پاکستان میں اصلاحات ، کھوکھلے وعدے یا حقیقی تبدیلی؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان میں لفظ ’’اصلاحات‘‘ کو اتنے برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اب جب کبھی اصلاحات کا ذکر آتا ہے تو وہ محض کھوکھلے دعوے معلوم ہوتے ہیں جن کے اندر تبدیلی کی حقیقی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
حال ہی میں مشعل پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ بعنوان پاکستان ریفارمز رپورٹ میں حکومت کے 2024 میں 100 زائد اصلاحات کے اقدامات کو سراہا گیا ،جب ہم 100 سے زائد اصلاحات ذکر سنتے ہیں تو ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔
رپورٹ کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اقدامات کو اصلاحات سے تعبیر کرنا محض غلطی ہے کیونکہ یا تو یہ گزشتہ جاری منصوبوں کا تسلسل ہیں یا پھر انہی منصوبوں سے پیوستہ رہنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2025 میں حکومت کی جانب سے 7ایسے سرکاری اداروں کی نج کاری کی گئی ہے جو خٰسارے میں چل رہے تھے مگر ان اداروں کے نام نہیں بتائے گئے ہیں لہذا نج کاری کے دعوے کے بعد ان اداوں کے نام ظاہر نہ کرنا بجائے خود رپورٹ کی ساکھ اور مستند ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ حکومت نے ابھی نج کاری کا کوئی معاملہ حتمی طور پر طے نہیں کیا ہے- آخری بار جو کامیاب نج کاری کی گئی تھی وہ گزشتہ سال فروری میں تھی۔
اس وقت موجودہ حکومت کسی نئی اسامی پر کوئی بھرتی نہیں کررہی بلکہ حکومتی اخراجات میں کمی اور بچت کے لیے مزید ڈیڑھ لاکھ اسامیوں پر بھرتی کا منصوبہ فی الحال موخر کردیا گیا ہے اس کے باوجود بعض تجارتی بنیاد پر چلنے والے سرکاری ادارے اب بھی سالانہ اربوں روپے کا نقصان قومی خزانے کو پہنچارہے ہیں۔
ان میں زیادہ تر اداروں کا تعلق مواصلات (ٹرانسپورٹ) اور توانائی کے شعبوں سے ہے جو ناقص انتظامی امور کے باعث اربوں روپے سالانہ کے خٰسارے میں ہیں، اسی لیے اس بات کی تصدیق ازحد ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے ایسے اداروں کی نج کاری یا ان کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی پر کام کیا گیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم نے حال ہی میں گلوبل مسابقتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دنیا بھر کی معیشتوں کا 12 بنیادی امور پر جائزہ لیا گیا جن میں جدت طرازی، کاروباری ماحول، لیبر مارکیٹ کی استعداد کار اور ملک کے مالیاتی نظام شامل ہیں۔
لہذا رپورٹ کا جائزہ لیتے وقت ہمیں توقع تھی کہ اس میں پاکستان کا تقابل بھی دنیا بھر کی دیگر معیشتوں سے کیا گیا ہوگا اور اس میں کاروبار کرنے، پیدواری صلاحیت، جدت طرازی اور معاشی استعداد کار کا جائزہ لیا گیا ہوگا۔
تاہم رپورٹ میں محض معاشی بحالی میں معاونت کرنے کے ضمن میں اسپیشل انوسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (SIFC) کے کردار کو سراہا گیا ہے، مذکورہ کونسل کی جانب سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور طرز حکمرانی اور نظم و ضبط کے فقدان کی نشاندہی کرنے اور اس حوالے سے اقدامات قابل بحث ہیں۔
تاہم رپورٹ میں کسی حقیقی مسابقتی اشاریے کا ذکر نہیں ملتا جس کے باعث اس رپورٹ میں اس مذکورہ کونسل کا ذکر تجزیاتی سے زیادہ سیاسی بناتا ہے،مالیاتی نظم و نسق کے حوالے سے پاکستان ریفارمز رپورٹ میں پنشن کے حوالے سے کی گئی اصلاحات کو اجاگرکیا گیا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ دس برسوں کے دوران حکومت کو 2024 میں متعارف کی گئی فنڈ اسکیم کے ذریعے ایک کھرب 70 ارب روپے تک کی بچت ممکن ہوسکے گی۔
تاہم اس اسکیم کا اطلاق صرف نئے سرکاری ملازمین پر ہوگا یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ پنشن حاصل کرنے والے افراد پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آنے میں معقول وقت لگے گا۔
یاد رہے کہ مالی سال 2024 میں پنشن اخراجات کا حجم ایک کھرب 20 ارب روپے تھا اور آئندہ بجٹ 2025 میں اس میں مزید 15 فیصد اضافے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس سے مالیاتی بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا-
پاکستان کو چاہئے کہ وہ کامیاب پنشن اصلاحات کے حوالے سے بھارت اور چلی کے ماڈلز کو اپنائے جہاں ایک مربوط انداز میں اصلاحات لاتے ہوئے طویل مدت اخراجات میں کمی لائی گئی ہے۔
پاکستان ریفارمز رپورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے متعدد اقدامات کا بھی اجاگر کیا گیا ہے ان میں بعض ایسے ہیں جن میں مزید پنپنے کے امکانات اور جن کی بدولت طویل بنیاد پر ترقی کی راہ ہموار ہوسکے گی-
ان میں بعض اقدامات کا ذکر کیا جانا چاہئے جیسا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کا اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ حاصل ہونے والی آمدنی یا منافع کو ڈالرز کی شکل میں رکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کی جانب سے رپورٹ میں حوالے سے نج کاری کی گئی کا ذکر
پڑھیں:
تاج محل کا حقیقی وارث ہونے کا دعویٰ، شہری نے سب کو حیران کر دیا
تاج محل کے حقیقی وارث ہونے کے دعویٰ کرنے والے بھارتی شہری نے سب کو حیران کر دیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے شہری شہزادہ یعقوب حبیب الدین ٹوسی نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ اکثر مغل طرز کا لباس پہنتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ہی تاج محل کے حقیقی وارث ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اپنے دعوے کی تائید کے لیے، یعقوب حبیب الدین حیدرآباد کی عدالت میں ڈی این اے رپورٹ بھی پیش کرچکے ہیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق 2019 میں، یعقوب نے جے پور کے شاہی خاندان کی شہزادی دیا کماری کو اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں شاہ جہاں کی تعمیر کردہ یادگار سے متعلق سرکاری کاغذات دکھانے کا چیلنج بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس اپنے پوٹھی خانہ میں کاغذات رکھے ہوئے ہیں، تو انہیں دکھائیں، اگر آپ میں راجپوت کے خون کا ایک قطرہ بھی ہے تو وہ دستاویزات ظاہر کریں۔یعقوب حبیب الدین اپنے روایتی شاہی لباس کے لیے مشہور ہیں، وہ اکثر سوشل میڈیا پر شاہی لباس میں ملبوس اپنی تصاویر شئیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔