سمندر سے مار کرنے والے کروز میزائلوں کی رینج بڑھانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ان میزائلوں کے وار ہیڈز کی تباہ کن طاقت پر بھی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ سمندر میں میزائلوں سے دشمن کے جہازوں کو دور سے ہی خبردار اور تباہ کیا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل علی رضا تنگسیری نے 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے ہائیپرسونک سمندری کروز میزائل کی رونمائی کے لیے فورس کے عزم کا اظہار  کیا ہے، جب کہ ایران کے پاس سمندر میں مار کرنے والے کروز میزائلوں کی رینج فی الحال 1000 کلومیٹر کے اندر ہے۔ اس سال 3 فروری کو پاسداران انقلاب کی بحریہ نے جدید ترین نیول کروز میزائل قدر 380 رونمائی کی ہے۔ یہ میزائل ایک ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے تک مار کرسکتا ہے، جو مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن کے ریڈاروں کو نظر نہیں آتا اور نچلی پرواز کرنے کی وجہ سے اس کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔

اس سے پہلے سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی کی بحریہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اپنے جنگی بیڑے میں 1,000 کلومیٹر سے زیادہ کی رینج والے طلائیہ (ابو مہدی) کروز میزائل شامل کر چکی ہے۔ تاہم 2,000 کلومیٹر کی رینج کے سمندر ی ہائپرسونک کروز میزائل حاصل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کی ایک قسم وہ ہے جن کی رفتار Mach 5 اور Mach 10 کے درمیان ہے۔ یہ خصوصیت اینٹی میزائل سسٹم کو ہائیپرسونک میزائلوں کی تیز رفتاری، فضا کی پتلی تہوں میں حرکت کرنے اور راستے میں چکمہ دینے  کی وجہ سے ان کا پتہ لگانے اور ان کو روکنے میں ناکام بناتی ہے۔

ہائپرسونک میزائلوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا، ہائپرسونک کروز میزائل اور دوسرا، ہائپرسونک گلائیڈر میزائل۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ اپنے سمندری میزائلوں کی رینج کو 2,000 کلومیٹر تک بڑھانے کے لیے کوشاں ہے، جب کہ وہ جلد ہی اپنے سمندری مشن شروع کرنے والی ہے اور آرمی نیوی کی طرح بڑے سمندروں میں اپنی آپریشنل گہرائی کو بڑھانا چاہتی ہے۔ سمندر سے مار کرنے والے کروز میزائلوں کی رینج بڑھانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ان میزائلوں کے وار ہیڈز کی تباہ کن طاقت پر بھی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ سمندر میں میزائلوں سے دشمن کے جہازوں کو دور سے ہی خبردار اور تباہ کیا جا سکے۔

ایران کونور اور کوثر سے لیکر ابومہدی اور ناصر جیسے 1000 کلومیٹر تک مار کرنے والے کروز میزائل دستیاب ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج نے وزارت دفاع اور پشت بانی کے تعاون سے بحری کروز میزائلوں کی ڈیزائننگ اور تیاری کے میدان میں ان میزائلوں کی مختلف رینج کو مختلف بحری جہازوں کے ذریعے استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ کروز میزائل کوثر، نصر-1، نور، ظفر، قادر، قدیر، ابو مہدی، ناصر اور نصر بصیر سپاہ پاسداران انقلاب کی نیوی کے اہم میزائل ہیں، جن کی رینج 10 کلومیٹر سے 1000 کلومیٹر تک ہے۔ یہ رینج سمندر سے ساحل تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کے لیے انتہائی موزوں سمجھی جاتی ہے، البتہ سمندروں کے لئے مطلوبہ رینج میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مار کرنے والے کروز میزائلوں مار کرنے والے کروز میزائل میزائلوں کی رینج کروز میزائلوں کی پاسداران انقلاب کی بحریہ تک مار

پڑھیں:

ایران کا دارالحکومت منتقل کرنے کا منصوبہ: چیلنجز، فوائد اور اسٹریٹجک مقاصد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے مختلف مواقع پر سامنے آتا رہا ہے لیکن بھاری مالی اور انتظامی چیلنجوں کے باعث ان تجاویز کو بارہا غیر عملی قرار دے کر مؤخر کر دیا گیا۔

تاہم اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیاں ، جنہوں نے جولائی میں عہدہ سنبھالا، نے حال ہی میں اس تجویز کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ تہران کو درپیش بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر دارالحکومت کی منتقلی پر غور ضروری ہو گیا ہے۔

تہران کو، جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں شدید ٹریفک جام، پانی کی قلت، وسائل کا ناقص انتظام، بدترین فضائی آلودگی اور زمین کا بتدریج دھنسنا شامل ہیں، جو یا تو قدرتی عوامل کی وجہ سے یا انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیش آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جنوری میں، ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مهاجرانی نے تصدیق کی کہ حکام دارالحکومت کی ممکنہ منتقلی کا جائزہ لے رہے ہیں اور مکران کے علاقے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کسی حتمی ٹائم لائن کا نہیں بتایا۔

مکران خلیج عمان کے کنارے واقع ایک کم ترقی یافتہ ساحلی خطہ ہے، جو ایران کے جنوبی اور پسماندہ صوبے سیستان و بلوچستان اور ہمسایہ صوبہ ہرمزگان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔

یہ علاقہ کئی بار دارالحکومت کی منتقلی کے لیے ایک ممکنہ آپشن کے طور پر زیر بحث آ چکا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کے روز اپنے خطاب میں کہا، ’’مکران، جو اب تک ایک 'کھویا ہوا جنت نظیر علاقہ‘ ہے، اسے ایران اور خطے کے مستقبل کا معاشی مرکز بنانا ضروری ہے۔‘‘

ستمبر میں صدر مسعود پزشکیاں نے بھی واضح کیا تھا، '' ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا، ہمیں ملک کے اقتصادی اور سیاسی مرکز کو جنوب میں سمندر کے قریب منتقل کرنا ہو گا۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ تہران کے مسائل وقت کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور موجودہ پالیسیوں کے تسلسل سے یہ بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

دارالحکومت کی منتقلی کے منصوبے کی بحالی نے ایک بار پھر اس کے جواز پر بحث چھیڑ دی ہے، جہاں کئی حلقے تہران کی تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں۔

ایرانی رکن پارلیمنٹ علی خزاعی کا کہنا ہے کہ جو بھی نیا شہر منتخب کیا جائے، اسے ایران کی بھرپور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جانا چاہیے۔

تہران، جسے 1786 میں آغا محمد خان قاجار نے دارالحکومت قرار دیا تھا، گزشتہ دو صدیوں سے ایران کا سیاسی، انتظامی اور ثقافتی مرکز رہا ہے۔

گورنر محمد صادق معتمدیان کے مطابق، تہران صوبے میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد مقیم ہیں، جب کہ روزانہ تقریباً 20 لاکھ افراد کام کے لیے یہاں آتے ہیں۔

دوسری جانب، مکران اپنے ماہی گیری کے دیہات، ریتیلے ساحلوں اور سکندرِ اعظم کے دور تک پھیلی قدیم تاریخ کے لیے جانا جاتا ہے۔

تاہم، دارالحکومت کی ممکنہ منتقلی کے خلاف بھی کافی مخالفت پائی جاتی ہے۔
28 سالہ انجینئر اور تہران کے رہائشی کامیار بابائی نے کہا، ''یہ بالکل غلط فیصلہ ہو گا، کیونکہ تہران حقیقی طور پر ایران کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ شہر تاریخی قاجار سلطنت کی علامت ہے... جدیدیت اور شہری زندگی کی پہچان بھی۔‘‘

اسی طرح شہری منصوبہ بندی کے پروفیسر علی خاکسار رفسنجانی نے تہران کے اسٹریٹجک محل وقوع پر زور دیا۔

انہوں نے اصلاح پسند اخبار اعتماد کو بتایا، ’’یہ شہر ایمرجنسی اور جنگی حالات میں محفوظ اور مناسب ہے اور مکران دوسری طرف بہت زیادہ کمزور ہے کیونکہ یہ خلیج عمان کے کنارے واقع ہے۔‘‘

اپریل 2024 میں، اس وقت کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے کہا تھا کہ دارالحکومت کی منتقلی کے لیے تقریباً 100 ارب ڈالر کے بجٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔


مقامی خبر ایجنسی ایس این اے نے مکران منتقلی کے فوائد اور نقصانات پر غور کیا اور کہا کہ اس میں خطے کا ’’اہم تجارتی اور اقتصادی مرکز بننے کی صلاحیت‘‘ موجود ہے۔ تاہم، اس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ منتقلی ایران کے پہلے ہی بھاری مالی بوجھ میں مزید اضافہ کرے گی، جو جزوی طور پر عالمی پابندیوں کے نتیجے میں ہے۔

ایرانی امور کی ماہر بینفشے کنوش کے مطابق مکران کا انتخاب ایران کی وسیع تر اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی عکاسی کر سکتا ہے۔

انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "مکران کو ممکنہ طور پر اگلا دارالحکومت منتخب کر کے ایران دبئی اورگوادر جیسی سمندری بندرگاہوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام چابہار کے قریب ساحلی شہر کو پابندیوں کے باوجود فروغ دے گا اور اہم طور پر خلیج فارس کی آبی گزرگاہ میں ایران کے کردار کو دوبارہ مضبوط کرے گا۔

ش خ/ ا ا (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • ایران کا دارالحکومت منتقل کرنے کا منصوبہ: چیلنجز، فوائد اور اسٹریٹجک مقاصد
  • عمران خان کو نااہلی ختم کرنیکی پیشکش کی جا رہی ہے: حامدرضا کا دعویٰ
  • عمران خان کو نااہلی ختم کرنیکی پیشکش کی جا رہی ہے: صاحبزادہ حامد کا دعویٰ
  • باسمتی چاول کی ملکیت حاصل کرنے میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بڑی کامیابی
  • ایران، نئے خود کش اور ٹیکٹیکل جاسوس جدید ترین ڈرونز کی کامیاب آزمائش
  • پنجاب حکومت کا نجی شراکت منصوبوں کیلیے نئی اتھارٹی قائم کرنیکا فیصلہ
  • نیتن یاہو کی میزبانی ٹرمپ کی اسٹریٹجک غلطی
  • امن مشقیں: آسٹریلوی بحریہ کا چین، روس، ایران کو پیغام
  • امریکہ اور اسرائیل کو نہیں مانتے ، ہر صورت ایٹمی پروگرام مکمل کرینگے ، ایران کا اعلان