Jasarat News:
2025-02-20@19:48:17 GMT

پاکستان کی بحرانی مثلث

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

پاکستان کی بحرانی مثلث

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی ان سے ملاقات کے لیے جانے والے چوتھے عالمی راہنما ہیں۔ نریندر مودی نے اس دورے میں امریکا کے ساتھ کئی معاہدے اور دفاعی سودے کیے بلکہ دونوں کے درمیان ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا اور یہ اعلامیہ پاکستان کے لیے مستقبل کے خطرات کی گھنٹی ہے۔ اعلامیے میں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی جیل میں مقید ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ایک پاکستانی نژاد باشندے کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے روایتی انداز میں اس اعلامیہ کو گمراہ کن، یک طرفہ اور سفارتی آداب کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس استرداد سے پاکستان کو درپیش چیلنج کم ہو سکتے ہیں نہ امریکا اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے۔ نریندر مودی کے ایک اور اہم ملاقات امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارڈ کے ساتھ ہوئی۔ تلسی گبارڈ امریکا کی اٹھارہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کریں گی اور یہ عہدہ نائن الیون کے بعد تخلیق کیا گیا ہے۔ 43 سالہ تلسی گبارڈ اور بھارت کا تعلق نظریاتی رنگ سے بھرپور ہے۔ تلسی گبارڈ کا بھارت سے کوئی خاص تعلق نہیں مگر ان کے والد نے امریکا میں ہندو مذہب قبول کیا تھا۔

تلسی گبارڈ ہندو توا نظریات سے متاثر ہیں اور انہیں ’’کرما یوگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ تلسی گبارڈ نے اپنے عہدے کا حلف بھگوت گیتا پر اُٹھا کر اپنے نظریات کا واضح طور پر اظہار کیا تھا۔ وہ 2014 میں مودی کی دعوت پر پہلی بار بھارت کا پندرہ دن کا دورہ کرچکی ہیں۔ 2019 میں بھی وہ بھارت کی ایونٹ مہمان خصوصی بنیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات یہ رہے ہیں کہ انہوں نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور حافظ سعید کی رہائی پر تنقید کی۔ اس لیے اب کی بار نریندر مودی کے لیے امریکی انتظامیہ میں چہار سو ہرا ہی ہرا ہے۔ کچھ بھارت نژاد اور کچھ بھارت دوست افراد اہم عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں ان کے خیالات تلخ اور تُند رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکا کا تعلق دو مختلف انداز لیے ہوئے ہے۔ پاکستان امریکا کے لیے ایڈہاک ازم پر مبنی ایک عارضی جنگی پروجیکٹ ہے اور بھارت ایک طویل المیعاد مستقل دوستانہ اور دفاعی پروجیکٹ۔ جب بھی امریکا کو خطے میں دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے کی ضرورت ہوگی وہ پاکستانی مقتدرہ کی کلائی مروڑ کر اسے جنگ میں دھکیلتا ہے اور بھارت کو وہ ہر قسم کی جنگ سے بچا کر ترقی اور امن کے راستوں پر اپنا شراکت دار بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کے اسلام آباد میں سابق سفیر رچرڈ اولسن نے ستمبر 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اسرائیل کے ایک اخبار میں لکھے گئے مضمون میں اس تعلق کی بہت دلچسپ منظر کشی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ امریکا پاکستان کو بھی بھارت کی طرح جنگوں کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے مستقل نوعیت کے تعلقات قائم کرے مگر امریکا ایسا کیوں کرے؟ پاکستان کے پاس امریکا کو دینے کے لیے ہے ہی کیا؟ یہی کافی ہے کہ امریکا پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی مجبوری امریکا ہے۔ ان کا تعلیم تفریح اور کاروبار کا مرکز ہی امریکا ہے۔ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔

رچرڈ اولسن کا یہ تجزیہ ہوائی نہیں تھا بلکہ اسلام آبا د میں سفارتی ذمے داریوں کے دوران انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا تھا کہ پاکستان کی فیصلہ ساز اشرافیہ امریکا کے بغیر سانس لینے کا تصور نہیں کر سکتی اور خود امریکا بھی پاکستانی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی جانے والی دولت کو اپنے ہاں بصد خوشی قبول کرتا ہے اور پھر اس دولت کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ پاکستان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا بھارت کو ہر صورت میں چین کے مدمقابل تہذیب کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ایشیا سے اگر اسے کنفیوشس تہذیب کے مقابلے سے متعلق اپنے تزویراتی پروجیکٹ چھوڑ کر رخصت ہونا بھی پڑے تو وہ اس خلا کو ہندو تہذیب اور شناخت کے حامل بھارت کے ذریعے پر کرے۔ اسی لیے اب امریکا کو بھارت کی سیکولر شناخت کی ہندو راشٹریہ بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں رہا۔ یہاں تک کہ امریکا نے اسرائیل کے بعد اگر کسی ملک کو اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر کا حقدار جانا تو ملک صرف بھارت ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ایلیٹ کلاس جسے رچرڈ اولسن نے دوسرے لفظوں میں امریکا کی ’’پیراسائٹ‘‘ قرار دیا ہے امریکا کے دبائو کا سامنا نہیں کرسکتی۔ چند برس قبل امریکا سے ایک سائفر آنے پر جس بحران کا آغاز ہوا تھا وہ اب امریکی حکام کے ٹویٹس کے ذریعے مزید سنگین اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ایک مراسلہ بھیج کر پاکستان کو حالات کی دلدل میں دھکیلا گیا اور اب ٹویٹس کے ذریعے اس دلدلی سفر کو مزید طویل، پیچیدہ اور گہرا بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں امریکا اور پاکستان کے درمیان ایسے مشکل مقامات آتے تھے تو پاکستانی رائے عامہ اینٹی امریکن ازم کا چولا پہن کر اپنی مقتدرہ کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی۔ اسی کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک بار اسلام آباد میں کہا تھا کہ پاکستان اپنی رائے عامہ میں اینٹی امریکن ازم پیدا کرنے کے بجائے اپنے مسائل حل کرے مگر سائفر بحران نے پاکستانی مقتدرہ اور رائے عامہ میں ایسی خلیج پیدا کردی ہے کہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ماضی میں جب بھی پاکستان کی مقتدرہ اور امریکا میں ٹھن جاتی تھی تو امریکا سول حکمرانوں کے ساتھ راہ ورسم پیدا کرتا تھا۔ میموگیٹ اور ڈان لیکس اسی حکمت عملی کا مظہر تھے۔ اس بار سارے اسٹرٹیجک اثاثے اقتدار کی ٹوکری میں ہیں اور رائے عامہ اور ان کی پسندیدہ قیادت دوسری انتہا پر کھڑے ہیں۔ ایسے میں امریکا کو پاکستان کی کلائی مروڑنے میں زیادہ آسانی ہو سکتی ہے۔ پاکستانی مقتدرہ کے لیے ٹرمپ آؤٹ آف سلیبس کردار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

موجودہ سسٹم اس مغالطہ کا شکار رہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے کردار اب تاحیات امریکا پر براجمان رہیں گے۔ اسی لیے انہوںنے ٹرمپ کی سیاست اور انداز کو مختلف اوقات میں ہدف تنقید بنایا۔ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی ڈیپ اسٹیٹ کے ارادے شاید یہی ہوئے مگر جمہوریتوں میں عوامی رائے کو راہ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس قدر گہرا ہوتا چلا جائے گا امریکا کے لیے پاکستان کی کلائی مروڑنا اور اپنے فیصلے منوانا آسان ہوتا چلا جائے گا۔ اس بحرانی کیفیت میں پاکستان ایک دن چین کے دروازے پر تو دوسرے دن امریکا کی دہلیز پر پنڈولم کی طرح جھولتا نظر آئے گا۔ جیسا کہ محسن نقوی نے دورہ امریکا میں کیا تھا۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلو سے اُٹھے تو چین مخالف تقریب میں جا پہنچے۔ پاکستان کا موجودہ سسٹم ایک طرف چین کو سی پیک سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر چکا ہے تو دوسری طرف امریکا کے عزائم اور تیور خطرناک اور زہرناک ہوتے جارہے ہیں جبکہ اس بحرانی مثلث کا تیسرا زاویہ اپنی رائے عامہ ہے جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور سڈنی سے لندن تک اس بار اپنی مقتدرہ سے ایک مستقل فاصلہ بنائے بیٹھی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو پاکستان کے لیے امریکا کے اہداف کی تکمیل کو آسان بنا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے بارے میں تلسی گبارڈ پاکستان کے میں امریکا پاکستان کا پاکستان کی امریکا کے امریکا کو اور بھارت بھارت کے کے ذریعے اسلام ا کیا تھا کے ساتھ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پاکستان چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے: بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔جرمن ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے سی پیک جیسے منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا اور ساتھ ہی امریکا سے تعلقات کو بھی ضروری قرار دیا۔ دوران انٹرویو بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے اندرونی مسائل پر بھی بات کی اور بہتر حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم موجودہ تقسیم کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ ڈیل میکر ہیں، پاکستان امریکی صدر کے ساتھ انگیج ہوسکتا ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ امن یا کم از کم تجارت یا انگیجمنٹ کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیسلا نے بھارت میں فیکٹری لگائی تو یہ امریکا سے زیادتی ہوگی، ٹرمپ
  • کیا امریکی “ڈیپ اسٹیٹ” بھارتی جمہوری عمل پر اثر انداز ہو رہی ہے؟
  • کئی معاملات میں بھارت سے اختلافات برقرار ہیں، صدر ٹرمپ
  • امریکا نے بھارتی ارب پتی تاجر کے خلاف رشوت کیس میں نئی دہلی سے مدد مانگ لی
  • ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی
  • ٹرمپ مودی پر دباؤ ڈال کر مہنگے ایف-35 لڑاکا طیارے بیچنا چاہتا ہے، بھارتی دفاعی ماہرین
  • چین اور امریکا کے درمیان پاکستان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے‘ بلاول
  • پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے: بلاول بھٹو
  • پاکستان چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے: بلاول بھٹو
  • پاکستان چین اور امریکا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے، بلاول بھٹو