مہنگائی کے بعد شرح سود بھی سنگلڈیجٹ پر لائیں گے‘ امیر مقام
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
کراچی(مانیٹر نگ ڈ یسک )وفاقی وزیر امور کشمیر، گلگت بلتستان و سیفران انجینئرامیر مقام نے کہا ہے کہ مہنگائی کے بعد شرح سود بھی سنگل ڈیجٹ پر لائیں گے۔شہر قائد میں مسلم لیگ ن ہاؤس میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ہرآدمی مہنگائی سے پریشان تھا، شہبازشریف نے دن رات محنت کی ہے، 40 فیصد مہنگائی کم ہوکر 2 سے 3 فیصد تک آ گئی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
حقیقی محبت کا مقام، عرشِ رحمان کے سائے تلے
حقیقی محبت وہ ہے جو اللہ کے لئے ہو، اللہ کی رضا کے لئے ہو اور اسی کی خاطر دلوں میں جاگزیں ہو۔ حدیث مبارکہ کے مطابق، قیامت کے دن، جب ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا، سات خوش نصیب گروہ ایسے ہوں گے جو اللہ کے عرش کے سائے میں جگہ پائیں گے اور ان میں سے ایک وہ بھی ہوں گے جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، کہاں ہیں وہ لوگ جو میری عظمت کے باعث ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، 2566)
یہ حدیث محبت کی اصل حقیقت کو بیان کرتی ہے ایسی محبت جو نفع و نقصان، شہرت یا مفاد کی بنیاد پر نہ ہو، بلکہ محض اللہ کے لئے ہو۔ یہی محبت وہ روحانی روشنی ہے جو انسان کو عرشِ الہٰی کے قریب کر دیتی ہے۔ محبتِ روح، سب سے اعلیٰ اور نایاب محبت، محبتِ روح وہ محبت ہے جو جسمانی کشش اور دنیاوی تعلقات سے ماورا ہوتی ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو انسان کے باطن کو منور کر دیتی ہے اور اسے روحانی بلندی عطا کرتی ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں،
مردہ بدم زندہ شدم گریہ بدم خندہ شدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شدم
ترجمہ: میں مردہ تھا، عشق نے مجھے زندہ کر دیا، میں رونے والا تھا، اب ہنستا ہوں۔ عشق کی دولت آئی اور میں ہمیشہ کے لئے دولت مند بن گیا۔ یہ شعر عشقِ حقیقی کی طاقت کو بیان کرتا ہے وہ محبت جو انسان کو زندگی کی ایک نئی حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ دنیاوی محبتیں فانی ہیں، مگر وہ محبت جو اللہ کے لئے ہو، انسان کی روح کو جِلا بخشتی ہے اور اسے دائمی خوشی عطا کرتی ہے۔قرآن، حدیث اور محبتِ الٰہی قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔(البقرہ: 165)
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل محبت وہ ہے جو اللہ سے ہو، کیونکہ یہی محبت انسان کو سکونِ قلب، روحانی روشنی اور حقیقی کامیابی عطا کرتی ہے۔اسی طرح، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: روحیں مجتمع لشکر ہیں، پس جو(روحیں) ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں، وہ آپس میں مانوس ہو جاتی ہیں اور جو نہیں پہچانتیں، وہ اختلاف کرتی ہیں۔ ( صحیح بخاری، 3336)
یہ حدیث اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ کے لئے محبت کرنے والے درحقیقت ازل سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے دل ایک دوسرے سے روحانی تعلق رکھتے ہیں۔محبت الٰہی، عبادت کی جان، ایمان کی روشنی محبت الہٰی ہی عبادت کی روح اور ایمان کا جوہر ہے۔ عبادت محض ظاہری اعمال کا نام نہیں بلکہ محبت و اخلاص کی روشنی کے بغیر کوئی بھی عمل حقیقت میں مئوثر نہیں ہوتا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: جب دو آدمی اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں تو ان میں سب سے افضل وہ ہے جو اپنے ساتھی سے زیادہ محبت کرنے والا ہو۔(صحیح ابن حبان، 576)
یہ حدیث ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی محبت کے ساتھ ساتھ اللہ کی مخلوق سے محبت بھی ضروری ہے۔ جو لوگ ایک دوسرے سے اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں، وہی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔محبت کی تاثیر، مولانا رومیؒ کی نظر میںمولانا جلال الدین رومیؒ محبت کی روحانی طاقت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں،
از محبت تلخہا شیریں شودا
ز محبت مسہا زریں شود
ترجمہ: محبت سے کڑوی چیزیں میٹھی ہو جاتی ہیں، محبت سے تانبہ سونا بن جاتا ہے۔یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ محبت کی طاقت ہر چیز کو بدل سکتی ہے۔ اگر دل میں اللہ کے لیے محبت ہو، تو دنیا کے سبھی مسائل آسان ہو جاتے ہیں، اور ایک مومن کا دل نورِ ایمان سے بھر جاتا ہے۔اسی طرح، وہ مزید فرماتے ہیں۔
از محبت سقم صحت می شود
وز محبت قہر رحمت می شود
ترجمہ: محبت سے بیماری صحت میں بدل جاتی ہے، اور محبت سے قہر رحمت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یہ اشعار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ محبت کی قوت انسان کے باطن، اعمال اور حالات کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اگر اللہ کی محبت دل میں ہو، تو یہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ نتیجہ، حقیقی ایمان اور عبادت کا جوہرحقیقی محبت اللہ کے قرب کا ذریعہ اور ایمان کی اصل ہے۔ جو محبت اللہ کے لئے ہوتی ہے، وہی روح کو روشنی، دل کو سکون اور اعمال کو اخلاص عطا کرتی ہے۔مولانا رومیؒ فرماتے ہیں۔
ہر لحظہ بتی سازم، وانگہ ہمہ بتہا را
در پیش تو بشکستم، ای آنک تویی تنہا
ترجمہ: میں ہر لمحہ ایک بت بناتا ہوں، پھر ان تمام بتوں کو تیرے سامنے توڑ دیتا ہوں، اے وہ جو اکیلا ہے۔یہ شعر ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیاوی محبتیں عارضی ہیں، جبکہ اللہ کی محبت ہی اصل حقیقت ہے۔اللہ ہمیں اپنی محبت، معرفت اور خالص توحید عطا فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا،دو آدمی جو اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ (صحیح مسلم، 2566)
یا اللہ!ہمیں اپنی محبت میں فنا کر دے اور اپنی معرفت سے سرفراز فرما۔ آمین اور دنیا میں محبت کو ہمارا مشن بنادے۔