمیر نو کیلئے 53 ارب ڈالر درکار ہے، اقوام متحدہ
  • اسحاق ڈار کی اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات
  • ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی
  • عالمی طاقتیں تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، ڈاکٹر فائی
  • عالمی طرز حکمرانی میں اصلاحات تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی، چینی وزیر خارجہ
  • امریکی امداد کی بندش، ایڈز کے لاکھوں مریض ہلاک ہوسکتے ہیں، اقوام متحدہ کا انتباہ
  • امریکا سے بے دخل کیے جانے والے شہریوں کو لے کر ایک اور جہاز بھارت پہنچ گیا