Nai Baat:
2025-04-15@09:30:05 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

سحر کا طلسم: وہم یا علم؟

دنیا میں دو قسم کے نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ایک مادی نظام جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں جبکہ دوسرا روحانی یا مخفی نظام، جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق میں جادو ایک پُرکشش مگر پُراسرار حقیقت کے طور پر روزِ اول سے موجود رہا ہے۔ یہ محض کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں کا حصہ نہیں بلکہ قدیم تہذیبوں، مذاہب اور سائنسی تحقیقات میں بھی اس کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اولادِ آدم ہمیشہ سے ہی پراسرار قوتوں کی کشش میں مبتلا رہی ہے، اور سحر ان پراسرار رازوں میں سے ایک راز ہے جس نے صدیوں سے انسانی ذہن کو مسحور کیے رکھا ہے۔ کبھی یہ طاقت و اختیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کبھی خوف اور بربادی کی علامت۔ تقریباً تمام مذاہب ہی جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے جواز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جادو کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسے شیطانی عمل قرار دے کر اس سے باز رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی۔ واقعات کو غیر فطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کا فن ہی جادو کہلاتا ہے۔ سحر اور جادو برحق ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کی رو سے جادو، ٹونہ انسانی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ مکروہ عمل ہے جو کسی کو دنوں میں طاقتور بنا سکتا ہے، کسی کے خوابوں کو سراب میں بدل سکتا ہے، کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ سحر الاسود یا کالے جادو کی تکمیل کے لیے مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں  ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جادو ایک کے ذریعے جاتا ہے جادو کو سکتا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس

مسلم لیگ نون کے بارے میں اس کے مخالف خاص کرپاکستان تحریک انصاف کے لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ وہ عوام میں اپنی مشہوری کی خاطر ہمیشہ ایسے نمائشی منصوبے اور پروجیکٹس شروع کرتی ہے جو وقتی فائدے کے لیے ہوتے ہیں اورجو تین چار سال میں مکمل ہوکراگلے الیکشن سے پہلے مکمل ہوجاتے ہیں ، جنھیں دکھاکر وہ عوام سے ووٹ حاصل کرلیتی ہے۔

جیسے سڑکیں ، شاہراہیں اورٹرانسپورٹ کے منصوبے جو مسلم لیگ کے دور ہی میں سارے ملک میں پچھلے کئی برسوں میں دیکھے گئے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے شاہراہوں اورموٹرویز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں وہاں ہم نے مواصلات اورٹرانسپورٹ کا نظام بہت ہی اچھا ، دلکش اورپائیدار دیکھا ہے۔اس کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔یہ منصوبے چند سالوں کے لیے نہیںبنائے جاتے ہیں، یہ آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان صرف اورصرف سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایسے اہم منصوبوں کی مخالفت کرنا اپنافریضہ سمجھتے ہیں۔

 میاں نواز شریف نے 1990میں بحیثیت وزیراعظم پہلی بار عنان حکومت سنبھالا تو سب سے پہلے ملک میںسفری سہولتوں پرتوجہ دی اورموٹروے بنانے کا تصور پیش کیا۔ یہ اس ملک کا پہلا بڑامواصلاتی پروجیکٹ تھا جو یورپین ممالک کی طرز پرشروع کیا گیا۔ مخالفوں نے اسے ایک غیر ضروری عیاشی اورفضول خرچی قراردیکر بھرپور مخالفت شروع کردی۔یہ دوررس ثمرات کا حامل وہ پروجیکٹ تھا جسے ہم شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ نوازشریف نے یہ پروجیکٹ اپنے وقتی سیاسی فائدے کے لیے ہرگز شروع نہیں کیاتھا بلکہ یہ اگلی نسلوں کے لیے بنایا جانے والا بہت عظیم منصوبہ تھا۔

انھیں اس وقت یہ معلوم بھی نہیںتھاکہ وہ اپنے اس پہلے دور میں مکمل کرپائیں گے بھی یا نہیں۔مگر انھوں نے دن رات ایک کرکے باوجود مشکل مالی حالات کے اسے مکمل کرناچاہا مگراس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے اُن کا یہ خواب پورا ہونے نہیںدیا اورقبل ازوقت معزول کرکے ایوان وزیراعظم سے انھیں رخصت کردیا۔ وہ دوبارہ جب 1997 میں برسراقتدار آئے تو پھر وہیں سے یہ کام شروع کیا جہاں سے یہ معطل ہوگیا تھا۔یہ منصوبہ کوئی وقتی فوائد سمیٹنے کے لیے نہیں تھا بلکہ رہتی اورآنے والی نسلوں کے لیے بنایاگیا تھا جس پر سفر کرتے ہوئے اُن کے مخالف اندر سے تو سمجھتے ہونگے کہ واقعی یہ ایک بہت ہی زبردست پروجیکٹ ہے جس کا فائدہ وہ خود بھی اُٹھا رہے ہیں مگر مخالفت کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیںکرتے۔

اسی طرح میٹروبس سروس کا اجراء بھی ہمارے بڑے شہروں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسے جنگلابس سروس کہنے والوں نے بعد ازاں خود اپنے علاقے میں بھی شروع کیا ۔یہ شروع کرتے ہوئے انھیں ذرا بھی شرم اورندامت محسوس نہ ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہاکرتے تھے اوراب خود بھی اس سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں۔ 126دنوں کے دھرنے میںوہ صبح وشام اس کی مخالفت کیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے کہ قوم کو جنگلا بس نہیں بلکہ اسکول اوراسپتال چاہیے۔مگر جب انھیں خود اقتدار ملاتو انھوں نے کتنے اسپتال اوراسکول بنا ڈالے۔ ہمارے یہاں یہ بڑی افسوس ناک روایت رہی ہے کہ خود کو جب کبھی کام کا موقعہ ملاتوخود توکوئی کام نہ کریں مگر دوسرا اگر کوئی اچھا اوربڑا منصوبہ شروع کرے تو اس کی مخالفت کرکے عوام کو اس کے بارے میں متنفر کردیں۔میٹروبس اوراورنج ٹرین منصوبہ کوئی عیاشی یا فضول خرچی نہیں ہے ۔

یہ وقت اورزمانے کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آج کے دور میں ترقی کرنا نہ ممکن ہے۔ جس طرح موبائل فونز آج ہرشخص کی ضرورت ہے اسی طرح اچھی ٹرانسپورٹ سروس بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور دیگر شہروں کی نسبت ایک بہت اچھا اورخوبصورت سہولت یافتہ شہر سمجھاجاتا ہے۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ ان سہولتوں کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اگر باقی صوبوں کی حکومتوں نے بھی نون لیگ کی طرح سوچا ہوتااورکام کیاہوتا تو آج وہ بھی ایسی ہی سہولتوں سے مستفید ہورہے ہوتے۔ انھیں کس نے ایسے پروجیکٹس شروع کرنے سے روکا ہے ۔

 نون لیگ نے اپنے تیسرے دور میں سب سے پہلے سی پیک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی ، جسے روکنے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر چار مہینوں تک دھرنا دیا گیا کہ چائنہ کے صدر یہاں نہ آسکیں۔ مگر میاں صاحب کوجیسے ہی اس دھرنے سے کچھ راحت ملی وہ تیزی سے اس منصوبے پرجت گئے۔ یہ منصوبہ بھی صرف میاں صاحب کی ذاتی پبلسٹی کے لیے نہ تھا۔ یہ اس قوم کوعظیم اورخودمختار بنانے کی سمت میں بہت ہی اچھا منصوبہ تھا۔ ہم اسے بھی ایک شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔یہ ہماری اگلی نسلوں کی ترقی وخوشحالی کا ایک منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو ہم یقینا ایک روشن مستقبل سے ہمکنارہوسکتے ہیں۔

میاں صاحب آج بھی اپنی اس عادت سے مجبور ہوکرطویل المیعاد منصوبوں پرکام کررہے ہیں۔ بلوچستان میں چھپی معدنیات کے بارے میں ہم بہت کچھ سنا کرتے تھے لیکن اُن پرکام شروع ہوتے نہیںدیکھ پاتے تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج شہبازشریف کے اس دور میں سینڈک اورریکوڈک منصوبوں پربھی کام شروع ہوگیا ہے۔

کہنے کو شہباز شریف حکومت کو گزشتہ الیکشن میںسادہ اکثریت بھی نہیں ملی تھی اورانھیں مجبوراً یہ ذمے داری سنبھالنی پڑی کیونکہ جنھیں واضح سیٹیں ملی تھی انھوں نے خراب معاشی حالات کے سبب حکومت لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور شاید یہ اس ملک کے لیے بہتر ہی تھاکہ انھوں نے یہ ذمے داری نہیں لی ورنہ آج ایسے پروجیکٹس کے بجائے ہمارے یہاں ویلفیئر تنظیموں کی مدد سے لنگر خانے اورشیلٹر ہومز ہی بن رہے ہوتے۔عوام کو اِن لنگر خانوں میں مفت کی روٹی کھانے کا عادی بنایا جا رہا ہوتا۔کوئی تعمیری کام نہیں ہو رہا ہوتا اور ہم شاید ڈیفالٹ بھی کر گئے ہوتے۔

 مذکورہ بالا پروجیکٹس کوئی مختصر مدت یا شارٹ ٹرم پرمبنی نہیں ہیں۔ یہ طویل المیعاد وہ پروجیکٹس ہیں جو اگر پایہ تکمیل تک پہنچ گئے تو ہم یقیناً قرضوں کے دلدل سے نکل جائیںگے بشرط کہ اس حکومت کو کام کرنے دیاجائے ، ایسا نہ ہوکہ ہربار کی طرح اس حکومت کو بھی قبل ازوقت فارغ کردیا جائے اورناکامی کا الزام سیاستدانوں پرلگادیا جائے۔

ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کاموازنہ کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیںلیتے اورجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اوراپنے لیڈر کی غلط کاریوں پرپردہ ڈالنے کے لیے سارے سیاستدانوں کوایک ہی لکڑی سے ہانک رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ تمیز نہیں کرتے کہ کس سیاستدان نے اس قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کام کیے ہیں۔ ملک کوبرباد کرنے والوں اوراسے بہتربنانے والوں دونوں ہی کو اپنی ناکامیوں کا مورد الزام ٹھہرارہے ہوتے ہیں۔ کس نے قوم کا پیسہ قوم کی بھلائی پرخرچ کیا ہے اورکس نے مزے اُڑائے ہیںکوئی کام بھی نہیںکیا صرف باتیں ہی کیںاورقرضے بھی سب سے زیادہ لے لیے ہم یہ نہیںدیکھتے۔

متعلقہ مضامین

  • اگر امریکی وفد کی تقریب کا دعوت نامہ ملتا تو ضرور جاتا، چیئر مین پی ٹی آئی
  • اگر وقف اراضی کا صحیح استعمال کیا جاتا تو مسلم نوجوان پنکچر نہ بناتے، نریندر مودی
  • غیرت کی چھتری اور مردوں کے نفسیاتی مسائل
  • دعا ہے بیساکھی ہر میدان میں خوشحالی، ملک کے کونے کونے میں ترقی لائے: وزیراعظم
  • مانسہرہ کے علاقے اچھڑیاں کا مشہور چپلی کباب جو امریکا تک جاتا ہے
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
  • توشہ خانہ 2 کی اڈیالہ جیل میں کل کی سماعت منسوخ
  • وقت گزر جاتا ہے
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • مونی رائے کے ماتھے نے مداحوں کو شک میں مبتلا کردیا