Nai Baat:
2025-04-15@06:21:13 GMT

تھو تھو جلسہ ناکام، اڈیالہ میںصف ماتم، تیسرا خط

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

تھو تھو جلسہ ناکام، اڈیالہ میںصف ماتم، تیسرا خط

صوابی میں تھوتھو جلسہ پرانی بات لیکن پی ٹی آئی کی کمر توڑ گیا، پارٹی کے زوال کا باعث بن گیا۔ خیبر پختونخوا کے عوام مایوس، خان صدمہ سے دوچار اسد قیصر کا حلقہ گنڈا پور کی حکومت جنید اکبر کی نئی نئی بڑھکیں کچھ بھی کام نہ آیا۔ پی ٹی آئی ہر احتجاج کے بعد فارغ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ قومی اسمبلی میں او او، جلسوں میں تھو تھو، گنڈا پور نے ریاست پر نہیں پارٹی اور اپنے منہ پر تھوکا، آرٹیکل 6 نہیں لگنا چاہیے؟ اللہ پارٹی پر رحم کرے کیسے لیڈر ہیں جو اپنے بانی کو تاحیات جیل میں رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا اپر چیمبر محاورتاً نہیں حقیقت میں فارغ ہے۔ ایسے میں کسی ڈیل ڈھیل یا سہولت کاری سے کپتان کی رہائی ممکن نہیں، خان وکلاء سے سیاست کرا رہے ہیں، جس کا کام اسی کو ساجھے وکلاء جیل یاترا کے دوران مقدمات پر لائن لینے دینے کے بجائے پیغام رسانی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں جیل سے باہر سینہ پھلا کر میڈیا سے خان کا پیغام شیئر کرتے ہیں اور شام سے رات 12 بجے تک ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ خان کے خطوط موضوع بحث، جواب آ گیا، پہلے اور دوسرے خط کے بعد تیسرا خط چوتھا بھی تیار، خطوط غالب کے بعد خطوط خان تاریخ کا حصہ، دو میں 6 نکاتی مطالبات تیسرے میں پانچ کسی نے شیخ مجیب کے درد ناک انجام سے خبردار کر دیا ہو گا۔ جن کے نام لکھے گئے انہوں نے خاموشی توڑ دی، صحافیوں نے آرمی چیف سے سوال پوچھ لیا جواب میں مکمل بے اعتنائی سرد لہجہ لیکن واضح پیغام، کہا ’’مجھے کوئی خط نہیں ملا، ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا۔ وزیر اعظم کو بھیج دوں گا یہ خطوط چالیں ہیں ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ اسے آگے بڑھنا ہے۔‘‘ جواب سے اڈیالہ جیل میں صف ماتم بچھ گئی۔ خان کے لیے چار تباہ کن خبریں شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن اور درپردہ مشیر جسٹس عظمت سعید انتقال کر گئے۔ ’’اب کسے رہنما کرے کوئی‘‘ 9 مئی جلائو گھیرائو کا اعتراف خطوط پر چٹا جواب ترک صدر آئے چلے گئے پوچھا تک نہیں، ٹرمپ نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ (خان کو خط بھیجنے کے لیے قاصد میسر نہیں آیا بڑھکوں والے جس قاصد کے ہاتھ بھیجنا تھا وہ بھی ’’ان‘‘ ہی کا چاہنے والا نکلا۔ اس سے واضح پیغام اور دو ٹوک جواب اور کیا ہو گا (ہن آرام اے) جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے رابطوں کی ساری خبریں بے بنیاد ہو گئیں، اپنے لوگوں نے مشورہ دیا کہ اندھی دیواروں سے ٹکریں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں، احتجاجی سیاست چھوڑ کر ذمہ داروں سے رابطہ کریں، مثبت رویہ کے بعد ہی کوئی کھڑکی کھل سکتی ہے۔ مقبولیت کی خوش فہمی دماغ سے نکال دیں ایک لاکھ افراد یعنی 54 فیصد عوام نے 190 ملین پائونڈ کیس میں خان کی سزا کو درست قرار دیا۔ مقبولیت میں کمی کی وجہ خان کے بدلتے بیانیے، لیڈروں کے بے بنیاد بیانات، رہائی کی اوٹ پٹانگ تاریخیں اور پارٹی میں واضح تقسیم اور انتشار، لیڈر کے لیے کانوں کا کچا ہونا اچھی بات نہیں، وکلاء کی باتوں میں آ کر شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکال دیا سیاستدان لیڈروں کی جانب سے فیصلہ پر نظر ثانی کا مطالبہ، ملک کی دیگر جماعتوں کے لیڈروں کو بھی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا لیکن انہوں نے 9 مئی جیسی غلطی نہیں کی (خان کے وکیل نے ملٹری کورٹ کیس میں 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا) فالس فلیگ آپریشن کا بیانیہ کہا گیا۔ پوری دیگ ہی الٹ دی، ماضی میں عبدالغفار خان نے 37 سال آصف زرداری 14 سال، بے نظیر پونے 7 سال، غلام احمد بلور 6 سال، جی ایم سید 16 سال، حضرت مولانا مودودیؒ 3 سال، جام ساقی 9 سال، اسفند یار ولی 8 سال اور میاں نواز شریف ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن کارکنوں کو جلائو گھیرائو کا حکم دیا نہ ہی اکسایا بلکہ مختلف طریقوں اور ذرائع سے اپنے لیے سپیس (جگہ) تلاش کر لی۔ خان کے ارد گرد روز بروز گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد قیامت تک کے مقدمات میں ضمانتوں کی سہولت ختم ہو گئی۔ سہولت کار آئینی طریقہ کار کے مطابق پیچھے دھکیل دئیے گئے۔ وکلاء نے احتجاج کیا لیکن وہی تعداد کی کمی آڑے آ گئی علی احمد کرد کی دھاڑیں کام نہ آئیں۔ عدلیہ کے بحران کو طوفان کی شکل دینے کی کوششیں ناکام، خان کی مایوسی اور ڈپریشن بدلے حالات کا نتیجہ، بزرگ کہا کرتے تھے دعا کرنا چاہیے کہ ایسا دشمن ملے جو اصلی اور نسلی ہو دشمنی ڈھنگ سے نبھائے۔ اللہ معاف کرے موجودہ حکومت کو ایسے دشمن ملے ہیں جو حکومت کے بجائے ملک سے دشمنی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ مودی ملاقات کے موقع پر خان کی حمایت میں دو بول کے منتظر آئی ایم ایف کے وفد کو ڈوزیئر کے ذریعہ بدظن کرنے کی کوششیں بھلا قرضوں کا عدلیہ میں تبدیلیوں سے کیا تعلق، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش لیکن اپنا دور بھول گئے خطوط کے ذریعے اندرون و بیرون ملک آگے بھڑکانے کی کوشش سول نافرمانی کی کال، یہ سب کیا ہے، خطوط کا مقصد ریلیف لینا ہیں اسٹیبلشمنٹ کو زچ کرنا ہے۔ دکھتی رگ کو چھیڑنا ہے تاکہ وہ خان کو پھر سے گود لے لیں لیکن آرمی چیف کے جواب نے خیال محلات مسمار کر دئیے ہیں۔ خطوط کا مقصد اقوام متحدہ کو متوجہ کرنا ہے تاکہ پاکستان کا مسئلہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی تک پہنچ جائے شنید ہے خان سخت غصے میں ہیں زمان پارک میں ہوتے تو برتن توڑتے جیل میں ہیں تو غصہ شیر افضل مروت پر اترا، تھو تھو والے کی شامت بھی آیا چاہتی ہے اینڈ گیم کیا ہے۔ مریم نواز نے کہا ندامت ہو گی تو مفاہمت ہو گی۔ خان کے لیے صائب مشورہ سارے تجربے ناکام ہو گئے۔ طاقتوروں کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوئی۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ خان اپنے خطوط کے ذریعے انٹرنیشنل سازش کو ہَوا دے رہے ہیں تاکہ دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان کو بھی نشانہ بنایا جائے اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کو خام بدہن تباہ کر دیا جائے۔ کنجی فوج کے پاس ہے خطوط کا مقصد عوام اور فوج میں دوریاں اور فاصلے پیدا کرنا ہے حکومت مضبوط اور پی ٹی آئی کمزور ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنا کر حکمرانوں کو گھر بھیجنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں، اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور سرپرستی ضروری ہے۔

خیبر پختونخوا میں خان کی ہَوا اکھڑ گئی۔ پارٹی میں جو تم پیزار، عوام پی ٹی آئی سے لا تعلق، سرکاری ملازمین نہ ملنے سے تھو تھو جلسہ ناکام ہو گیا، بڑھکوں اور تھو تھو سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ خان کو جھک کر اپنے لیے راستہ نکالنا ہو گا اسی طرح انرجک رہتے ہوئے شیر افضل مروت جیسے کام کے بندوں کو دھتکارتے رہے تو کوئی جگہ نہیں ملے گی، معیشت کی سمت درست ہو گئی خان بھی اپنا قبلہ اور سمت درست کر لیں، معروف صحافی اور تجزیہ کا سہیل وڑائچ نے نوابزادہ نصر اللہ مرحوم کا ایک قول دہرایا کہ جمہوریت ناکام ہو جائے تو اس کا علاج بھی جمہوریت ہے مذاکرات ناکام ہو جائیں تو ان کا علاج مذاکرات ہی ہیں خان کو بالآخر ایک دو قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی ناکام ہو رہے ہیں خان کے کے بعد خان کو خان کی کے لیے

پڑھیں:

سندھ حکومت اور اپوزیشن اپنے منشور کے مطابق مسائل حل کرنے میں ناکام، رپورٹ

کراچی:

ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کو ایک برس دو ماہ سے زائد ہو چکے ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، جماعت اسلامی ، پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے موقع پر اپنے اپنے منشور پیش کیے ، جس میں عوام سے ان کے بنیادی مسائل کے حل سمیت دیگر وعدے کیے گئے۔ انتخابات کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔

پارلیمانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن صوبے میں اپنے منشور کے مطابق عوامی مسائل حل کرنے میں فی الحال ناکام نظر آتی ہے۔

ایکسپریس نے سیاسی جماعتوں کے منشور اور ارکان سندھ اسمبلی کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی۔ جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل ورک کی سابق پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ اگر مجمورعی طور پر سندھ اسمبلی کے ارکان اور پارلیمانی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں کی نظر میں ان کی کارکردگی سے عوام مطمئن نظر نہیں آئے گی۔

سینئر پارلیمانی تجزیہ کار منیر الدین کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد پارلیمانی جماعتوں کی نشستوں میں تبدیلی آجائے گی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی تعداد بڑھ جائے گی۔

سینئر پارلیمانی تجزیہ کار عبدالجبار ناصر نے بتایا کہ بلوچستان اورگلگت بلتستان اسمبلی کے مقابلے میں سندھ کے ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہے ، سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو اپنے منشور کے مطابق عوامی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے جبکہ اپوزیشن کی کارکردگی اسمبلی میں تو بہتر ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کو عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاسی طور پر مزید متحرک ہونا ہو گا۔

سینئر صحافی اور پارلیمانی تجزیہ کار منیر الدین نے کہا کہ ماضی کے انتخابات میں پارلیمانی جماعتوں کا منشور انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔ صدر میں الیکٹرونکس کی دکان پر سیلز مین کا کام کرنے والے نوجوان احمر قریشی نے بتایا کہ عوام کو سیاسی جماعتوں کے منشور اور ارکان اسمبلی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

مجاہد کالونی کی رہائشی عائشہ علی نے بتایا کہ مہنگائی نے متوسط اور غریب طبقے کا ماہانہ بجٹ شدید متاثر کیا ہے۔ وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل وقار مہدی نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کا منشور معاشی اصلاحات اور دیگر عوامی مسائل کے حل پر مبنی ہے۔

سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی عوام کے مسائل کے حل کے لیے پارٹی منشور کے مطابق کام کر رہے ہیں، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما علی خورشیدی نے کہا کہ ایم کیو ایم کا منشور ضلعی خودمختاری ، انکم جنریشن پروگرام اور دیگر نکات پر مبنی ہے، ہم سندھ میں اپوزیشن میں ہیں۔

پارلیمانی اور سیاسی سطح پر ایم کیو ایم عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے بتایا کہ جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کے حل کے لیے متحرک ہے۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر راجہ اظہر نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ارکان سندھ اسمبلی عوامی مسائل کے حل کے لیے پارٹی منشور کے مطابق اسمبلی سمیت ہر فورم پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
  • پیپلز پارٹی کا حیدر آباد میں ہٹڑی گراونڈ کے مقام پر جلسہ کرنے کا اعلان
  • سندھ حکومت اور اپوزیشن اپنے منشور کے مطابق مسائل حل کرنے میں ناکام، رپورٹ
  • متنازع کینال منصوبے پر کبھی سمجھوتا نہیں کریں گے، شرجیل میمن
  • فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں ڈپلومیسی ناکام ہوگئی ہے؛ماہر بین الاقوامی امور محمد مہدی
  • اپوزیشن اتحاد کا 20 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا فیصلہ
  • اپوزیشن اتحاد کا 20 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کا فیصلہ لیکن میزبانی کون کرے گا؟ پتہ چل گیا
  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • کراچی، پولیس اور حساس اداروں نے اسمگلنگ کی بڑی کوشش ناکام بنا دی
  • بھارت کی مہنگی ترین ناکام فلم، جس نے میکرز کو دیوالیہ کردیا