Islam Times:
2025-02-20@02:55:18 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اسلام ٹائمز: اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔ تجزیہ و تحلیل: ڈاکٹر امین پرتو

بہت سے ممالک کو خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام جو ماضی میں داعشی ہی تھے کے شام پر مسلط ہونیکے بعد، اب بھی داعش کی باقیات کے لئے ممکن ہے کہ دوبارہ دولت اسلامیہ یا خلافت کو قائم کرنیکی کوشش کرینگے۔ بالخصوص جب کرد ملیشا اپنے علاقوں میں داعشی دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور جولانی کے زیر اثر شام کی فورسز لبنان کی سرحد پر مصروف ہیں اور ان کی ترجیحات میں شام میں موجود داعش کے جنگجووں سے لڑنا ابھی شامل نہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ جولانی داعشی عناصر کے لئے نرمی برت رہے ہیں۔ ہر صورت میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ شام میں طاقت کا خلا اب بھی باقی ہے۔ اب خدشہ یہ پایا جا رہا ہے کہ داعش اس طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔

داعش نے بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں فوج کے چھوڑے ہوئے فوجی اڈوں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے اور فوج کے ہتھیاروں کے ڈپووں پر قبضے کے علاوہ نئے اور بڑی مقدار میں جدید ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے۔ اب ان کے لئے فرات کے مغرب میں زیادہ اور آسان نقل و حرکت ہے، خاص طور پر شام کے صحرا میں، اور کردوں اور ترک فوج کے درمیان لڑائی نے فرات کے مشرق میں ان کی کارروائیوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کر دیا ہے۔ تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ داعش کی دستے ان کے کمانڈر کئی وجوہات کی بناء پر اداس اور مایوسی کا شکار ہیں اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ بشار الاسد کی معزولی کے بعد اپنی کارروائیوں اور طاقت کو بڑھانے کے لیے استعمال کر پائیں گے۔

داعش کی مایوسی کے اسباب:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ داعش نے شام کی بعثی حکومت اور اہل سنت آبادی کے درمیان اختلاف اور دوری کو اپنے لئے قابل اطمینان سمجھا اور دعویٰ کیا کہ وہ واحد قوت ہے جو شام میں سنیوں کے دشمنوں سے لڑتی رہی ہے اور ادلب میں نہیں جا چھپی۔ بعث حکومت یعنی بشار الاسد اور شامی اہل سنت کے درمیان دوری ہی سنی نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی بڑی وجہ تھی، یہی باعث رہا کہ داعش بہت زیادہ جانی نقصانات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اب جبکہ اہل سنت شام میں تبدیلی کے بعد خاموش ہو گئے ہیں تو داعش کے لئے شام میں پنپنے کا امکان نہیں بچا، داعش کے حریفوں نے اسد کا تختہ الٹ دیا، اور داعش اب ان کیخلاف کھڑا ہونے کے قابل نہیں، نہ ہی کوئی طاقت کا خلا باقی ہے، جسے داعش پر سکے۔

دوم یہ کہ شام میں غربت اور فقر کیوجہ سے نوجوان داعش بھرتی ہو رہے تھے۔ غربت، بے روزگاری اور افلاس میں لوگوں کے پاس پیٹ پالنے کے لئے ایک آپشن داعش میں مل جانا تھا کہ کم از کم بھوک سے بچ سکیں اور زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ امکان آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ شام کی نئی حکومت کے لیے غیر ملکی امداد میں اضافے، خانہ جنگی کے خاتمے، پناہ گزینوں کی واپسی، اقتصادی پابندیوں کے ممکنہ خاتمے اور بعثی دور کے سخت گیر سیاسی نظام کے بعد شام کی اقتصادی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ نتیجتاً، داعش کی بھرتی کی سماجی اور اقتصادی بنیاد بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔

تیسری وجہ یہ کہ داعشی عناصر اپنے جیسے ہی ایسے متبادل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے مقابلے میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ شامی عوام ابوبکر البغدادی کی خلافت، اس کی افتاد پسندی، اور داعش کے وحشیانہ تشدد جیسے خیالات کو بالکل قبول نہیں کر رہے ہیں، جس میں انفرادی اور سماجی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شام کی نئی حکومت نے بظاہر یہ کر دکھایا ہے کہ وہ داعش کی طرح نہیں ہے اور یقیناً یہ اس حکومت کے لیے خوش آئند بھی ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، داعش، جو ماضی میں سنیوں کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اب خود کو ایسی صورت حال اور مخمصے سے گزر رہی ہے کہ کس طرح انہیں شامی سنیوں کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، جب کہ جولانی حکومت کی اپنی سیاسی روش سے عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے (حالانکہ ان کے لئے اب بھی بہت زیادہ احتیاط اور شک باقی ہے)، داعش کے پاس بیانیہ اور نظریاتی سطح پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

چوتھا یہ ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو دبانے کے لیے اسد سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالے گی۔ شام کی پچھلی حکومت اصولی طور پر ملک کے بڑے حصوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں تھی، لیکن نئی حکومت بتدریج تمام علاقوں پر عملداری حاصل کر رہی ہے (سوائے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے)۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو مزید سختی سے دبا کر عالمی رائے عامہ اور مغربی حکومتوں کے لیے زیادہ قابل قبول ماحول فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ شام میں مسلسل عدم تحفظ، تنازعات اور خانہ جنگی کی وہ فضا جو داعش میں شمولیت، ان کی نقل و حرکت اور دیگر مسلح گروہوں کی طرح داعش کے گروہ میں شمولیت کی بنیاد فراہم کرتی تھی، ختم ہو چکی ہے۔ نئی رجیم کی طرف سے مختلف گروہوں کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں شامی فوج میں ضم کرنے سے داعش کو شام کے غیر مستحکم ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شام کی نئی حکومت بشار الاسد ہے کہ داعش ہے کہ شام نہیں ہے داعش کی داعش کے کو مزید میں کا رہی ہے کے لیے کے لئے ہے اور اور ان کے بعد

پڑھیں:

مودی حکومت الٹ سکتی ہے

ایشیا میں رقبے، آبادی، وسائل اور بہت بڑی معیشت کے ساتھ ایک بڑی فوج رکھنے والے ملک کا وزیراعظم نریندرا مودی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ یوں بیٹھا نظر آیا جیسے مٹی کھانے کے عادی بچے کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اسے گوشمالی کیلئے بٹھا دیا گیا ہو۔مظلوم کشمیریوں پر غرانے والا یوں بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ خدشہ تو یہ پیدا ہو چلا تھا کہ پاجامہ خراب نہ ہو جائے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے مشترکہ پریس کانفرنس اور مذاکرات سے قبل بھارتی وزیراعظم کو سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے سامنے بٹھا دیا جس نے انہیں باور کرا دیا کہ امریکی صدر سخت غصے میں ہیں بلکہ وہ غصے کے وہ ہیں جو بھارت میں بکثرت پائے جاتے ہیں لہٰذا ان کے سامنے بڑھ بڑھ کر باتیں نہ بنانا مزید یہ کہ غیرقانونی بھارتیوں کے کرتوتوں پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کو تحفظات ہیں۔ اس پیش بندی کے بعد وہ سب کچھ ہونا قرین از قیاس تھا جو بعدازاں کیمروں نے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچایا۔ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ انہوںنے گاجر اور چھڑی ساتھ ساتھ رکھی ایک موقع پر وہ مودی کو کرسی پر بیٹھنے میں مدد دیتے نظر آئے پھر جب مودی نے ہاتھوں میں پکڑی پرچیاں اوپر نیچے کرنا شروع کیں تو طنزیہ ہنسی ہنستے نظرآئے۔ مودی کی انگریزی امریکہ پہنچتے ہی ختم ہو گئی۔ انہوں نے اپنی زبان میں گفتگو کی جو اچھی بات ہے لیکن یہ گفتگو پراعتماد ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ وہ بھارت سے روانہ ہوئے تو یہ خواب لے کر چلے تھے کہ وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت کے سربراہ کے سامنے دنیا کی ایک بڑی معیشت کے سربراہ کی حیثیت سے بیٹھیں گے لیکن مودی کو ایک کمّی کی حیثیت دی گئی۔ کمّی بھی وہ جس سے جاگیردار ناخوش ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا چھابہ بھارتی وزیراعظم کے سامنے الٹا دیا اور حکم دیا کہ وہ اس کی ہر چیز اس کی مقرر کردہ قیمت پر خریدے گا جنہوں نے جواب میں کہا کہ وہ امریکہ سے تجارت کو پانچ سو ملین ڈالر تک لے جائیں گے۔ وہ امریکہ سے تیل اور گیس بھی خریدیں گے، مشینری اسلحہ بھی لیں گے اور نیوکلیئر کی فیلڈ میں تعاون بھی کریں گے۔ مودی نے امریکہ میں جو وعدے کئے ہیں وہ اس کی اوقات سے باہر ہیں۔ اس وقت بھارت کی امریکہ کے ساتھ تجارت 129ملین ڈالر ہے جو بڑھ کر دو سو ملین ڈالر ہو سکتی ہے یا اس سے کچھ بڑھ سکتی ہے لیکن پانچ سو ملین ڈالر تو آئندہ پانچ برس میں بھی نہیں ہو سکتی۔ مودی نے یہ بھی وعدہ کیا وہ ایک درجن سے زائد چیزوں پر ٹیکس ڈیوٹیاں کم کریں گے۔ ڈرے ڈرے سہمے نریندا مودی کا وہ حال تھا جو انٹرنیشنل فراڈیئے کا سخت گیر ایس ایچ او کے ہتھے چڑھنے کے بعد ہوتا ہے وہ سب کچھ تسلیم کرتے گئے جو بھارت کر ہی نہیں سکتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی گفتگو کا انگریزی ترجمہ پیش کرنے والوں کے بارے میں کہا۔ یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے تھے مجھے اس میں سے ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آیا۔ ٹرمپ کچھ سمجھنے کے موڈ میں تھے ہی نہیں وہ فقط انہیں اپنی بات سمجھانا چاہتے تھے اور اس میں کامیاب رہے۔ بھارتیوں کو اپنی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں پر بہت ناز ہے لیکن بھارت میں ششی تھرور کے علاوہ انگریزی کے لہجے میں انگریزی بولنے والا کوئی اور بہت کم نظر آتا ہے۔ تمام بھارتی ہندی کے لہجے میں انگریزی بولتے ہیں جسے سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔

بھارت انگولا، روس اور وینزویلا سے بڑی مقدار میں پٹرول خریدتا ہے۔ وہ سامان حرب روس سے بھی خریداری کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی چین کے ساتھ تجارت بڑھنے لگی تھی۔ ظاہر ہے یہ امریکہ کو کسی صورت گوارہ نہیں۔ مودی کو امریکہ بلا کر بے عزتی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بھارت کو باور کرایا جا سکے کہ امریکہ کی طرف سے لاتعداد دعائیں اسے اس لئے نہیں دی گئیں کہ وہ چین سے میل جول بڑھائے۔ امریکہ نے بھارت پر وہ معاشی بوجھ ڈال رہا ہے جو وہ خوشی سے نہیں اٹھائے گا۔ بھارت کو اپنے ہمسائے چین کی اہمیت کا احساس ہے۔ وہ چین سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ کی بڑی خواہش یہی ہے وہ چین کے مقابل اس خطے میں بھارت کی سرپرستی کرتا رہا ہے لیکن تمام تر مدد کے باوجود بھارت میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ کسی بھی میدان میں چین کا مقابلہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کے سامنے کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔ بھارت نے چین کا ہّوا کھڑا کر کے امریکہ کو خوب لوٹا ہے۔ امریکہ میں مقیم غیرقانونی بھارتیوں کے تحفظ میں ان کے وزیراعظم ایک لفظ نہ بول سکے۔ امریکہ انہیں فوجی جہازوں یا چارٹر فلائٹس کے ذریعے بھارت بھجوا رہا ہے ،اس کا خرچ بھارت سے وصول کرے گا۔

امریکی ویب سائٹ آئی سی ای کے مطابق چوبیس ہزار غیرقانونی بھارتیوں کو چارج کیا گیا ہے جبکہ سوا سات لاکھ بھارتیوں کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ امریکی حکام نے ان بھارتیوں کو امریکہ بدر کرتے ہوئے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں ان کی ویڈیوز بنائیں اور جاری کر دیں۔ انہیں جہاز میں سوار کرانے کے بعد بھی یہ زنجیریں نہ کھولی گئیں۔ یہ لوگ بھارتی ائیرپورٹ پر اترے تو بھارتی شہری اور میڈیا یہ سب کچھ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ بھارتی شہری عرصہ دراز سے امریکہ کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے لگے تھے اور دھڑا دھڑ امریکہ پہنچ رہے تھے۔ مودی کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد ریکارڈ تعداد میں بھارتی امریکہ پہنچے۔ بھارتی ماہرین کی امریکہ آنے والی ٹیم کے بہت چرچے تھے لیکن سب یوں ناک آئوٹ ہوئے جیسے اپنے وقت کا عظیم ہیوی ویٹ باکسر سونی لیسٹن، محمد علی کے مقابلے میں آیا تو پہلے ہی منٹ میں ایک زبردست پنچ کھانے کے بعد ایسا زمین پر گرا کہ پھر دوبارہ نہ اٹھ سکا پھر یہاں سے باکسنگ کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی۔ مودی اپنے دورہ امریکہ میں جدید امریکی طیاروں کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکے جو بہت مہنگا ہے چند روز قبل ہی طیارہ ایک فضائی حادثے میں پھٹ گیا جس نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اس حادثے کو دبانے کیلئے امریکہ میں اعلیٰ سطح پر بہت کوششیں کی گئیں تاکہ اس کا مارکیٹ پر برا اثر نہ پڑے۔
ٹرمپ نے روائتی امریکی مکاری سے کام لیتے ہوئے پاکستان کو زچ کرنے کی کوششیں کی ہیں اور ایک پاکستانی نژاد کینیڈین تنویر رانا کو ممبئی حملوں کا سہولت کار قرار دیتے ہوئے اسے بھارت کے حوالے کیا ہے۔ مودی اب اس مسئلے کو لے کر ایک مرتبہ پھر گھر گھر جائے گا اور اپنی تمام ناکامیوں کو اس کے پیچھے چھپانے کی کوششیں کرے گا۔ مودی سے ایک کرپٹ ترین بھارتی شخص ایڈانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ ناکام دورے کے بعد مودی حکومت الٹ سکتی ہے کیونکہ یہ دورہ شرمناک بھی تھا، اس پر شدید ردعمل آنا شروع ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • داعش کا عالمی نیٹ ورک بے نقاب ‘ متعدد غیرملکی گرفتار
  • اعلیٰ عہدیداران کو انکی ماتحت ریاستوں میں مستقبل کے انتخابی نتائج کیلئے جوابدہ بنایا جائے، کانگریس
  • مہنگائی میں کمی کا دعویٰ
  •  پاکستان علاقائی روابط کا  ابھرتا ہوا مرکز ، گوادر  مستقبل کا ضامن ہے: آصف زرداری
  • اہم رہنما کی عمران خان کے مستقبل کے بارے میں بڑی پیشگوئی
  • کسی سے بیک ڈور ملاقاتیں نہیں ہو رہیں: عمر ایوب
  • امریکی وزیر خارجہ کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، غزہ کے مستقبل پر بات چیت
  • جیسے مجھے نکالا اس کے بعد پی ٹی آئی میں کسی کا مستقبل محفوظ نہیں: شیر افضل مروت
  • مستقبل میں مہنگائی مزید کم ہوگی: وزیراعظم شہباز شریف
  • مودی حکومت الٹ سکتی ہے