اسرائیلی فوج 18 فروری تک لبنان سے نکل جائے، حزب اللہ کی وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
بیروت: حزب اللہ کے سینئر رہنما نعیم قاسم نے اسرائیل کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 فروری تک اسرائیلی فوج کو لبنان کی سرحدوں سے نکل جانا چاہیے، کیونکہ یہ معاہدے کا حصہ ہے اور اسرائیل کے پاس لبنان میں رہنے کا اب کوئی بہانہ باقی نہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق، جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو لبنانی علاقوں سے مکمل انخلا کرنا تھا، لیکن اسرائیل اب بھی لبنان کے اندر 5 مقامات پر اپنی فوج رکھنے پر بضد ہے۔
نعیم قاسم نے اسرائیل کا نام لیے بغیر خبردار کیا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قبضہ کرنے والوں سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رہے، ورنہ نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار ہے، اور 18 فروری ڈیڈ لائن کے قریب آتے ہی خطے میں مزید تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
غزہ پر اسرائیلی پابندیوں کے خلاف عالمی عدالت میں سماعت شروع
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے کام پر اسرائیل کی عائد کردہ کڑی پابندیوں کے معاملے کی کھلی سماعت کا آغاز کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اہل غزہ سے اظہار یکجہتی: جماعت اسلامی کی اپیل پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال
عدالت اس سماعت میں 40 رکن ممالک اور چار بین الاقوامی امدادی اداروں کی آرا سننے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے دے گی۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیل کی متواتر بمباری اور انسانی امداد کی شدید قلت کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال دسمبر میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے اپنی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔ عدالت سے رجوع کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے موقع پر اس کے حق میں 137 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے تھے۔
اگرچہ آئی سی جے کے ججوں کی مشاورتی رائے کی پابندی قانوناً لازم نہیں ہے۔ تاہم اس سے کسی معاملے پر اٹھنے والے قانونی سوالات کی وضاحت ضرور ہوتی ہے۔ جب عدالت کسی معاملے پر اپنی قانونی رائے جاری کرتی ہے تو جنرل اسمبلی دوبارہ اس معاملے کو لے کر مزید اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے۔
قابض طاقت کی ذمہ داریہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عدالت میں سماعت کے پہلے روز اقوام متحدہ کی لیگل کونسل ایلینار ہیمرشولڈ نے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی نمائندگی کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کے مطالبات کو دہرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے 13 ادارے کام کر رہے ہیں اور جنگ کے آغاز سے اب تک علاقے میں اس کے 295 امدادی اہلکاروں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
ایلینا ہیمرشولڈ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو ہر طرح کے حالات میں خصوصی تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جس کی ذریعے انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت دنیا بھر میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے۔ اس تحفظ اور استثنیٰ کا اطلاق مسلح تنازعات میں بھی ہوتا ہے۔
کسی علاقے پر قابض طاقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جگہ رہنے والے لوگوں کا فائدہ مدنظر رکھے اور انہیں انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دے۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ ابتک کتنے لاکھ فلسطینی بے گھر ہو ئے؟ اقوام متحدہ نے بتا دیا
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان ذمہ داریوں کی تکمیل اقوام متحدہ کے تمام اداروں کو مقامی آبادی کے فائدے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے اور ان کے لیے سہولت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
انروا کے مسائلفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے آئی سی جے میں اس معاملے کی سماعت کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امدادی ادارے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کے تحت اسرائیلی حکام کو انروا کے ساتھ رابطوں سے روک دیا گیا ہے جس سے ادارے کو ضروری امداد اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
یہ اقدام اس لیے خاص تشویش کا حامل ہے کہ انروا ہی غزہ میں امداد پہنچانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس نے دہائیوں سے فلسطینیوں کو صحت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات مہیا کی ہیں۔ تاہم، جنوری میں پابندیاں نافذالعمل ہونے سے انروا کے بین الاقوامی عملے کو اسرائیل میں داخلے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے گئے۔
بمباری سے بچ جانے والے بھوک و بیماری سے مر رہے ہیںغزہ میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے امدادی امور (اوچا) کا کہنا ہے کہ 2 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کا فیصلہ کیے جانے کے بعد لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی کا غزہ کی حمایت کا اعادہ
تنظیم نے کہا کہ جو لوگ بموں اور گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے امداد اور تجارتی سامان کی غزہ آمد پر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔
’اپنے حصے کی روٹی بھی بچوں کو دے دیتی ہوں‘غزہ شہر کی پناہ گاہ میں مقیم مونا کہتی ہیں کہ ان کا خاندان دن میں ایک وقت کھانا کھاتا ہے۔ وہ سونے سے پہلے یہ سوچ رہی ہوتی ہیں کہ اگلے روز انہیں کھانے کو کیا اور کیسے ملے گا۔ انہوں نے کئی روز کے لیے آٹا جمع کر رکھا ہے جسے وہ احتیاط سے استعمال کرتی ہیں۔ جب ان کے پوتے پوتیاں بھوک کی شکایت کرتے ہیں تو وہ اپنے حصے کی روٹی بھی انہیں دے دیتی ہیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے لیکن وہ ادویات نہیں لیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج معالجہ اچھی خوراک کا تقاضا کرتا ہے جو اس وقت انہیں میسر نہیں ہے۔
’بدبودار آٹا بھی اب ختم ہونے کو ہے‘غزہ شہر کے ایک اسکول میں قائم پناہ گاہ میں رہنے والے وفا 2 بچوں کے باپ ہیں۔ انہوں ںے بتایا کہ ان کے پاس پھلیوں، چنے اور مٹر کے چند ڈبے اور چند کلو آٹا ہے لیکن یہ خوراک آئندہ 4 روز میں ختم ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: امدادی کارکنوں کی شہادت، غزہ کے شہری دفاع نے اسرائیلی فوج کی تحقیقات مسترد کردیں
انہوں نے کہا کہ آٹا باسی ہو رہا ہے اور اس سے بدبو بھی آنے لگی ہے لیکن ان کے پاس اسے استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر انہیں یہ ہولناک حالات کب تک جھیلنے پڑیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل کی جارحیت اسرائیلی پابندیاں عالمی عدات عالمی عدالت سماعت غزہ