حضرت لعل شہباز قلندر کا 3 روزہ عرس آج سے شروع
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کا 773 واں سہہ روزہ عرس آج سے شروع ہوگا، ملک بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
سید عثمان مروند المعروف حضرت لعل شہباز قلندر 7 صدیوں قبل جب سندھ کے علاقے سیہون پہنچے تو لوگ آگہی کے اجالوں سے دور بے راہ روی کے اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے تھے، لعل شہباز قلندر نے سیہون میں سکونت اختیار کی اور اللّٰہ اور اس کے آخری نبی کے فرمان کو لوگوں تک ایسا پہنچایا کہ آج بھی دنیا بھر سے لوگ سیہون پہنچ کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں۔
لعل شہباز قلندر کے 773 ویں سالانہ سہہ روزہ عرس کے لئے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انتظامات مکمل کرنے کے دعوے کئے گئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر جامشورو غضنفر قادری کا کہنا ہے کہ 19 فروری تک جاری رہنے والے عرس کے موقع پر سیکیورٹی کے بھی خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔
حضرت لعل شہباز قلندر کے تین روزہ عرس کے موقع پر گورنر، وزیراعلیٰ سندھ حاضری دے کر چادر چڑھائیں گے جبکہ آنیوالے زائرین کے لئے ملاکھڑا کے مقابلے، سگھڑوں کی کچہری، ادبی کانفرنس، دستکاری کی نمائش بھی کی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات
حضرت مظلوم کشمیری سے یہ دہائیوں بعد ہونے والی ملاقات تھی۔ حضرت مظلوم کشمیری سے تین عشروں سے زیادہ کا تعلق ہے۔ اس تعلق پر اکثر وقت کی گرد جمی رہتی ہے اور کبھی مدتوں بعد بادِ صبا کا کوئی جھونکا اس گرد کو اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کا شوق کہ ’’کون سی وادی میں ہے کون سی منزل پہ ہے، عشق بلا خیز کا یہ قافلہ ٔ سخت جان‘‘ ہمیں ایک بار پھر مظلوم کشمیری کے دربار میں لے گیا۔ ایک روایتی صحافیانہ تجسس بھی تھا اور آنے والے حالات کا ایک خاکہ بنانے کی ضرورت بھی۔ حضرت مظلوم کشمیری نے بہت پرتپاک استقبال کیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میرا ذہن حضرت سے ہونے والے پہلے انٹرویو تک جا پہنچا۔ بتیس سال پہلے کی بات ہے جب ایک وسیع کمرے کی فرشی نشست پر حضرت سے انٹرویو کر رہا تھا۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کو چار پانچ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا۔ غالباً جون 1994 کے دن تھے۔ طویل انٹرویو کے آخر میں مَیں نے پوچھا تھا کہ یہ سفر کیسا رہا حضرت نے ایک محاورے میں اس کا جواب دیا۔ کریوٹھ میوٹھ زیوٹھ (کڑوا میٹھا اور طویل) اب تو بتیس سال بعد بھی یوں لگ رہا ہے کہ سفر واقعی طویل ہوگیا ہے۔ میں نے یہ جملہ یاد دلاتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو اس وقت اندازہ تھا کہ سفر اتنا طویل ہوگا؟ حضرت کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ حالات اس رخ چل پڑیں گے تو شاید اپنا فیصلہ لینے سے پہلے کچھ اور سوچتے۔ حضرت اب تہی دست اور تہی دامن ہیں اور اب ان کے پاس کہنے، فخر کرنے کو صرف یہ مصرعہ بچا ہے
ہر داغ ہے اس دل میں بجُز داغِ ندامت
ان کے پاس اپنے اور پرائیوں کے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ توڑ نہیں نبھا سکتے تھے تو پھر ہمیں خواب نگر کی تاریک اور دلدلی مسافتوں کی نذر کیوں کیا تھا؟ مظلوم کشمیری کے مطابق کشمیریوں کی بدبختی کا آغاز جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوا جب کشمیریوں کو بتادیا گیا اب پاکستان آپ کی مزید عملی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ متعدد ملاقاتوں سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی حکومت کشمیریوں کی عملی مدد سے ہاتھ کھینچ چکی ہے مگر سانحہ یہ ہو اکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں کشمیر ہی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا اور عملی طور پر لاتعلقی کے مطالبے کو قبول کر لیا گیا جس کے بعد ہی پانچ اگست کا فیصلہ ممکن ہوا۔ اب کیا ہوگا؟ مظلوم کشمیری سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ مظلوم کشمیری صاحب سے پوچھا کہ اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے جواب سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مظلوم صاحب بھی عملی طور پر نظر بندی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب کی آزاد اُڑانوں کے موسم اور دن لد گئے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی عجائب خانے میں رکھی ہوئی ایسی اشیاء ہیں جو وقت اور حالات کے بازار میں متروک نادر اور نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ عجائب خانے کے شیلف میں کچھ حالات کی نمی کچھ وقت کی طوالت کی زنگ اور کچھ اندرونی شکست وریخت ان نادر ونایاب اشیاء کو خود ہی اپنے انجام تک پہنچا دے گی۔ مظلوم صاحب کے پاس کوئی نسخہ کوئی وظیفہ اور منتر ایسا نہیں کہ حالات کا دھارا بدلا جا سکے۔ ان کی باتوں میں احساس ِ زیاں اور دھوکا ہوجانے کا غم نمایاں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اگلے مورچوں پر کشمیر کا جہاد لڑ رہے ہیں تو انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ دل برداشتہ نہیں ہوتے پراکسی جنگوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مظلوم صاحب ایک بار اپنے ’’جہاد‘‘ کے لیے احباب کے منہ سے ’’پراکسی وار‘‘ کی اصطلاح سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ ایک درد وکرب کی کہانی تھی جو میں نے پہلی بار سنی تھی مگر میں نے 1993,94 میں اسی صفحے پر کشمیر کا ’’غلام اعظم‘‘ اور کشمیر کا انگور کے عنوان سے لکھا تھا کہ بھائیو کسی روز آپ اچانک حالات زمانہ کا شکار ہوجائو گے جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھو گے تو قدم بڑھائو کے نعرے لگانے والے غائب ہو چکے ہوں گے۔ یہ کشف وکرامت نہیں تاریخ کا سبق تھا اور تاریخ کو جاری حکمت عملی سے جوڑکر تصویر بنانے کی کوشش تھی۔
مظلوم صاحب کے ساتھ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت پر محیط نشست کے بعد اجازت لی تو الوداعی معانقہ کرتے ہوئے میرا تاثر تھا کہ کنٹرول لائن کے اُس پار والے مظلوم کشمیری صاحب کنٹرول لائن کی اِس جانب ہونے والے سلوک کے باعث صرف مظلوم ہی نہیں مجبور کشمیری بھی بن چکے ہیں اور ان کی گفتگو میں ماضی کا ہر جلاوطن کشمیری حریت پسند جھانک رہا تھا۔
بالخصوص راولپنڈی کے انجمن فیض الاسلام کے احاطے میں آسودہ ٔ خاک کشمیری راہنما چودھری غلام عباس کی تقریر کا وہ شعر یا دآرہا ہے جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر تقریر کر رہے تھے تو حالات اور ریاست کی پالیسیوں سے ناراض نالاں دلبرداشتہ اور وقت کے عجائب خانے میں پڑے چودھری غلام عباس جنہیں رئیس الاحرار کا خطاب دیا گیا تھا اور جن کی آمد پر قائد اعظم نے گورنر جنرل ہائوس میں باہر آکر استقبال کیا تھا برسوں بعد جلسے میں کہہ رہے تھے۔
ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو