Nai Baat:
2025-02-20@02:39:19 GMT

زوال کا سفر!

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

زوال کا سفر!

ابن خلدون پچھلے ایک ہزار سال سے فلسفہ تاریخ اور سماجیات کے بانی اور امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور تصنیف مقدمہ میں تاریخ، سیاست، معیشت اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر گہرے نظریات پیش کیے اور یہ نظریات آج بھی مشرق و مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سائنسی اور تجزیاتی علم کے طور پر پیش کیا۔ ابن خلدون کے نزدیک طاقتور قومیں جدوجہد، نظریات اور اصولوں کو اپناتی ہیں جبکہ زوال پذیر قومیں عیش و عشرت، موسیقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ مسلمان قوم نے اندلس میں 800 سال تک شاندار تہذیب قائم کی تھی جو پورے یورپ میں علم، فن، روشنی اور ترقی کا مرکزسمجھی جاتی تھی مگر جب اندلس کے مسلم حکمران موسیقی، رقص اور عیش و عشرت کے رسیا ہوئے تو وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کھو بیٹھے۔ قرطبہ اور غرناطہ کے درباروں میں گانے بجانے اور رنگ رلیوں کو اعلیٰ ثقافت سمجھا جانے لگا تھا اور اہل علم و فن کی جگہ گویوں اور رقاصاؤں کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی زوال پذیر قوموں کے کلچر اور طرز زندگی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی ثقافت مذہبی اور مشرقی اقدار پر مبنی تھی حتیٰ کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں فلم، ڈرامے اور موسیقی کا ایک مخصوص دائرہ تھا جو مشرقی روایات اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پروان چڑھ رہا تھا۔ لیکن 1990 اور 2000 کی دہائی میں نجی ٹی وی چینلز اور گلوبلائزیشن کے باعث مغربی ثقافت کو غیر معمولی فروغ ملا اور کئی نئے رجحانات نے جنم لیا۔ ہمارے کلچر میں مغنیوں اور روپ بدل کر اداکاری کرنے والوں کو ناپسند کیا جاتا اور کمتر سمجھا جاتا تھا۔ انہیں محفلوں میں محض تفریح کا ذریعہ گردانا جاتا تھا اور اس پیشے کو معزز پیشوں میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہی گانے والے اور گانے والیاں سلیبریٹی کہلاتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی استاد، ڈاکٹر، فلسفی، رائٹر یا شاعر بننے کے خواب دیکھتے تھے اب میوزک انڈسٹری میں
جگہ بنانے کے خواہشمند ہیں۔

اسی طرح ایک وقت تھا جب روپ بدل کر اداکاری کرنے کو کمتر، حقیر اور عزت نفس کے خلاف پیشہ تصور کیا جاتا تھا، علامہ اقبال نے اس پر لمبی چوڑی تنقید کی تھی۔ تھیٹر اور فلموں میں کام کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انہیں وہ عزت حاصل نہیں تھی جو کسی استاد، ڈاکٹر، جج، فلسفی، عالم، سیاستدان یا سرکاری افسر کو دی جاتی تھی۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے، اداکاروں کو نہ صرف سلیبرٹی سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں قوم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ ان کی زندگیوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، ان کی طرح لباس پہننے، ان جیسے بال بنانے اور ان کی چال ڈھال کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس رجحان کو مزید ہوا دی ہے۔ کسی زمانے میں والدین اپنے بچوں کو اداکاری جیسے پیشے سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے مگر آج وہی والدین اپنے بچوں کو اس میدان میں کامیاب ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہی معاملہ جسم کی نمائش کے ساتھ پیش آیا ہے۔ چند دہائیاں قبل خواتین اور مردوں کا لباس ایک خاص معیار پر پورا اترتا تھا جس میں حیا اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ جسم کی نمائش کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور معاشرہ اس پر تنقید کرتا تھا۔ لیکن آج فیشن کی دنیا نے اس سوچ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ لباس کی وہ تمام شکلیں جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں اب فیشن کے طور پر اپنائی جاتی ہیں۔ جسم کی نمائش اب معاشرتی مقام اور جدیدیت کی علامت سمجھ لی گئی ہے۔ میڈیا، فلم، ڈرامے اور سوشل میڈیا نے اس تبدیلی کو مزید ہوا دی ہے۔ مشرقی روایات جن پر کبھی فخر کیا جاتا تھا وہ اب دقیانوسی قرار دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں 2000 سے 2023 تک فیشن انڈسٹری میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نسل نو کے ہیروز بدل دئیے ہیں۔ آپ کسی نوجوان سے پوچھیں اسے قومی ہیروز کے بارے میں علم نہیں ہو گا لیکن وہ کسی معروف یوٹیوبر، ٹک ٹاکر یا انفلوئنسر کو ضرور جانتا ہو گا۔ رہی سہی کسر ہمارے تعلیمی اداروں نے پوری کر دی ہے۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں آزادانہ ماحول اور اختلاط نے سنجیدگی، گہرائی اور فکری وسعت کو ختم کر دیا ہے۔ طلبہ محنت اور علم کے بوجھ کو اٹھانے کے بجائے شارٹ کٹ راستے سے مشہور ہونا چاہتے اور اسی کو کامیابی تصور کرتے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیسے کو کامیابی کا واحد معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا سے کمائی کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وائرل ہونے کے لیے غیر اخلاقی حرکات، جھوٹا مواد پھیلانے اور سنسنی خیز ویڈیوز بنا کر پیسا کمانے کو کامیابی سمجھ لیا گیا ہے۔ وائرل ہونے کے شوق اور شہرت کے لیے عزت، اقدار حتیٰ کہ دین کو بھی قربان کیا جا رہا ہے۔ آج ہر نوجوان کی زبان پر یہ الفاظ ہیں کہ فلاں ٹک ٹاکر لاکھوں کما رہا ہے، فلاں یوٹیوبر کی اتنی آمدنی ہے اور فلاں انسٹاگرامر اتنی دولت کما رہا ہے۔ شہرت اور پیسے کی اس دوڑ میں علم، شعور اور تہذیب پس منظر میں جا چکے ہیں۔ ہماری حکومتیں بھی اس غلط ٹرینڈ کو پروموٹ کر رہی ہیںاور جو سالانہ ایوارڈ دئیے جاتے ہیں اس میں مغنی، اداکار، ٹک ٹاکر، یوٹیوبر اور کھلاڑی تو شامل ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی نوجوان فلسفی، رائٹر، شاعر اور عالم شامل نہیں ہوتا۔ ایک دور تھا جب ’’عزت‘‘ کا مطلب اخلاقی پاکیزگی اور نیک نامی تھا مگر آج معاشرے میں عزت کا مطلب شہرت اور دولت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ’’کامیابی‘‘ محنت، ایمانداری اور حصولِ علم سے جڑی ہوتی تھی مگر اب یہ صرف زیادہ پیسہ کمانے تک محدود ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ نے ہماری لغت اور اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنی روایات، اخلاقی اصولوں اور اقدار کا تحفظ کریں۔ اپنے اصل ہیروز کو پہچانیں، اسلام میں معیوب سمجھنے جانے والے پیشوں کی شناخت کو واضح کریں اور نسل نو کو غلط پیشے اختیار کرنے سے بچائیں۔ نژاد نو کی انسپائریشن کے مراکز کو بدلیں اور فحاشی و عریانی کو گلیمرائز کرنے کے بجائے حیا و پاکدامنی کے تصور کو فروغ دیں۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو قوموں کے عروج و زوال کے جو اصول اندلس اور دنیا کے دیگر خطوں اور قوموں پر اپلائی ہوئے ہیں ہم بھی ان کی زد میں آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ذلت و زوال سے نہیں بچا سکے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا سمجھا جاتا جاتا تھا کیا جاتا کیا جا دیا ہے لیکن ا رہا ہے

پڑھیں:

بلوچستان سے دوسرے صوبوں کو پھلوں سمیت اشیا خورونوش کی ترسیل معطل

بلوچستان گڈز اینڈ ٹرک ایسوسی ایشن کی اپیل پر بلوچستان سے دیگر صوبوں کو  پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیائے خورونوش کی ترسیل بند کردی گئی  ہے۔

منگل کے روز مظاہرین نے ٹرکوں کو بلوچستان کے داخلی اور خارجی راستوں پر احتجاجا روک دیا، مظاہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک کیا جاتا ہے اور ٹریفک قوانین کے نام پر بھاری جرمانے اور رشوت وصول کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں پہیہ جام ہڑتال جاری، مگر کیوں؟

مظاہرین کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں میں داخل ہوتے ہی بلوچستان کے ٹرکوں کو روک لیا جاتا ہے اور پھر مختلف بہانوں سے ان سے رشوت کی مد میں پیسے وصول کیے جاتے ہیں، رشوت نہ دینے کی صورت میں گاڑی کو بند کر دیا جاتا ہے اور ایسے میں لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

مظاہرین نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں ہمارا کاروبار کرنا ممکن نہیں رہا، جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے احتجاج جاری رکھیں گے، مظاہرین نے پھلوں اور سبزیوں سمیت دیگر صوبوں کو اشیائے خورونوش کی ترسیل بند کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آل پاکستان بس یونین نے بلوچستان بھر میں پہیہ جام ہڑتال کردی

گڈز اینڈ ٹرک ایسوسی ایشن کے احتجاج کے سبب ایران اور افغانستان سے بھی سامان کی ترسیل کا نظام متاثر ہورہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بلوچستان پاکستان پنجاب خیبرپختونخوا سندھ گڈر اینڈ ٹرک ایسوسی ایشن

متعلقہ مضامین

  • پانی کی بوتل کے ڈھکن میں چھپا راز، نیلے، پیلے، سیاہ، سبز ڈھکن کیا پیغام دیتے ہیں؟
  • چیمپیئن ٹرافی:ہارنے سے دباؤ بڑھ جاتا ہے،اس لیے فوکس پہلے میچ پر ہے، روہیت شرما
  • صائم ایوب کے ساتھ تعلقات؟ کشف علی نے خاموشی توڑ دی
  • آن لائن فراڈ کے طریقے
  • عام آدمی پارٹی کا زوال۔ٹوٹ گئے خواب
  • بلوچستان سے دوسرے صوبوں کو پھلوں سمیت اشیا خورونوش کی ترسیل معطل
  • کیا کوئٹہ کا پانی پینے کے لیے غیر موزوں ہے؟
  • سحر کا طلسم: وہم یا علم؟
  • کوئٹہ میں قیمتی نگینوں کے کاروبار کا انوکھا طریقہ