WE News:
2025-04-15@11:52:31 GMT

میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟  

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

میں ‘ماں بولی’ کیوں نہیں لکھدا؟  

زندہ اور مردہ زبانوں میں اگر فرق کرنا ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندہ زبان وہی ہوتی ہے جس کے بولنے والے اس زبان کے عکاس ہوں، یا کم از کم اس کےساتھ جڑے ہوں، اپنی زبان سے متصل اور مربوط ہوں۔

جبکہ مردہ زبان کا مطلب یہ ہے کہ بولنے والے تو موجود ہوں لیکن وہ اس سے جڑے نہ ہوں، ان کا طرزِ ثقافت زبان سے جدا ہوچکا ہے۔ چلیں مردہ نہ کہیں لیکن اتنا ضرور کہہ لیں کہ اس زبان کی معیاد ختم ہونے کی شارع پر گامزن ہے۔

تقسیم کے بعد پنجاب 2حصوں میں بٹ گیا، لیکن پنجابی زبان پاکستان، بھارتی پنجاب کے علاوہ کینیڈا میں بھی بولی جاتی ہے، اس سے قطعہ نظر کے زبان چڑھدی پنجابی اے یا فر لہندے پنجاب دی۔

رسم الخط ‘گُر مکھی یا شاہ مکھی’ اس بحث سے قطعہ نظر اچھی خبر یہ ہے کہ پنجابی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجابی لکھنا کتنے لوگ جانتے ہیں؟

’وارث شاہ‘ کو تو سب ہی جانتے ہوں گے، لیکن کیا پنجابی اس ‘وارث شاہ’ کے حقیقی وارث بن پائے یا نہیں، اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

سید وارث شاہ کی ہیر پنجابی کلاسیکل ادب کے شاہکار کے طور پر جانی جاتی ہے۔ وارث شاہ کی شاعری میں پنجابی زبان، بول چال تے اکھاناں دا اِک خزانہ اے۔

پنجاب کی بود و باش و طرزِ ثقافت کا جو نقشہ وارث شاہ نے کھینچا ہے، وہ سب سے منفرد اور جدا ہے، اور ان کی شاعری کا رنگ ان کے بعد دوبارہ کہیں اور نظر نہیں آیا۔

وارث شاہ نے اپنڑے کلام وچ نہ صرف لہندی تے چڑھدے پنجاب دی پنجابی ورتی اے، بلکہ انہاں نے پنجاب دے ای مختلف لہجیاں دے حرفاں نو جاہ جاہ تے استعمال کیتا اے۔

کاشف حسین نے ’شاہ‘ اوراں واسطے لکھیا

اُنہاں نے سندھ دی عمر ماروی نوں وی اپنڑے کلام وچ ورتا تے سندھ دی ثقافت نوں وی پنجابی زبان دتی:

(پھوگر عمر بادشاہ خوار ہوئے ملی مارون ڈھول دے رالیاں نوں)

ماں بولی کے حوالے سے یہ تحریر لکھنے کا بھی ایک مقصد ہے، نئے سال کی پہلی ہی صبح بغرض ملازمت چین کا سفر کیا، 1 ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے چین کو دیکھا، عوام کی روز مرہ زندگی پر نظر ڈالی، سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہاں سب ہی چینی زبان یعنی ’ماں بولی‘ ہی بولتے ہیں اور ان کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ جدت صرف انگریزی زبان سے نہیں آتی۔ اگر اپنے ملک اور زبان سے محبت ہو تو ترقی کا ہر اگلا زینہ ہمارے قدم چومنے کو تیار رہتا ہے۔

یہاں آنے سے پہلے انٹرویو لیا گیا، جس میں مجھے  پنجابی ہونے کی بنا پر فوقیت دی گئی۔ کسی پنجابی کے لیے یہ بات اچنبھے سے کم نہیں، زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ شیکسپیئر اور میر تقی میر کے بغیر پنجابی کے بھی ایکسٹرا نمبر ملے۔

چین کے قومی میڈیا سے بطور ایڈیٹر متصل ہوا ہوں اور یہاں پر اردو زبان میں خبریں لکھ کر ویب سائٹ پر پوسٹ کی جاتی ہیں، اور پنجابی کے لیے خاص طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا پیج بھی موجود ہے، جہاں خبریں مادری زبان میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔

میں نے زندگی میں پروفیشنل پنجابی پہلی بار پاکستان سے باہر آکر لکھی، اور خیال آیا کہ آج تک اپنے ملک میں رہتے ہوئے پنجابی کیوں نہ لکھ پایا؟

اب جبکہ کام پنجابی میں بھی کرنا تھا تو سب سے پہلے پنجابی لغت کی تلاش تھی، سو یہاں گوگل کام آئی، بہت زیادہ تو نہیں لیکن یہ ضرور تھا کہ پنجابی موجود تھی اور کافی حد تک اس حوالے سے کام بھی ہوچکا تھا، لیکن بدقسمتی یہ کہ وہ ڈھونڈنے پر بھی بمشکل ملتا ہے۔

ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں کوئی پنجابی زبان کا چینل ہے؟ پہلے سوچا کہ ’روہی‘ کہہ دوں پھر ’چینل 41 ‘کا خیال آیا، لیکن ان چینل کی نشریات بھی اُردو میں ہی ہیں۔

یقیناً ہمارے ملک میں بولی جانے والی ہر زبان اپنے علاقے کی ثقافت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے اور یہی حسن ہے کہ تمام زبانیں بولنے والے ایک ’اُردو‘ کی چھتری تلے جمع ہیں، یہ تحریر  زبانوں کی ترویج کے لیے ہے، نہ کہ تقسیم کے لیے۔

خیر میرے لیے باعث شرم تھا کہ دوسرے ملک والے تو پنجابی زبان کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں، لیکن ہمارا اپنا کیا حال ہے؟  یہ مضمون در اصل پنجابی زبان میں لکھا تھا، لیکن ہمارے ملک میں کوئی ایسا بڑا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں پنجابی مضامین، آرٹیکل اور بلاگ شائع ہوسکیں۔

پھر دوبارہ اس کو اُردو کا تڑکا لگانا پڑا، اس قدر مجبوری ہے کہ اپنی زبان کو اپنے ہی ملک میں کسی بڑے پلیٹ فارم پر شائع نہیں کروا سکتا۔ اس کے علاوہ جو پنجابی زبان کی ویب سائیٹ موجود ہیں، ان کی کوئی خاص  Reachبھی نہیں ہے۔

دوسرا یہ کہ ہم پنجابیوں کو پنجابی نہ تو پڑھائی گئی ہے اور نہ ہی ہمیں اب یہ پڑھنے کی عادت ہے اگر لکھ بھی دوں تو عوام کے لیے پڑھنا مشکل ہو جائے گا۔

اور ہمیں کوئی خاص پنجابی پڑھنے کا شوق بھی نہیں ہے، ہر صوبے میں پرائمری یا میٹرک تک کی تعلیم میں مادری زبان کا مضمون شامل ہے، سوائے پنجاب کے۔

سو یہی وجہ ہے کہ یہاں پنجابی نہ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی لکھی جاتی ہے، لیکن بولی ہر جگہ جاتی ہے۔

خیر اس بار فیض فیسٹیول میں پنجابی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو کہ ایک نئی اُمید ہے۔

 21 فروری کو ہر سال ’ماں بولی‘ زبان کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، کتنا ہی بہتر ہو کہ اس سال 21 فروری کو ہمارے میڈیا پلیٹ فارم ہر زبان کو بطور خاص حصہ دیں اور  کتنا ہی اچھا ہو اگر پنجاب کی حکومت اس اہم موقع پر کم از کم سکول کی حد تک پنجابی زبان کو بطور مضمون پڑھانے کا اعلان کر دیں۔

یونیسکو کے مطابق ہر 2 ہفتوں میں ایک زبان اپنی ثقافت اور فکری ورثے سمیت غائب ہو رہی ہے، ان کے مطابق دنیا میں تقریبا 8324 زبانیں بولی جاتی ہیں، اور 7000 اب بھی استعمال میں ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ صرف چند سو زبانوں کو  ہی حقیقی طور پر  تعلیمی نظام اور عوامی ڈومین میں جگہ دی گئی ہے۔ اور ڈیجیٹل دنیا میں تو 100 سے بھی کم زبانیں استعمال ہو رہی ہیں۔

مادری زبانوں کا استعمال نہ ہونا صرف ایک زبان کی حد تک مخصوص نہیں ہے، تقریبا سبھی جگہ ایسا ہو رہا ہے، زبانوں کے پھولوں کو اکٹھا کرکے ایک بہترین گلدستہ بنایا جا سکتا ہے، جو خوشی یا غم اور ایک نئی زندگی کی شروعات سمیت ہر جگہ آپ کو خوشی فراہم کرتا ہے۔

سوچیں آپ نے کوئی کامیابی سمیٹی ہو اور ہر زبان کے افراد آپ کو مبارک باد دے رہے ہوں تو کس قدر خوشی ملے گی آپ کو، کہ ہر ر نگ و نسل آپ کی خوشی میں شریک ہے۔ زبانیں سبھی میٹھی، سبھی اچھی اور سبھی سچی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

ماں بولی وقار حیدر وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ماں بولی وی نیوز وارث شاہ ماں بولی جاتی ہے ملک میں نہیں ہے زبان کا زبان کو کے لیے

پڑھیں:

ریحام خان نے مادری زبان میں سُر بکھیر دیے

مانسہرہ(نیوز ڈیسک)معروف صحافی، فلمساز اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے اپنی مادری زبان ہزارہ میں روایتی گیت (ٹپہ) گا کر مداحوں کے دل جیت لیے۔

ریحام خان نے اپنی خوبصورت آواز میں سُر بکھیرنے کی یہ ویڈیو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کی ہے جس میں انہیں مانسہرہ پریس کلب میں دیگر صحافیوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔

View this post on Instagram

A post shared by Reham Khan (@officialrehamkhan)


ویڈیو میں ریحام خان کو ہزارہ زبان میں روایتی گیت گاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جس پر ان کے ساتھ بیٹھے صحافی حضرات بھی ان کی آواز اور انداز گائیکی پر خوب داد دیتے نظر آئے۔

ریحام خان نے کیپشن میں لکھا کہ ‘ہزارہ کا یہ روایتی ترانہ میرا دنیا بھر میں سب سے پسندیدہ گانا ہے، اس گانے نے پرانی یادیں تازہ کر دیں’۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ گانا وہ اپنے خاندان کی شادیوں میں اپنے کزنز کے ساتھ گاتی تھیں اور سب مل کر گھومر ڈالتے تھے’۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور صارفین نہ صرف ریحام خان کی آواز کی تعریف کر رہے ہیں بلکہ ان کے ثقافتی ورثے سے جڑے رہنے کے جذبے کو بھی سراہ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین نے تبصرہ کیا کہ اس طرح کے لمحات ہماری ثقافتی شناخت کو زندہ رکھتے ہیں۔

ریحام خان کون؟
ریحام خان کا شمار پاکستان کی نامور شخصیات میں کیا جاتا ہے، وہ نہ صرف ایک سماجی کارکن ہیں بلکہ مصنفہ، اور فلم پروڈیوسر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز بین الاقوامی چینلز کے لیے نیوز رپورٹنگ سے کیا جبکہ پاکستان میں بھی متعدد شوز کی میزبانی کی۔

ریحام خان 1993میں اعجاز رحمان کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں لیکن بدقسمتی سے سال 2005 میں دونوں نے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا۔
بعد ازاں ریحام خان نے دوسری شادی کیلئے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنا ہمسفر چنا اور سال 2014 میں نکاح کرکے نئی زندگی کی شروعات کی لیکن انہیں یہ شادی بھی راس نہ آئی اور نہایت ہی مختصر عرصے کے بعد 2015 میں طلاق پر ختم ہوگئی۔

اس کے بعد ریحام خان نے تیسری شادی امریکی خوبرو ماڈل اور اداکار مرزا بلال سے کی ہے جن کے ساتھ خوشی سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔

مرزا بلال اور ریحام کی خوشگوار ازدواجی زندگی کا اندازہ انکی سوشل میڈیا پوسٹ سےلگایا جاسکتا ہے، جن میں اکثر اوقات ریحام خان اپنے شوہر کی تعریف کرتی نظر آتی ہیں۔
ریحام خان نے ایک انٹرویو میں اپنی تیسری شادی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ دوسری طلاق کے بعد ابتدائی طور پر انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ کسی پاکستانی شخص سے دوبارہ شادی نہیں کریں گی۔

ریحام خان نے کہا تھا کہ ‘میں کبھی کسی پاکستانی شخص سے دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور میرے بچے بھی ایسا چاہتے تھے، اپنی شادی سے متعلق بچوں سے بات کرنے میں کافی وقت لگا’۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب بڑی بیٹی کو میری شادی کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے مجھے روکا کہ امی آپ دوبارہ غلطی کررہی ہیں، دوبارہ کسی پاکستانی شخص سے شادی کرنا احمقانہ فیصلہ ہے‘۔
تاہم ریحام خان نے مزید بتایا کہ ‘شادی کے بعد اب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں، بلال کا میرے بچوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

اسی انٹرویو میں مرزا بلال بیگ نے بھی انکشاف کیا تھا کہ ریحام خان سے قبل ان کی 2 شادیاں ہوچکی ہیں جن سے ان کی طلاق بھی ہوچکی ہیں۔

اس بات پر ریحام خان نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ’بلال سے شادی کرنے سے قبل میں نے ثبوت کے طور پر طلاق نامے دیکھے تھے‘۔
مزیدپڑھیں:ربیکا خان کی سسرال سے آخری عیدی، شادی کب ہوگی؟

متعلقہ مضامین

  • حکومت پنجاب نے تیزاب گردی کی روک تھام کے لیے ‘پنجاب ایسڈ کنٹرول ایکٹ 2025’ کے ڈرافٹ کی منظوری دیدی
  • عمر میں فرق 6 سال؛ ملک پھر بھی پلئیر لیکن سرفراز ٹیم ڈائریکٹر! کیوں؟
  • ‘اوورسیز پاکستانیز کنونشن’ اسلام آباد میں جاری، وزیراعظم اور آرمی چیف کی تقریب میں شرکت
  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران ہوئی جہاز کی بتیاں بجھا کیوں دی جاتی ہیں؟اصل وجہ جانئے
  • نواز شریف کی ہدایت کے باوجود  حمزہ شہباز پارٹی امور میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟
  • ریحام خان نے مادری زبان میں سُر بکھیر دیے
  • پی ایس ایل؛ پلئیر آف دی میچ بننے پر ‘ہیئر ڈرائر’ کا تحفہ
  • ‘شرمندہ کرنا بند کریں’، میچ کے بہترین کھلاڑی کو ہیئر ڈرائیر دینے پر کراچی کنگز انتظامیہ تنقید کی زد میں
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن