ٹنڈوجام،او جی ڈی ایل کے تعان سے لگائے جانے والے کیمپ کاریجنل کوآرڈینیٹر او جی ڈی سی اور زاہدمہیسرودیگر دعا کر رہے ہیں.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: او جی ڈی

پڑھیں:

کیمپ ڈیوڈ کی موت

اسلام ٹائمز: مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: رسول قبادی
 
مغربی ایشیا خطہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے نظریات کی تلاطم خیز تجربہ گاہ ہے۔ یہ خطہ ایک بار پھر ایسی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے جنہوں نے دیرینہ نظریات اور مفروضات کو چیلنج کر ڈالا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے مصر اور اسرائیل کے تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے تقریباً نصف صدی پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ انجام دیا تھا۔ اب دونوں کے درمیان عدم اعتماد، تناو اور حتی جنگ کی دھمکیوں جیسی فضا چھا چکی ہے جس نے کیمپ ڈیوڈ کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم سے کوئی بھی امن معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔ حقیقت پسندانہ مکتب فکر کی روشنی میں ایک اہم اصول مدمقابل کی نیتوں کا غیر یقینی ہونا ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال عدم اعتماد کو جنم دیتی ہے اور حکومتوں کو فوجی طاقت میں اضافے کی ترغیب دلاتی ہیں۔ یہ اصول حتی مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر بھی صادق آتا ہے۔
 
کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978ء میں انجام پایا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مصر، غاصب صیہونی رژیم کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ لیکن کمیپ ڈیوڈ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا امن ہمیشہ چیلنجز کا شکار رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین، سرحدی تنازعات اور خطے میں طاقت کا بدلتا توازن وہ وجوہات ہیں جنہوں نے امن کو خطرے کا شکار کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی انجام پانے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ فوجی جارحیت نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ مصر کی نظر میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی نے اس ملک کو نئے سیکورٹی خطرات سے روبرو کر دیا ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کی جانب سے غزہ اور مصر کی مشترکہ سرحد پر فلاڈیلفیا راہداری تک پیشقدمی نے بھی قاہرہ کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
 
فلاڈیلفیا راہداری ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے جو ہمیشہ سے مصر کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس علاقے پر صیہونی فوج کے قبضے کا مطلب غزہ کی سرحدوں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے جس کے باعث اس علاقے میں مصر کی رسائی بھی محدود ہو گئی ہے۔ قاہرہ اس بات پر پریشان ہے کہ اسرائیل اس علاقے پر کنٹرول کو فلسطینیوں پر دباو ڈال کر انہیں جبری طور پر مصر جلاوطن کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ بات مصر کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ مصر حکومت اسے اپنے لیے سیکورٹی خطرہ سمجھتی ہے اور یوں اس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مصر نے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیلی سرحدوں پر فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ ٹینکوں، جنگی طیاروں اور جدید فضائی دفاعی نظام کی تعیناتی صیہونی رژیم کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ مصر اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
 
دوسری طرف صیہونی رژیم مصر کے ان اقدامات کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور انہیں مصر کی جانب سے جنگ کے ذریعے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی علامت قرار دیتی ہے۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے مصر کی فوجی نقل و حرکت کو توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اس بارے میں مختلف رپورٹس اور تجزیات شائع کر کے خوف کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ صیہونی ذرائع ابلاغ نے حتی اسرائیل کی جانب سے مصر پر حملہ کرنے میں پہل (preemptive attack) کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی جنگ نے تناو کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور غلط فہمی کے نتیجے میں نادرست اقدام کا احتمال بھی بڑھ گیا ہے۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ کئی عشروں بعد اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات پر کالے بادل چھا گئے ہیں۔
 
مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں تناو تصویر کا صرف ایک رخ ہے جبکہ مصر اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی شدید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں۔ قاہرہ کی جانب سے اہل غزہ کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کے امریکی منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات گذشتہ چند عشروں میں کشیدہ ترین صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ کسی صورت غزہ سے فلسطینی مہاجرین کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کی نظر میں اس منصوبے کی حمایت کا مطلب فلسطین کاز ختم کرنے کی سازش میں شریک ہونا ہے۔ اسی طرح السیسی نے خبردار کیا ہے کہ خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کا نتیجہ مزید عدم استحکام اور ٹکراو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
دوسری طرف امریکہ مصر پر غزہ سے فلسطینی مہاجرین قبول کرنے کے لیے دباو ڈال رہا ہے۔ کچھ امریکی حکام نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر مصر اس منصوبے میں تعاون نہیں کرتا تو اس کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔ قاہرہ نے ان دھمکیوں پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مصری حکام کا خیال ہے کہ امریکہ ان اقدامات کے ذریعے مصر پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے اور یوں وہ مصر کے قومی مفادات کی بے احترامی کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجود بحران مصر کے لیے امریکی تسلط سے آزاد ہو کر خودمختار ہو جانے کا تاریخی موقع ہے۔ ان کی نظر میں مصر خودمختار اور زیادہ متنوع خارجہ پالیسی اختیار کر کے اپنے قومی مفادات کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتا ہے۔ مصر، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والا موجودہ بحران خطے میں طاقت کے توازن اور سیاسی مساواتوں میں گہری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی طالب علم کا اعزاز،تعلیم کیلئے امریکہ جانے والے چوہدری فیصل محمود سافک کائونٹی کالج میں مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر منتخب
  • فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے وفد کا ریسرچ سینٹر کادورہ
  • کیمپ ڈیوڈ کی موت
  • سعودی عرب سمیت 7 ممالک جانے والے 28 مسافروں کراچی ایئرپورٹ پر آف لوڈ
  • دوحہ جانے والے مسافر کے پیٹ سے 98 آئس بھرے کیپسول برآمد
  • کرم: پارا چنار جانے والے قافلے اور سیکیورٹی فورسز پر حملہ، جاں بحق افراد کی تعداد 9 ہوگئی
  • پاڑہ چنار جانے والے امدادی قافلے پر حملہ، کم از کم چھ افراد ہلاک
  • اڈیالہ جیل جانے والے راستوں پر کنٹینرز، ناکے بھی قائم
  • قومی ایئر لائن کے لاہورسے دبئی جانے والے طیارے سے پرندہ ٹکرا گیا
  • ٹنڈوجام ،نجی اسکول میں ٹی ٹی کیآگاہی کے حوالے سے سیمینار