LONDON:

بل گیٹس نے ایلون مسک کو دیگر ممالک کی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کی تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ مسک کو عوامی سطح پر انتخابات کے بارے میں اپنی حمایت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاگل پن ہے کہ مسک کو عالمی سطح پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت دی جائے۔

برطانوی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بل گیٹس نے مسک کی جرمنی اور برطانیہ کی سیاست پر حالیہ تبصروں پر ردعمل ظاہر کیا۔

مسک نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ 2008 سے 2013 تک برطانوی چیف پراسیکیوٹر کے طور پر لڑکیوں کی جنسی زیادتی روکنے میں ناکام رہے۔

 اس کے علاوہ مسک نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی حمایت میں بھی بیانات دیے تھے۔

بل گیٹس نے مزید کہا کہ امریکہ میں غیر ملکی انتخابی چندہ دینے کی اجازت نہیں ہے، اور انہیں یقین ہے کہ دوسرے ممالک بھی ایسی ہی پالیسیز اپناتے ہیں تاکہ کوئی بھی امیر شخص انتخابات کو متاثر نہ کر سکے۔

مسک، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے قریبی اتحادی ہیں، ان کے ساتھ عالمی لیڈروں سے بھی روابط رکھتے ہیں، جن میں ترکی کے صدر طیب اردگان شامل ہیں۔

مسک نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں 277 ملین ڈالر خرچ کیے تھے اور وہ ٹرمپ کے نئے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی کی قیادت بھی کر رہے ہیں، جس کا مقصد سرکاری اخراجات میں کمی اور اضافی قواعد و ضوابط کو ختم کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بل گیٹس

پڑھیں:

پہلگام کے زخم، جنگ کی سیاست اور امن کی تلاش

پہلگام میں ہونے والے حالیہ حملے نے نہ صرف کئی گھرانوں کو سوگوار کیا بلکہ برصغیرکی فضا کو ایک بار پھر بارود کی بو سے آلودہ کردیا۔ ہم کب تک لاشیں گنتے رہیں گے؟ کب تک مائیں اپنے بیٹوں کے لاشے اٹھاتی رہیں گی؟ کب تک بچوں سے ان کے باپ چھینے جاتے رہیں گے؟ یہ سرزمین جس نے کبھی صوفیا، سنتوں، بھگتوں اور فقیر منش انسانوں کو جنم دیا، وہ اب مسلسل ایک جنگی میدان بنی ہوئی ہے جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے اور سیاستدانوں کے لیے صرف نعرے اہم ہیں، عوام کی اذیت نہیں۔

پہلگام حملے کی مذمت نہ کرنا ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ بے گناہ لوگوں پر حملے چاہے، وہ کسی بھی طرف سے ہوں، انسانیت کے خلاف جرم ہیں، مگر اس جرم کی آڑ میں دو ریاستوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرنا اور امن کی ہر کوشش کو سبوتاژکرنا بھی ایک جرم ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست اور غیر ریاستی عناصر میں فرق ہوتا ہے، اگر کسی غیر ریاستی تنظیم کی جانب سے کوئی مذموم حرکت کی جائے تو اس کی بنیاد پر پوری ریاست کو ذمے دار ٹھہرانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک خطرناک روش بھی۔ اس سے نہ صرف غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں بلکہ وہ عناصر مزید طاقتور ہوتے ہیں جو دشمنی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیاں اور اس کی جانب بڑھتے قدم نہایت افسوسناک ہیں۔ یہ معاہدہ ان ہی دنوں میں ممکن ہوا تھا جب تقسیم کے زخم ابھی تازہ تھے، اگر اس وقت بھی دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہو سکتا تھا تو اب کیوں نہیں؟ آج بھی دونوں ممالک کے کروڑوں لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

پاکستان کی گلیوں میں بھوک رقص کرتی ہے، ہندوستان کی بستیوں میں بھوک سسکتی ہے۔ ایسے میں پانی کو ہتھیار بنانا، زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنانا، انسانیت کے خلاف ایک اور حملہ ہے۔ یہ معاہدہ ان لاکھوں کسانوں کے مستقبل کی ضمانت تھا جن کے کھیت پانی کے ایک ایک قطرے کے محتاج ہیں۔ اس کو ختم کرنے کی بات دراصل اُن کسانوں کے ساتھ غداری ہے چاہے وہ ہندوستان کے ہوں یا پاکستان کے۔

ہمیں یورپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یورپ جس نے دو عظیم جنگوں میں کروڑوں جانیں کھو دیں، جہاں برلن کی گلیاں ویران ہوئیں، وارسا کے ملبے اور پیرس کے خواب خون میں نہا گئے، آج وہی یورپ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہے۔ فرانس اور جرمنی جنھوں نے ایک دوسرے کو دہائیوں تک دشمن سمجھا، آج یورپی یونین کے ستون ہیں۔

وہاں کے رہنما جان چکے ہیں کہ دشمنی کسی مسئلے کا حل نہیں اور جنگ صرف لاشیں دیتی ہے، زندگی نہیں۔ انھوں نے ایک ایسا نظام وضع کیا جس میں مکالمہ ہے، مشاورت ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کی حرمت کا احساس۔ برصغیر کیوں نہیں سیکھتا؟ کیوں ہم امن کو کمزوری سمجھتے ہیں اور جنگ کو غیرت کا نام دیتے ہیں؟ کیوں ہماری تاریخ ہر دس سال بعد ایک نئی جنگ کے خونی باب سے داغدار ہوجاتی ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی مکینزم ہونا چاہیے جو ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روکے۔ دونوں ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیاں اگر ایک دوسرے سے رابطے میں ہوں، ایک مشترکہ تحقیقاتی بورڈ قائم ہو، تو ہم کسی بھی واقعے کی ذمے داری کا درست تعین کرسکتے ہیں اور بے گناہ ریاستوں کو الزام کے دائرے میں آنے سے بچا سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر دونوں ممالک کے نوجوان صحافی، دانشور، ماہرین تعلیم اور فنکار باقاعدگی سے ملاقات کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں اور مل کر ایسا بیانیہ بنائیں جو نفرت کے خلاف ہو، محبت کے ساتھ ہو۔ ہم کیوں ہر بار وہی کہانی دہراتے ہیں جس کا انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے؟

یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ نفرت کی سیاست صرف انتخابی فائدے کے لیے کی جاتی ہے۔ جب بھی بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، جس کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈال کر ووٹ بٹورے جاتے ہیں اور پاکستان میں بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ہر مثبت اشارے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہرکوشش کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔

دونوں اطراف میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے امن کے راستے پرکانٹے بچھا رکھے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کانٹوں سے ڈر کر راستہ بدل دیں گے؟ یا ان کو چنتے ہوئے ایک نیا راستہ بنائیں گے؟یہ وقت ہے کہ ہم ان مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں جن کے عزیز پہلگام میں مارے گئے، مگر ساتھ ہی ساتھ، یہ بھی وقت ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ بھی کھڑے ہوں جو جنگ کی سیاست کا شکار ہیں۔ جو چاہے کشمیر کی سرزمین پر ہوں یا تھرکی ریت میں جن کے لیے جنگ صرف بھوک اور موت لاتی ہے۔ اگر ہم نے امن کا راستہ نہ اپنایا تو اگلا حملہ کسی اور شہر میں ہو گا ،کسی اور ماں کی گود اجڑے گی اور ہم ایک بار پھر صرف تعزیت کر سکیں گے، کوئی بہتری نہیں لا سکیں گے۔

پانی کی لڑائی ہو یا سرحد کی کشیدگی یا غیر ریاستی عناصر کا مسئلہ ان سب کا حل جنگ نہیں بلکہ مکالمہ ہے، مذاکرات ہیں۔ ہمیں اس خطے کو یورپ بنانا ہوگا، وہ یورپ جو لڑتے لڑتے تھک گیا اور پھر امن کی چادر اوڑھ لی۔ ورنہ ہم صرف اپنے بچوں کو ایک ایسا برصغیر دے سکیں گے جہاں مٹی میں خون کی بو ہو اور ہوا میں بارود کی دھول، کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ یا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں اس دھرتی پر امن کے ساتھ جئیں، محبت کے ساتھ رہیں اور صرف ایک دوسرے کی قبریں نہ کھو دیں بلکہ ایک دوسرے کے خوابوں میں شریک ہوں۔

فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، وقت بہت کم ہے۔ دشمنی کے دن گنے جا چکے ہیں، اب محبت کو موقع دینا ہوگا۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر ہمیں شکستہ لفظوں میں یاد کرے گی کہ ہم وہ لوگ تھے جو امن کو صرف تقریروں میں چاہتے تھے عمل میں نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پہلگام کے زخم، جنگ کی سیاست اور امن کی تلاش
  • آئندہ 5 برسوں میں روبوٹس انسانی سرجنز کو پیچھے چھوڑ دیں گے، ایلون مسک کا دعویٰ
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا یکطرفہ فیصلہ، بھارت کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا
  • کراچی سمیت سندھ کے بیشتر علاقے کب تک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں رہیں گے؟
  • صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر سے گیٹس فاونڈیشن کے نمائندوں کی ملاقات
  • کسی نئی جگہ لے جانے کا کہنے پرٹیسلا نے مالک کو کہاں پہنچا دیا؟ ایلون مسک بھی اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ پائے
  • کیا ایلون مسک 100 بچوں کے باپ ہیں؟ حیران کن انکشاف سامنے آگیا
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزپیر،28اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • ایلون مسک کے بچوں کی تعداد 100 سے زائد؟ نئی رپورٹ نے ہلچل مچا دی
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطلی عالمی ذمے داریوں کی کھلی خلاف ورزی کی، اسحاق ڈار