دنیا میں دو قسم کے نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ایک مادی نظام جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں جبکہ دوسرا روحانی یا مخفی نظام، جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق میں جادو ایک پُرکشش مگر پُراسرار حقیقت کے طور پر روزِ اول سے موجود رہا ہے۔ یہ محض کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں کا حصہ نہیں بلکہ قدیم تہذیبوں، مذاہب اور سائنسی تحقیقات میں بھی اس کے اثرات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اولادِ آدم ہمیشہ سے ہی پراسرار قوتوں کی کشش میں مبتلا رہی ہے، اور سحر ان پراسرار رازوں میں سے ایک راز ہے جس نے صدیوں سے انسانی ذہن کو مسحور کیے رکھا ہے۔ کبھی یہ طاقت و اختیار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کبھی خوف اور بربادی کی علامت۔ تقریباً تمام مذاہب ہی جادو کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے جواز پر اختلاف رکھتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں جادو کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے وہیں اسے شیطانی عمل قرار دے کر اس سے باز رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے۔ جادو ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکایا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک، کفر، برائی اور گناہ پر رکھی گئی۔ واقعات کو غیر فطری طور پر ظہور پذیر میں لانے کا فن ہی جادو کہلاتا ہے۔ سحر اور جادو برحق ہے اور قرآن و سنت کے دلائل کی رو سے جادو، ٹونہ انسانی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وہ مکروہ عمل ہے جو کسی کو دنوں میں طاقتور بنا سکتا ہے، کسی کے خوابوں کو سراب میں بدل سکتا ہے، کسی کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔ سحر الاسود یا کالے جادو کی تکمیل کے لیے مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بار بار ہر قسم کے جادو کی مذمت کی گئی ہے۔ دینِ اسلام میں جادو سیکھنا اور اس کے ذریعے جنات کا تعاون حاصل کر کے انسانوں کو تکلیف سے دوچار کرنا نہ صرف حرام بلکہ کفریہ کام ہے جو شیاطین کے ذریعے سے شرک کے در وا کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جو شیطان سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت پڑھتے تھے، اور سلیمان ؑ نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیطانوں نے ہی کفر کیا تھا، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس چیز کو بھی جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا، اور وہ کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، تو کافر نہ بن، پس ان سے وہ بات سیکھتے تھے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈالیں، حالانکہ وہ اس سے کسی کو اللہ کے حکم کے سوا کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘۔ (البقرہ: 102) قدیم مصر، بابل، ہندوستان اور یونان کی تہذیبوں میں جادو کو ایک مؤثر ہتھیار، مذہبی روایت اور روحانی علم کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مصر کے پجاری مخصوص عملیات کے ذریعے دیوتائوں سے مدد لینے کے دعوے کرتے تھے، جبکہ بابلی جادوگر ستاروں کی چالوں اور تعویزات کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئیاں کرتے تھے۔ برصغیر میں تنتر و منتر کو جادوئی اثرات سے جوڑا جاتا ہے جبکہ یونانی اور رومی فلسفی جادو کو فطری قوتوں پر قابو پانے کا فن قرار دیتے تھے۔ عیسائیت میں جادو کو شیطان سے منسلک کیا جاتا ہے، جبکہ یہودیت میں کبالہ کی روایات میں جادوئی اثرات کا ایک منظم نظام موجود ہے۔ ہندو مت میں جادو کو روحانی توانائی کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے مایا (وہم) یا ذہنی قوت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی جادو ایک اٹل حقیقت ہے، جس کے اثرات کسی حد تک انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تباہ کرنے والی چیز اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اس سے بچو اور جادو کرنے کرانے سے بچو۔ اس صورت میں کے جادو حرام بھی ہے اور یہ رضائے الٰہی سے اختلاف رائے ہے، کا بین ثبوت بھی ہے اور اس سے ایمان متزلزل ہی نہیں باطل ہو جانے کے مترادف بھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں اور جنات میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں جن کا مقصد سادہ انسانوں کو تکلیف اور اذیت سے دوچار کرنا ہے۔ بکثرت گناہوں کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جادو دنیا کی سب سے مؤثر قوت ہے جو غائبانہ بلا تجدید زمان و مکان انسانی مزاج اور جسم بلکہ زندگی پر کامل دسترس رکھتی ہے۔ جادو دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کالا جادو ایک ایسا علم ہے جس میں شیطان سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی غلامی کرتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان اعمال سے خوش ہوتا ہے جن سے لوگ مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوں بعض گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کرتے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے۔‘‘ (سورۃ الزخرف) ہمارے ملک میں جہاں قتل و غارت گری، سماجی برائیوں اور معاشی ابتری نے لوگوں کا سکون چھین لیا ہے وہیں کالے جادو جیسی بہت بڑی لعنت بھی اندھیر نگری کی طرح مسلط دکھائی دیتی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک جادو ہے‘۔ ہر دور اور ہر معاشرے میں جادو کے طریقے اور رسوم و رواج مختلف رہے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا کہ وہ اچھائی اور برائی میں فرق کر سکتا ہے۔ جذبات رکھتا ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ مایا کے موہ کی حسرت میں گرفتار ہو کر فطری صلاحیتوں اور رجحان کو بالائے طاق رکھ کر وہ کچھ کرنے لگتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا اور پھر اس روش پر چلنے کے منفی اثرات نہ صرف انہیں بلکہ ان سے وابستہ تمام انسانوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ خود بھی ایک دن اسی آگ میں جلتے ہیں۔ جادو ٹونے کا نظام ایسا ہے کہ ایک دن شکاری کو ہی خود شکار کر لیتا ہے۔ کالا علم کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ ساتھ ان کی اولادیں بھی برباد ہو جاتی ہیں، دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے ان پر کہ وہ مر مر کر جیتے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: جادو ایک کے ذریعے جاتا ہے جادو کو سکتا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
وقت اور زندگی کی حقیقت
کیا یہ سوال منطقی طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ وقت کو روک کر زندگی کا دورانیہ یا عمر بڑھا لی جائے؟ یہ سوال بہت دلچسپ ہی نہیں علمی اور دانشورانہ بھی ہے کہ جس سے البرٹ آئنسٹائن جیسے دنیا کے عظیم ترین سائنس دان کو بھی واسطہ پڑا تھا۔ دنیا کا کون سا انسان ہے کہ جو زیادہ دیر تک جینا نہیں چاہتا ہے؟ شائد زندہ رہنے کی یہی شدید خواہش انسانوں میں وقت کو سمجھنے کا احساس بھی پیدا کرتی ہے۔وقت کو عموما زمان و مکان کی پیمائش کا پیمانہ یا دورانیہ سمجھا جاتا ہے۔درحقیقت وقت کیا ہے؟ گہری تحقیق اور مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’وقت‘‘کی ابھی تک کوئی حتمی یا متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی ہے۔ بنی نوع انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ سورج چاند ستاروں کی گردش، دن اور رات کے وقفوں، روزمرہ کے کاموں کے اوقات یا مختلف کاموں کی انجام دہی میں جو دورانیہ یا فاصلہ درکار ہوتا ہے جسے انگریزی میں Time and Space اور اردو میں زمان و مکان کہتے ہیں، اسے عموما وقت سے موسوم کیا جاتا یے۔ اس اعتبار سے وقت حرکت، سکون یا جدوجہد اور کارکردگی کے درمیان پیدا ہونے والی ایک ضمنی شے ہے جو چیزوں کی مدت اور زندگی وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے جس کا اطلاق نہ صرف جان دار چیزوں پر ہوتا ہے بلکہ اس کے دائرے میں کائنات میں پائی جانے والی بے جان اشیاء بھی آتی ہیں۔وقت کے بارے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے مگر 2025 ء کے آغاز پر ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ یہ پیش آیا کہ اس سال کے آغاز میں اڑان بھرنے والی ایک پرواز دوبارہ ایک سال پیچھے یعنی 2024 ء میں لینڈ کر گئی۔
ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں ایک مسافر طیارے نے 2025 ء کے پہلے دن اڑان بھری اور وہ دوبارہ 2024ء میں لانس اینجلس کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر اتری۔ کیتھے پیسیفک فلائٹ نمبر 880 ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کے بعد روانہ ہوئی۔ جیٹ ایئرلائنز نے بحر الکاہل کے اوپر سے راستہ بنایا، یہ پرواز یکم جنوری سال 2025 ء کی رات 12 بج کر 38 منٹ پر اڑی اور پھر حیران کن طور پر لاس اینجلس میں 31دسمبر 2024 ء کو رات 8بج کر 55 منٹ پر لینڈ کر گئی۔دراصل ہانگ کانگ لاس اینجلس سے وقت میں 16گھنٹے آگے ہے۔ اس لئے جب اس منفرد پرواز کے مسافر فلائٹ میں بیٹھے تو اس وقت ہانگ کانگ میں نیا سال شروع ہو چکا تھا اور جب وہ لاس اینجلس پر لینڈ اترے تو وہاں نئے سال 2025ء کے آغاز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔یوں ہانگ کانگ کے مسافروں نے نئے سال 2025 ء کا جشن دو مرتبہ منایا۔ کیا ایسا ممکن ہے اس اتفاقی واقعہ کی روشنی میں بنی نوع انسان کسی طرح اگر وقت پر کنٹرول حاصل کر لے تو وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے یا پھر اس کے ’’امر‘‘ ہونے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو جائے؟ میں اصولی طور پر اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ یہ موت پر قابو پانے کی ایک غیر منطقی سی بحث ہے۔ دنیا میں ہمیشگی زندگی مل جائے تو انسانیت ویسے ہی بوریت سے مر جائے گا۔ لیکن جدید سائنس دان وقت کو شکست دینے پر مصر ہیں جیسا کہ آئنساٹائن کے مطابق خلا میں وقت سست رفتاری سے گزرتا ہے یا روشنی کی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو وقت تقریبا تھم جاتا ہے۔ پہلی بار ’’بلیک ہولز‘‘کا تصور آئن سٹائن نے پیش کیا تھا جس پر سٹیفن ہاکنگ نے بہت کام کیا، جن کے بارے دنیا کے تقریبا تمام سائنس دان متفق ہیں کہ بلیک ہولز کے کناروں (Even Horizons) پر وقت انتہائی سست رفتاری سے چلتا ہے جہاں سے 3 لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی بھی نہیں گزر سکتی ہے کیونکہ بلیک ہولز روشنی کی رفتار کو ختم کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور روشنی ان میں گر کر فنا ہو جاتی ہے۔بلیک ہولز کے بارے عموما کہا جاتا ہے کہ ان کے اندر وقت تھم جاتا ہے جن کے اندر ورم ہولزہوتے ہیں جو بلیک ہولز میں گرنے والی چیزوں کو کسی دوسری دنیا یا متوازی کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس سے وقت کی عمومی تعریف کے مطابق ایک تو انسان کے لئے ان بلیک ہولز کے اندر زندہ رہنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے اندر بہت زیادہ کثافت ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ وقت حرکت اور فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ حرکت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ہماری موجودہ زندگی ’’زمان و مکان‘‘کی محتاج ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فہم و شعور اور وقت کے دورانیے سے محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہمارے لئے وقت کی رفتار سست پڑ جائے یا وقت تھم جائے تو ہم بظاہر عام مختص زندگی سے زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کے لیئے موجود تو رہ سکتے ہیں مگر اس دوران ہم ’’زندہ‘‘نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ زندگی ’’حرکت‘‘ پر مبنی ہے۔ جس چیز میں حرکت، نسل کشی یا نشوونما نہیں وہ جاندار نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ کے لیئے سوچیں کہ ہمارا دل حرکت کرنا بند کر دے، خون جسم میں گردش نہ کرے یا ہمارا دماغ اور جسم کے دوسرے اعضا کام نہیں کریں گے تو ہم زندہ رہیں اور نہ زندگی گزار سکیں گے۔
بنیادی طور پر وقت زندگی گزارنے اور بسر کرنے کا پیمانہ اور دورانیہ ہے۔ انسان نے ایک سے زیادہ بار چاند پر قدم رکھا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ وہاں جو چیز جیسی رکھیں گے وہ وہاں ہزاروں سالوں کے بعد بھی آپ کو ویسی ہی ملے گی۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عمر ان کی زندگی میں حرکت کی عدم موجودگی اور ان پر ہوا، روشنی یا کسی بیرونی دبائوکے کم یا نہ ہونے کی وجہ سے لامحدود حد تک لمبی ہو سکتی ہے۔زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے کہ ناروے میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ آب گوگل کر کے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سردیوں کی راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی اور سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ انگلینڈ میں سردیوں کے دوران بعض ایام صرف تین یا چار گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ 2025 ء کے پہلے روز اڑنے والی فلائٹ کا واقعہ رونما ہوا جس کے مسافروں کو سال نو 2 بار منانے کا موقعہ ملا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی اور وقت کو سمجھ کر زندگی کا بھی دو بار لطف اٹھایا جا سکتا ہے؟ آئن سٹائن نے وقت کی مساوات کو پیش کرتے وقت ٹرین کے مسافروں کی مثال پیش کی تھی کہ ٹرین میں بیٹھے مسافر دیگر مسافروں کے لیئے ساکن مگر زمین پر موجود انسانوں اور دیگر چیزوں کے مقابلے میں حرکت میں ہوتے ہیں۔ یہ وقت کا دوہرا پہلو ہے جس کو مدنظر رکھ کر آئنسٹائن نے دعوی کیا تھا کہ وقت ایک مطابقتی Relative یا اضافی شے ہے۔ انہوں یہ بھی ثابت کیا تھا کہ ایک بوڑھا شخص اگر خلا میں زیادہ عرصہ رہے گا تو اس کی گھڑی زمین پر رہنے والوں کی گھڑیوں کے مقابلے میں سست رفتار سے چلے گی اور جب وہ واپس زمین پر پلٹے گا تو وہ ان بچوں سے زیادہ نوجوان ہو گا جن کو چھوڑ کر وہ خلا میں گیا تھا یعنی وہ بوڑھا خلا باز جوان اور زمین پر رہنے والے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
آئن سٹائن کے اس دعویٰ کو آج تک کوئی دوسرا سائنس دان چیلنج نہیں کر سکا ہے کہ جو اس دعویٰ کو سائنسی طریقے سے غلط ثابت کرے یا اس میں اضافہ کرے تو اسے ’’نوبل پرائز‘‘سے نوازا جا سکے۔ یہ زندگی اور وقت کو سمجھنے کا چیلنج ہے جسے انسان قبول کرے تو وہ زیادہ دیر یا ہمیشہ زندہ رہنے کا اپنا خواب بھی پورا کر سکتا یے۔ تاہم وقت اور زندگی ابھی تک ایسی پہیلیاں ہیں جنہیں آج تک کے انسان ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس کام کو کرنے میں اتنا وقت لگا یا فلاں شخص اتنا عرصہ زندہ رہا۔ وقت کو سمجھ کر زندگی اور زندگی کو سمجھ کر وقت کو سمجھا جا سکتا ہے جس سے ان دونوں کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ گو کہ وقت اور زندگی دو معمے ہیں جن کو فی الحال مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا ہے۔ لیکن یہ واضح حقیقت ہے کہ ان کا بہترین مصرف ہی کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔