معروف سندھی شاعر آکاش انصاری کی موت حادثاتی یا قتل؟ پولیس کا نیا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
گزشتہ دنوں حیدر آباد میں سندھی کے معروف شاعر اور دانشور آکاش انصاری کی پراسرار موت کے واقعے نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔
پولیس کی ابتدائی تفتیش کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ معروف سندھی شاعر اور دانش ور آکاش انصاری کو قتل کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی ڈاکٹر فرخ لنجار نے کہا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی نہیں ملی، مگر ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ ان کی موت حادثاتی نہیں تھی بلکہ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو جلایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: لاپتا مصطفیٰ عامر کے قتل کی وجہ سامنے آگئی
پولیس کی مطابق آکاش انصاری اور ان کے لے پالک بیٹے کے درمیان پہلے بھی مسائل رہے ہیں، پولیس نے ان کے لے پالک بیٹے لطیف انصاری کو حراست میں لے لیا ہے۔
آکاش انصاری گذشتہ سال اپنے بیٹے کے خلاف 38 لاکھ روپے رقم چوری کی ایف آئی آر بھی درج کراچکے تھے، لیکن بعد میں صلح ہوگئی تھی۔
جمعے اور ہفتے کی درمیان شب آکاش انصاری کے کمرے میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جہاں ان کی لاش پڑی ملی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پولیس سندھی شاعر شاعر آکاش انصاری قتل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پولیس سندھی شاعر شاعر آکاش انصاری قتل آکاش انصاری
پڑھیں:
اگر بیٹے مر گئے ہیں تو عدالت بتا دے: 4 لاپتہ افغان بھائیوں کی والدہ
—فائل فوٹواسلام آباد ہائی کورٹ نے 4 لاپتہ افغان بھائیوں کو 2 ہفتوں میں بازیاب کرانے کا حکم دے دیا۔
دورانِ سماعت جسٹس محمد آصف نے لاپتہ بیٹوں کی افغان والدہ گل سیما کو روسٹرم پر بلا کر پشتو میں بات کی، پھر ترجمہ کر کے سب کو بتایا۔
جسٹس محمد آصف نے اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو بازیابی کے لیے 2 ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2 ہفتے کا وقت دیتے ہیں ہمیں نتائج چاہئیں، بندے بازیاب کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ ان لاپتہ بھائیوں کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ اگست سے ہائی کورٹ آ رہی ہوں، اگر بیٹے مر گئے ہیں تو بتا دیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں فریقین سے 16 اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔
ڈی آئی جی اسلام آباد نے افغان خاتون کے بیٹوں کی بازیابی کے لیے عدالت سے مزید مہلت مانگ لی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 8 ماہ سے تو کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے، رپورٹس آ رہی ہیں کہ بندے نہیں ملے۔
عدالت نے سوال کیا کہ آئی جی صاحب کو بلایا تھا وہ نہیں آئے؟
سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ کیس کا وقت 11 بجے تھا اس لیے آئی جی ابھی نہیں آئے، ڈی آئی جی، آر پی او و دیگر افسران موجود ہیں، دوبارہ رپورٹ جمع کروانے کے لیے وقت دے دیں۔
جسٹس محمد آصف نے سوال کیا کہ آپ کو کتنا ٹائم چاہیے؟ وقت دینے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں بندے چاہئیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ یہ بھی بتا دیں اگر کوئی ایف آئی آر درج ہے تو کیا وہ ایک پر درج ہے یا چاروں بھائیوں پر؟
عدالت نے پولیس کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 2 ہفتوں کا وقت دے رہے ہیں ہمیں نتائج سے آگاہ کریں۔
جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔