Islam Times:
2025-04-16@22:51:25 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

شام میں داعش کا مایوس کن مستقبل

اسلام ٹائمز: اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔ تجزیہ و تحلیل: ڈاکٹر امین پرتو

بہت سے ممالک کو خدشہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام جو ماضی میں داعشی ہی تھے کے شام پر مسلط ہونیکے بعد، اب بھی داعش کی باقیات کے لئے ممکن ہے کہ دوبارہ دولت اسلامیہ یا خلافت کو قائم کرنیکی کوشش کرینگے۔ بالخصوص جب کرد ملیشا اپنے علاقوں میں داعشی دہشت گردوں سے نبردآزما ہے اور جولانی کے زیر اثر شام کی فورسز لبنان کی سرحد پر مصروف ہیں اور ان کی ترجیحات میں شام میں موجود داعش کے جنگجووں سے لڑنا ابھی شامل نہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ جولانی داعشی عناصر کے لئے نرمی برت رہے ہیں۔ ہر صورت میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ شام میں طاقت کا خلا اب بھی باقی ہے۔ اب خدشہ یہ پایا جا رہا ہے کہ داعش اس طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے۔

داعش نے بشار الاسد کی معزولی کے بعد شام میں فوج کے چھوڑے ہوئے فوجی اڈوں تک بھی رسائی حاصل کر لی ہے اور فوج کے ہتھیاروں کے ڈپووں پر قبضے کے علاوہ نئے اور بڑی مقدار میں جدید ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے۔ اب ان کے لئے فرات کے مغرب میں زیادہ اور آسان نقل و حرکت ہے، خاص طور پر شام کے صحرا میں، اور کردوں اور ترک فوج کے درمیان لڑائی نے فرات کے مشرق میں ان کی کارروائیوں کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کر دیا ہے۔ تاہم، یہ کہنا ضروری ہے کہ داعش کی دستے ان کے کمانڈر کئی وجوہات کی بناء پر اداس اور مایوسی کا شکار ہیں اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ بشار الاسد کی معزولی کے بعد اپنی کارروائیوں اور طاقت کو بڑھانے کے لیے استعمال کر پائیں گے۔

داعش کی مایوسی کے اسباب:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ داعش نے شام کی بعثی حکومت اور اہل سنت آبادی کے درمیان اختلاف اور دوری کو اپنے لئے قابل اطمینان سمجھا اور دعویٰ کیا کہ وہ واحد قوت ہے جو شام میں سنیوں کے دشمنوں سے لڑتی رہی ہے اور ادلب میں نہیں جا چھپی۔ بعث حکومت یعنی بشار الاسد اور شامی اہل سنت کے درمیان دوری ہی سنی نوجوانوں کی داعش میں شمولیت کی بڑی وجہ تھی، یہی باعث رہا کہ داعش بہت زیادہ جانی نقصانات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اب جبکہ اہل سنت شام میں تبدیلی کے بعد خاموش ہو گئے ہیں تو داعش کے لئے شام میں پنپنے کا امکان نہیں بچا، داعش کے حریفوں نے اسد کا تختہ الٹ دیا، اور داعش اب ان کیخلاف کھڑا ہونے کے قابل نہیں، نہ ہی کوئی طاقت کا خلا باقی ہے، جسے داعش پر سکے۔

دوم یہ کہ شام میں غربت اور فقر کیوجہ سے نوجوان داعش بھرتی ہو رہے تھے۔ غربت، بے روزگاری اور افلاس میں لوگوں کے پاس پیٹ پالنے کے لئے ایک آپشن داعش میں مل جانا تھا کہ کم از کم بھوک سے بچ سکیں اور زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ امکان آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ شام کی نئی حکومت کے لیے غیر ملکی امداد میں اضافے، خانہ جنگی کے خاتمے، پناہ گزینوں کی واپسی، اقتصادی پابندیوں کے ممکنہ خاتمے اور بعثی دور کے سخت گیر سیاسی نظام کے بعد شام کی اقتصادی صورت حال میں بہتری آئے گی۔ نتیجتاً، داعش کی بھرتی کی سماجی اور اقتصادی بنیاد بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔

تیسری وجہ یہ کہ داعشی عناصر اپنے جیسے ہی ایسے متبادل کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے مقابلے میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ شامی عوام ابوبکر البغدادی کی خلافت، اس کی افتاد پسندی، اور داعش کے وحشیانہ تشدد جیسے خیالات کو بالکل قبول نہیں کر رہے ہیں، جس میں انفرادی اور سماجی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شام کی نئی حکومت نے بظاہر یہ کر دکھایا ہے کہ وہ داعش کی طرح نہیں ہے اور یقیناً یہ اس حکومت کے لیے خوش آئند بھی ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، داعش، جو ماضی میں سنیوں کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، اب خود کو ایسی صورت حال اور مخمصے سے گزر رہی ہے کہ کس طرح انہیں شامی سنیوں کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ، جب کہ جولانی حکومت کی اپنی سیاسی روش سے عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے (حالانکہ ان کے لئے اب بھی بہت زیادہ احتیاط اور شک باقی ہے)، داعش کے پاس بیانیہ اور نظریاتی سطح پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

چوتھا یہ ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو دبانے کے لیے اسد سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالے گی۔ شام کی پچھلی حکومت اصولی طور پر ملک کے بڑے حصوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں تھی، لیکن نئی حکومت بتدریج تمام علاقوں پر عملداری حاصل کر رہی ہے (سوائے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے)۔ ایسا لگتا ہے کہ شام کی نئی حکومت داعش کو مزید سختی سے دبا کر عالمی رائے عامہ اور مغربی حکومتوں کے لیے زیادہ قابل قبول ماحول فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پانچویں وجہ یہ ہے کہ شام میں مسلسل عدم تحفظ، تنازعات اور خانہ جنگی کی وہ فضا جو داعش میں شمولیت، ان کی نقل و حرکت اور دیگر مسلح گروہوں کی طرح داعش کے گروہ میں شمولیت کی بنیاد فراہم کرتی تھی، ختم ہو چکی ہے۔ نئی رجیم کی طرف سے مختلف گروہوں کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے اور انہیں شامی فوج میں ضم کرنے سے داعش کو شام کے غیر مستحکم ماحول سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ داعش کے بہت سے سابق عناصر نے اب شام کی نئی حکومت میں اپنے رویے، سیاسی طرز عمل اور انداز کار میں تبدیلی کے ساتھ عہدے حاصل کر لیے ہیں، وہ آہستہ آہستہ داعش سے الگ ہو جائیں گے اور معمول کی زندگی اختیار کریں گے، یہ شام میں داعش کی صورتحال کو مزید نازک بنا دے گا اور اس گروپ کو مزید کمزور کر دے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شام کی نئی حکومت بشار الاسد ہے کہ داعش ہے کہ شام نہیں ہے داعش کی داعش کے کو مزید میں کا رہی ہے کے لیے کے لئے ہے اور اور ان کے بعد

پڑھیں:

پاک چین تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، سی پیک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے، چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ

پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات درست سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سی پیک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔

زراعت میں استعداد کار بڑھانے کے لیے 1000 فارغ التحصیل طلبا کو اعلیٰ تربیت کے لیے اسکالرشپ پر چین بھیجنے کے منصوبے میں 300 طلبا کی چین روانگی کے پہلے مرحلے کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد چین کا کامیاب دورہ کیا، جہاں ان کی صدر شی جن پنگ سے اہم ملاقات ہوئی۔

سفیر کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر جامع بات چیت ہوئی اور مختلف امور پر اتفاقِ رائے پایا گیا۔ چینی صدر شی جن پنگ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو ہمیشہ خاص اہمیت دیتے ہیں، اور انہوں نے 2013 میں ہمسایہ ممالک سے سفارتی پالیسی کا بنیادی اصول پیش کیا تھا جس کا مقصد خطے میں دوستانہ اور شراکت دارانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

مزید پڑھیں: چین کا امریکی بوئنگ طیاروں کی خریداری پر پابندی کا اعلان

چینی سفیر نے کہا کہ چین خوشگوار، محفوظ اور خوشحال ہمسائیگی، دوستی اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں بھرپور حمایت جاری رکھے گا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر بہتر مستقبل کی تشکیل چاہتا ہے۔

چینی سفیر نے سی پیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا ایک ابتدائی اور اہم منصوبہ ہے، جس کے تحت اب تک 25.4 ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک نہ صرف پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا کر رہا ہے بلکہ دونوں ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں کو بھی قریب لا رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو پاکستان کی ترقیاتی منصوبہ بندی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے چین تیار ہے اور پاکستان کی معیشت و سماجی ترقی میں تعاون کے لیے چین ہمیشہ پُرعزم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان جیانگ ژی ڈونگ چینی سفیر چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ زراعت شہباز شریف شی جن پنگ

متعلقہ مضامین

  • بے روزگار ہونے کا خدشہ ، سرکاری ملازمین کے لئے بری خبر
  • بے روزگار ہونے کا خدشہ ، سرکاری ملازمین کے لئے بڑی خبر
  • روڈن انکلیو کا فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ
  • مٹھی بھر دہشتگرد پاکستان کو روشن مستقبل کی جانب بڑھنے سے نہیں روک سکتے : آرمی چیف
  • مستقبل میں عالمگیر وبائوں سے نمٹنے کا معاہدہ طے پا گیا ، عالمی ادارہ صحت
  • پاک چین تعلقات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، سی پیک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے، چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ
  • ملٹری ٹرائل کیس کے مستقبل کیلئے گہرے اثرات ہونگے : بغیر ایف آئی آر گرفتاری نہیں ہوسکتی ِ مجسٹریٹ کے آرڈر پر ہی حراست میں رکھنا ممکن : جسٹس جمال
  • ’آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟‘ امریکی وفد کی آرمی چیف کی ملاقات پر پی ٹی آئی کے حامی مایوس
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟