WE News:
2025-02-20@19:59:59 GMT

تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

 اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک انصاف کا کارکن بڑا سخت جان ہے۔ اس نے سب کچھ سہا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہر مشکل وقت کو برداشت کیا مگر خان کے بیانیے کے ساتھ رہا۔ اس کارکن نے ہر یوٹرن پر آمنا صدقنا پڑھا اور بغیر کسی اعتراض کے خان کے قافلے میں شامل رہا۔ خان کے ہر حکم پر اُس نے لبیک کہا، ہرتحریک کا حصہ بنا۔ ہر دھرنے، لانگ مارچ کی تائید کی۔ ہر احتجاج کی کال پر زیادہ نہیں تو کم از کم سوشل میڈیا پر احتجاج ضرور کیا۔

خان صاحب نے فرمایا کہ اس ملک میں بارہ موسم ہوتے ہیں، اس کارکن نے ایک دفعہ بھی اعتراض نہیں کیا۔  بلکہ موسمیاتی سائنس کی  کتب سے تاویلیں تلاش کرنے لگا جن کے مطابق موسم بارہ ہی ہوتے ہیں اور خان کے اس بیان سے پہلے سائنس غفلت کی زندگی گزار رہی تھی۔ محمکہ موسمیات ڈھٹائی  کا مظاہرہ کر رہا تھا یا پھر خود موسم بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ کسی کارکن کے منہ سے اُف تک نہیں نکلا۔ کسی نے اپنے لیڈر کی تصحیح  کی جرات نہیں کی۔

آفرین ہے اس کارکن پر جس نے خان کے کہنے پر عثمان بزدار کو بھی اپنا لیڈر مان لیا۔ وہ شخص جو چند دن پہلے کسی اور جماعت میں تھا، جس نے کبھی تقریر نہیں کی، جس نے کبھی کسی فائل پر دستخط نہیں کی، جس نے کبھی کوئی محکمہ نہیں چلایا۔ اس کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ وہ وزیر اعلیٰ جو پریس سے چھپتا پھرتا تھا۔ لیکن خان کا کارکن اسے وسیم اکرم پلس کہنے لگا کیونکہ یہ خان کا حکم تھا۔ اور یہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں ہے۔ صرف تعمیل ہی اس کارکن کا شیوہ  ہے۔

دعائیں دیجیے اس کارکن کو جس کو خان نے ’شعور‘ عطا کیا۔ اس کارکن کو احساس تک نہیں ہوا  کہ شعور صرف گالیاں دینے،  بہتان لگانے اور نفرت پھیلانے تک محدود تھا۔ یہ ’شعور‘ خان کے کارکنوں کا پسندیدہ شعار رہا۔ اسی شعور کے تحت پہلے وہ دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو گالی دیتے تھے۔ پھر سائفر کا جھگڑا  شروع ہوا تو شعور سرحدیں پار کر امریکا تک پہنچ گیا اور یہی کارکن امریکا کو گالیاں دینے لگا۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی ہوئی تو کارکن گالیوں کی تلواریں سونت کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑ گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو گالیوں کی لہر عدلیہ کی جانب چل پڑی۔ عدلیہ سے فارغ ہوئے تو آپس میں لڑنے لگے۔ آج کل  شیر افضل، سلمان  اکرم راجہ کو دشنام بھرے سلام بھیج رہے ہیں۔ فواد چوہدی نے گالیوں کی بوچھاڑ میں شعیب شاہین کو مکا جڑ دیا۔ شاندانہ گلزار،  مشال یوسفزئی کے حوالے سے نازیبا گفگو کر رہی ہیں۔ اور علی امین گنڈاپور پرائیویٹ محفلوں میں بشریٰ بی بی اور جیند اکبر کے بارے میں پوری شدت سے ’شعور‘ تقسیم کر رہے ہیں۔ شعور کی حد تو یہ ہے کہ  انصافی  یو ٹیوبر،  انصافی  یو ٹیوبر کے کپڑے اتار رہے ہیں۔ یہ سب خان کے احکامات کی پابندی کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ خان کو ایسے ہی جی دار اور باشعور کارکن خوش آتے ہیں۔

دادو تحسین دینی چاہیے عمران خان کے کارکن  کو جس نے دھرنوں کی سختیاں برداشت کیں، لانگ مارچ کے مصائب کا مقابلہ کیا، خان کے کہنے پر ریاستی تنصیبات کو نذر آتش کیا۔ حتیٰ کہ خان سے مخلص اس سادہ لوح کارکن نے شہدا کی یادگاروں کو بھی آگ لگائی۔ اس کارکن نے آنسو گیس کا بھی سامنا  کیا،  گرفتاریاں بھی دیں، پولیس سے ڈنڈے بھی کھائے، گولی کا سامنا بھی کیا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔

الیکشن کا وقت یاد کریں۔ انتخابی نشان والا فیصلہ آ چکا تھا۔ ن لیگ کا نعرہ مقبول ہو چکا تھا کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ تحریک انصاف کے ووٹر نے ایسے میں کمال تنظیم کا مظاہرہ کیا۔ ووٹ کتنے پڑے یہ الگ بات ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خان کا ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈالنے نکلا۔ بہت سے جانتے تھے کہ معروضی حالات میں  ان کا ووٹ کار آمد نہیں ثابت ہو گا لیکن اس کے باوجود خان کا کارکن ڈٹا رہا۔ اس نے  شکست نہیں مانی،  حوصلہ نہیں چھوڑا ۔

عمران خان نے اپنے کارکنوں کے دلوں  میں اعلیٰ مقام اس وقت نہیں پایا جب وہ حکومت میں تھے۔ حکومت چھوڑنے کے بعد دو نعرے کارکنوں کے دل میں گھر کر گئے۔  ایک نعرہ امریکا کی غلامی سے نجات کا نعرہ تھا اور دوسرا نعرہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا۔ ان دو نعروں سے خان صاحب نے ’کام اٹھا دیا‘ ، اپنی سلیکٹڈ سیاست سے نجات حاصل کی اور عوامی سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہ دو نعرے آج سے نہیں ہمیشہ سے مقبول نعرے ہیں۔ سب سیاستدانوں نے یہ نعرے لگائے اور پھر سمجھوتا بھی کیا۔ سب ہی نے کبھی نہ کبھی علم بغاوت بلند کیا اور پھر ہتھیار ڈال دیے۔

تحریک انصاف کے کارکنوں سے بات کرو تو اس وقت انہیں  سب سے فکر اس بات کی ہے کہ امریکا کے خلاف جہاد جاری ہے کہ نہیں ؟ اور دوسرا  وہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف  ڈٹ کے کھڑ ا ہے نا؟  ان دو سوالوں کے سہارے اس کارکن کی سانسیں چل رہی ہیں۔ وہ بار بار انہی دو سوالوں پر خان کے رد عمل پر خوشیاں مناتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ خان نہ امریکا کے آگے جھکے گا نہ اسٹیبلشمنٹ کو معاف کرے گا۔

کارکن بہت سادہ لوح ہوتے ہیں ان کے دل معصوم ہوتے ہیں۔ عمران خان کے سخت جان کارکن کو جب  اصل صورت حال کا پتہ چلے گا کہ خان کس طرح امریکا کو مدد کے لیے پکار رہا ہے بلکہ پاؤں پڑ رہا ہے تو اس کارکن کا دل کتنا ٹوٹے گا ۔جب انہیں پتہ چلے گا کہ امریکی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے خان کے پیرو کار آئی ایم ایف کے وفد کو بھی پاکستان کی شکایت لگا سکتے ہیں  تو یہ سادہ لوح کارکن کتنا رنجیدہ ہو گا۔ اور اسی کارکن کو جب اس بات کا علم ہو گا کہ خان اسٹیبلشمنٹ سے آج کل نہ  صرف معافیاں مانگ رہا ہے بلکہ اس سے این آر او عطا کرنے  کی درخواست کر رہا ہے۔ اس کے سارے احکامات بجا لانے کی یقین دہانیاں کرا رہا ہے۔ ہمیشہ اس کا مطیع اور فرمانبردار رہنے کی قسمیں کھا رہا ہے تو اس کارکن پر کیا گزرے گی۔

جب یہ دونوں باتیں تحریک انصاف کے کارکن کو پتہ چلیں گی کہ خان نہ امریکا کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے۔ تب یہ کارکن تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب تحریر کرے گا۔

تحریک انصاف کا کارکن بہت سخت جان ہے لیکن گمان ہے کہ ان دو محازوں پر پسپائی کی خبر سے وہ خان کا ساتھ چھوڑ جائے گا، شعور کی آخری حد بھی توڑ جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

فواد چودھری نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کو دو ٹکے کی قرار دیدیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کو دو ٹکے کی قرار دے دیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ یہ دو ٹکے کی سیاسی کمیٹی بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ہونے والے سلوک پر خاموش رہی لیکن ایک غیر اہم کلرک پر قراردادیں یاد آ گئیں؟ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ایک دن کے لیے جیل نہیں گئے، جو کروڑوں روپے کے فنڈ کھا گئے اور فنڈنگ کا حساب دینے سے انکاری ہیں، جن کی اوقات دو ٹکے کی نہیں ان سے فنڈ نگ کا حساب لینا انتہائی اہم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آرمی چیف کے دورۂ پر سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کیخلاف کارروائی کا اعلان
  • آرمی چیف کو برطانیہ میں ملنے والی عزت تحریک انصاف والے متنازع بنانا چاہتے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات
  • تحریک انصاف کا عیدالفطر کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ
  • مذاکرات کیلئے کوئی بیک ڈور چینل استعمال نہیں کیا جا رہا: اسد قیصر
  • گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر
  • تحریک انصاف کی ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے بیک چینل مذاکرات کی کوششیں، پارٹی سیکرٹری اطلاعات کی تردید
  • ثاقب نثار،باجوہ گٹھ جوڑسے متعلق ایک اورگواہی آگئی
  • عدلیہ کو اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کہے بس اب بہت ہوگیا،تحریک انصاف
  • فواد چودھری نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کو دو ٹکے کی قرار دیدیا
  • ’تنظیموں کی اصل طاقت اس کے کارکن اور ووٹ بینک ہوتے ہیں‘