Jasarat News:
2025-02-20@20:06:22 GMT

سیاسی و معاشی استحکام کیلیے امن و امان کا قیام ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

لاہور(آئی این پی)چیئرمین رابطہ علماء و مشائخ پاکستان،مرکزی مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری قاری محمد یعقوب شیخ نے کہا ہے کہ سیاسی و معاشی استحکام کے لئے پاکستان میں امن و امان کا قیام ضروری ہے.دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ کھڑے ہیں.اسلام آباد میں علما کرام جلد کنونشن سنٹر میں لائحہ عمل پیش کریں گے۔ان خیالات کا اظہار قاری محمد یعقوب شیخ نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی زیر صدارت مجلس مشاورت کے بعد میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔مجلس مشاور ت میں مرکزی مسلم لیگ کے وفد نے بھی شرکت کی.

مرکزی مسلم لیگ کے وفد میں ترجمان تابش قیوم بھی شامل تھے.مجلس مشاورت کا عنوان ”دہشت گردی کے خلاف قوم کا اتحاد” تھا۔ اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام مکاتب فکر کو متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اجلاس میں چیئرمین رابطہ علماء و مشائخ پاکستان قاری محمد یعقوب شیخ نے نقابت کے فرائض انجام دیے۔ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علما، مشائخ اور مذہبی و سیاسی شخصیات نے بھرپور شرکت کی اور دہشت گردی کے خلاف اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔اجلاس میں امن و امان کے قیام،فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے ایک رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا اعلان جلد منظر عام پر آ جائے گا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے قاری محمد یعقوب شیخ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس خیبر پختونخوا میں علما کرام کا بہت بڑا اجتماع ہوا ہے، اس سے قبل اسلام آباد میں مختلف جماعتوں کی قیادت جمع ہوئی تھی.مجلس مشاورت کا موضوع فرقہ واریت کا خاتمہ اور ملک میں امن و امان کا قیام تھا، کرم ایجنسی، پارا چنار میں فسادات، خیبر پختونخوا کے علاوہ بلوچستان میں بے امنی بھی زیر بحث آئی.قاری محمد یعقوب شیخ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے مستحسن قدم اٹھایا ہے اور قیام امن کے لئے پاکستان کی مؤقر جماعتوں کے قائدین،علما کرام کو دعوت دی تھی،پاکستان میں امن و امان کا قیام ہر صورت ہونا چاہئے۔امن و امان نہیں ہو گا تو معیشت، سیاست مستحکم نہیں ہو گی.آج مجلش مشاورت میں شریک علما کرام اور قائدین نے حکومت خیبر پختونخوا کو یقین دہانی کروائی کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امن و امان کا قیام خیبر پختونخوا دہشت گردی کے کے خاتمے کے اجلاس میں کے لئے

پڑھیں:

سیاسی استحکام

باخبر صحافیوں کی یہ خبریں درست ثابت ہوئیں کہ ورلڈ بینک شفاف طرزِ حکومت کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچے کا جائزہ لے گا۔ ورلڈ بینک کی ٹیم نے گزشتہ ہفتے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹرانسپرنسی کے تناظر میں پاکستان کا درجہ کم ظاہرکیا گیا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن International Finance Corporation (I.F.C) کے مینیجنگ ڈائریکٹر مختار ڈیوپ Makhtar Diop نے پاکستان کے ایک بڑے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر Political and Macro-Economic Stabiligy کی ضرورت ہے۔ سیاسی و میکرو اکنامکس استحکام حاصل ہونے کے ساتھ انتظامی اور مالیاتی شعبوں میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ فوری اصلاحات پر عملدرآمد سے ایک طویل جدوجہد کا راستہ مل جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ مینوفیکچرنگ اور انجینئرنگ کے شعبوں پر توجہ دینے کا خواہاں ہے۔ آئی ایف سی اپنی زیادہ تر توجہ زراعت، کارپوریٹ فارمنگ وغیرہ پر دے گی۔

ادھر حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان چپقلش انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان سیاسی مذاکرات کے کئی ادوار بے نتیجہ نکلے تھے جس کی بناء پر سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف چاروں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہورہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے دعوؤں کے باوجود خیبر پختون خوا کے شہروں کے ساتھ سابقہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔

لنڈی کوتل سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور نوشہرہ تک حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ ان علاقوں میں ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر تنظیمیں سرگرم ہیں اور حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی کے جنگجو عدالتیں لگاتے ہیں۔ پارہ چنار گزشتہ 6 ماہ سے ملک سے کٹا ہوا ہے۔

قبائلی جرگوں کی بناء پر اس علاقے میں امن قائم ہوا ہے مگر اب بھی پارہ چنار میں ضروری اشیاء و ادویات کی سخت قلت ہے۔ پولیس کی نگرانی میں قافلے پارہ چنار آتے جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے حالات کو معمول پر لانے کے اعلانات کے باوجود صورتحال خراب ہے۔ گزشتہ دنوں پارا چنار میں پھنسے ہوئے کئی طالب علموں نے اپیل کی تھی کہ یورپ اور امریکا میں ان کے داخلے اس لیے منسوخ ہو رہے ہیں کہ وہ پارہ چنار سے نہیں نکل سکتے۔

دوسری طرف بلوچستان میں بھی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ دہشت گردوں نے پھر ہرنائی میں غریب کان کنوں کو نشانہ بنایا۔ اب تک 16کان کنوں کے مرنے کی خبریں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 6 فروری 2025کو خضدار میں پولیس لائنز کے علاقے سے مسلح افراد نے ایک گھر سے ایک خاتون اسماء بلوچ کو اغواء کیا اور دو دن تک خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اسماء کے اہلِ خانہ اور خضدار کے شہریوں نے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ یہ دھرنا 3 دن تک جاری رہا، جس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے والی قومی شاہراہ پر ہر قسم کا ٹریفک معطل رہا۔ دھرنا کی قیادت اسماء بلوچ کی والدہ اور بھائی عطاء اﷲ جتک کررہے ہیں۔ عطاء اﷲ جتک اس وقت لسبیلہ یونیورسٹی کے پلانٹ پیتھالوجی شعبہ میں لیکچرار ہیں۔ اسماء بلوچ کے منگیتر عبدالسلام کو 6ماہ قبل نامعلوم افراد نے اغواء کر کے قتل کردیا تھا مگر اس نوجوان کے قاتل پکڑے نہ جاسکے، البتہ کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ بند ہونے سے قلات ڈویژن کے کمشنر کو فوری توجہ دینی پڑی۔ پولیس نے اسماء کو برآمد کیا جس کے بعد دھرنا ختم ہوا، بدامنی کی صورتحال صرف خضدار تک محدود نہیں رہی بلکہ مکران ڈویژن میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے تربت میں معروف شخصیت شریف ذاکر کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ شریف ذاکر ایک ماہرِ تعلیم تھے اور تربت کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ان کا ایک بیٹا پہلے ہی لاپتہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک 16سالہ نوجوان حیات سبرل گزشتہ سال لاپتہ ہوا تھا۔ اس کی لاش پنجگور کے علاقے سے ملی۔ اس علاقے کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ تربت میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک نوجوان اﷲ داد بلوچ کو ہلاک کردیا۔ اﷲ داد بلوچ ایم فل کے اسکالر تھے۔ شریف ذاکر بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے۔ ان کو قتل کرنے والوں نے مکران ڈویژن کے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے ایک نوجوان بلوچ لڑکی اپنے 75سالہ بوڑھے باپ کی بازیابی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔ یہ بوڑھا شخص گزشتہ ایک سال سے لاپتہ ہے۔

 بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی دھرنوں سے بلوچستان میں تجارتی زندگی معطل ہوگئی ہے ۔ دوسری طرف اپر سندھ اور جنوبی پنجاب سے متصل کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے مسلسل آپریشن کی خبروں کے باوجود ڈاکوؤں کے خاتمے کی امید نظر نہیں آتی۔ دونوں صوبوں میں پولیس جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر اس علاقے کے صحافی کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے جن کی سرپرستی قبائلی سردار اور نان اسٹیٹ ایکٹرزکرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کئی سال گزرنے کے باوجود کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ کندھ کوٹ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی سرپرستی قبائلی سردار، منتخب اراکین اسمبلی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کے دعوؤں کے باوجود کچے کا علاقہ غیر محفوظ نظر آتا ہے۔

 صدر زرداری نے اپنے دورۂ چین کے بعد ایک دفعہ پھر یہ اعلان کیا کہ سی پیک گیم چینجر ہوگا مگر بلوچستان میں مستقل بدامنی اور اہم شاہراہوں کے مستقل بند ہونے سے گیم چینجر کا خواب کیسے پورا ہوگا؟ حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود سیاسی استحکام ابھی تک نظر نہیں آتا۔ جب ملک میں مکمل طور پر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو اقتصادی ترقی ایک خواب رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا کے طلبہ کیلیے بڑی خوش خبری
  • سیاسی استحکام
  • خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت کا افغانستان سے براہ راست مذاکرات کا فیصلہ
  • کرم میں امن و امان خراب کرنیوالے دہشتگردوں کی نشاندہی ہو گئی: علی امین خان گنڈاپور
  • معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے: علی امین گنڈا پور
  • فتنہ خوارج اور پاک فوج
  • سی پیک گیم چینجر منصوبہ، پاکستان میں معاشی ترقی و استحکام لائے گا: ماہرین
  • امن و امان کے قیام اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے اہم پیش رفت
  • پنجاب میں امن و امان کے قیام کیلئے صوبائی امپلیمینٹیشن کوآرڈینیشن کمیٹی قائم
  • ’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!