کسی نئی سیاسی تحریک کی کامیابی، امکانات کتنے
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
وطن عزیز میں گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں بہت سے سیاسی تحریکیں چلائی گئیں، مگر شاید ہی کوئی تحریک اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہو۔ ہر بڑی سیاسی جماعت نے یہ شوق پورا کرکے دیکھ لیامگر کوئی بھی سرخروئی کی منزل کو چھو نہیں سکا۔
صرف ایک تحریک جسے ہم کامیاب قرار دے سکتے ہیں وہ 1969 میں اس وقت کے حکمراں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک تھی جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے۔اُس وقت حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ یہ تحریک کامیاب تو ضرور ہوئی لیکن اس نے ایک نئے مارشل لاء کو جنم دے دیا۔بالکل اُسی طرح خود ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 میں چلائی جانے والی تحریک کو بھی ہم کامیاب تو قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں بھی ایک نیا مارشل لاء معرض وجود میں آگیا جس نے ایک دو سال نہیں بلکہ گیارہ سال گزار دیے۔وہ دن ہے اورآج کا دن ہمارے یہاں کوئی بھی سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی۔
آج کل پاکستان تحریک انصاف تحریک چلانے کی کوششیں کررہی ہے۔2022سے جب سے وہ حکومت سے محروم ہوئی ہے اس نے ایک دن بھی چین سے نہیں گزارا۔اس سے پہلے اُن کے اپنے دور حکومت میں اُس کے مخالف بھی یہ کوششیں کرتے رہے ،بہت سے لانگ مارچ بھی ہوئے اوراسلام آباد کے ڈی چوک کو اپنا ٹارگٹ بھی بنایا جاتارہا لیکن کسی کا مقصد پورا نہیں ہوا۔
بانی تحریک انصاف اگر اقتدار سے بیدخل ہوئے تو وہ بھی کسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ سے۔یوں یہ ثابت ہوا کہ احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں کبھی بھی کوئی حکومت ہٹائی نہیں جاسکی،اگر ہٹائی بھی گئی تو نتائج وہ حاصل نہ ہوئے جن کے لیے یہ تحریک شروع کی گئی ۔کسی اور طالع آزما نے اس لڑائی میں فائدہ اُٹھا لیا۔یہ صرف ہم اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی دیکھتے ہیں۔
2011 میں ایک اور اسلامی ملک مصر میں بھی عوام نے اس وقت کے حکمراں حسنی مبارک کے خلاف ایک بھر پور تحریک شروع کی اورکئی دنوں تک قاہرہ کے تحریر اسکوائرپر دھرنا بھی دے ڈالا، مگر نتیجہ وہی ہوا جس طرح ہمارے یہاں ہوتاآیاہے یعنی ایک اور فوجی حکمران ۔صرف حکمران کا چہرہ بدلا ہے نظام نہیں بدلا۔نظام وہی باقی رہااورعوام کے حقوق ویسے ہی سلب رہے۔ محمد مرسی جمہوریت کے تحت کامیاب تو ضرور قرار پائے لیکن اُنہیں چلنے نہیں دیا گیا،آج وہاں ایک بار پھر دوسرا حسنی مبارک تخت نشین ہے۔
ہمارے یہاں بھی ابھی تک تو ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ تحریک چلانے والوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ مزے اورحکمرانی کوئی اور لے گیا۔دوسری جانب ہم اگر سیاسی اوراحتجاجی تحریکوں کی ناکامیوں کا جائزہ لیں تو پتا یہ چلتا ہے کہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ہم اورہماری قوم اب ایک قوم رہی ہی نہیں ، وہ مختلف ٹکروں اورطبقوں میں بٹ چکی ہے۔
سیاسی ، لسانی اورفروعی اختلاف نے اُسے ایک قوم رہنے ہی نہیں دیا۔ بھٹو دور تک ہم شاید ایک قوم کہلانے کا درجہ رکھتے تھے لیکن پھر یہ ساری قوم اپنے اپنے سیاسی تعلق اورپسندیدگی کی وجہ سے مذہبی فرقوں میںبٹ چکی ہے ۔اب یہاں کوئی بھی تحریک اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قوم کسی بھی معاملے میں متحد اورہم خیال ہوہی نہیں پارہی۔پہلے ہمارے درمیان اتحاد اور یکجہتی ہواکرتی تھی اورساری قوم ایک مقصد کے لیے متحد اورمتفق ہوجایا کرتی تھی۔ اب ہم سیاسی ، لسانی اورمذہبی فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔
کوئی شخص دوسرے کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں ہے، جن ملکوں میں ایک قوم بستی ہے وہاں ایسی صورتحال ہرگز نہیں ہے۔ بنگلادیش میں صرف ایک بنگالی قوم ہی بستی ہے ، تبھی وہا ں گزشتہ سال چلنے والی تحریک نے حسینہ واجد کی حکومت چند ہی مہینوں میں معزول کرکے رکھدی ۔جب کہ ہمارے یہا ں ایک قوم نہیں بلکہ چارچار یا اس سے بھی زیادہ قومیں بستی ہیں۔
سب کے اپنے اپنے نظریات اورمقاصد یامفادات ہیں۔ کوئی کسی اور کے لیے وقت اورساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ ہم سب کسی بھی تحریک کاساتھ نبھانے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ تحریک کا روح رواں کون ہے اور اس سے ہمیں کیا ملے گا۔بحیثیت مجموعی ہم مفاد پرست ہوچکے ہیں۔ ہمیں ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیزہوچکے ہیں۔ قوم اب کسی اورکو حکمران بنانے کے لیے اپناکندھا فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
بھٹو صاحب اور بانی تحریک انصاف کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ بھٹو صاحب اس ملک کے غریبوں کی آواز بن کر ابھرے تھے ۔اُن کے جلسوں اور جلوسوں میں کثیر تعداداس ملک کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہواکرتی تھی ،جب کہ بانی تحریک انصاف کے جلسوں میں ہم امیر ، فیشن ایبل اورمراعات یافتہ طبقے کو دیکھتے ہیں۔ جو اُن کے جلسوں میںشرکت کسی نوبل کاز کے لیے نہیں کرتے بلکہ ایک تفریح اور ہلہ گلہ مچانے کی غرض سے کیاکرتے ہیں۔
جلسوں میں میوزک اورگانے بجانے کارواج بھی اُنہی کے دورسے شروع ہوا۔ اس سے پہلے ہم سیاسی جلسوں میں یہ سب کچھ دیکھا نہیں کرتے تھے۔ عوام اب کسی اچھے مقصد کے لیے نہیں بلکہ سیاسی اجتماع کو ایک شاندار میوزیکل کنسرٹ سمجھ کر اس میں شرکت کیاکرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی دیکھا دیکھی اب دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی یہی طرز اپنالیا ہے۔ بانی تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہواکرتی ہے اورہم اُن سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کسی احتجاجی تحریک کاحصہ بن کر آنسوگیس اورلاٹھی چارج کاسامنا کرپائیںگی۔
جان کانذرانہ اورآسودگی کی زندگی چھوڑناہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور وہ بھی ایسے دنوں میں جب ملک پہلے کی نسبت بہتری کی جانب چل پڑا ہو۔حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہوں۔ مہنگائی کا جن قابو ہونے لگا ہو۔ترقی و خوشحالی نظر آنے لگی ہو۔ایسے میں بھلا ملک کو عدم استحکام کاشکار کیونکر کیاجائے۔ہاں !اگر حکومت عوام کی بھلائی کی بجائے اُن پرمزید بوجھ ڈال رہی ہوتی تو بلاشبہ عوام اپنے گھروں سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوتے۔ خدا کاشکر ہے اب حالات ایسے نہیں ہیں۔ عوام کو اچھے کی اُمید بن چکی ہے۔ وہ کسی افراتفری پیدا کرنے کے لیے اب گھروں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، لہٰذا کسی نئی سیاسی تحریک کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ہمارے ملک میں 2014 ء کے سیاسی دھرنے کے پیچھے جن طاقتور حلقوں کا ہاتھ تھا وہ ہاتھ اب نہیںرہا۔جس امپائر کی انگلی کے اُٹھ جانے کی اُمید تھی وہ امپائر بھی اب بدل چکا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف سیاسی تحریک نہیں بلکہ تحریک کا کے جلسوں ایک قوم کو تیار کے لیے
پڑھیں:
حقوق کے حصول کی تحریک میں آخر تک کھڑے رہینگے، علامہ علی حسنین
مستونگ میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ علی حسنین حسینی نے کہا کہ بلوچستان قوم کے بعد، بیس سالوں تک ہزارہ قوم دہشتگردی کا شکار رہی۔ جب تک ہم اکھٹے ہوکر جدوجہد نہیں کرتے، بلوچستان کے عوام کا استحصال کیا جائیگا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی رہنماء علامہ علی حسنین حسینی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام کا ماضی میں استحصال کیا گیا، جو ابھی تک جاری ہے۔ صوبے میں بلوچ اور ہزارہ قوم کا قتل عام کیا گیا۔ ہمیں مل کر مظلوموں کی تحریک کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے ذریعے ہمارے اوپر پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا، جن کا بلوچستان کے عوام کے دکھ درد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرنے والے افراد کو امن خراب کرنے والے کہا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی آواز ملک کے دیگر صوبوں اور اقوام تک پہنچانی ہوگی۔ اپنی مظلومیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں بی این پی کی جانب سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ علی حسنین حسینی نے کہا کہ جب ہم پاکستان بلخصوص بلوچستان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو یہاں کے لوگ ہمیشہ مظلوم رہے ہیں۔ پچتر سالوں سے بلوچستان کا استحصال کیا گیا، جو آج تک جاری ہے۔ جب بنیادی حقوق سے عوام کو محروم رکھا جائیگا تو لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حقوق کی پامالی کے بعد احتجاج کرنے والوں کو امن خراب کرنے والے کہہ کر پکارا گیا۔ شرمندگی کا مقام ہے کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں ایسے لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا۔ عوامی مینڈیٹ رکھنے والوں کو یکطرف کر دیا گیا، جبکہ ایسے لوگ مسلط کر دیئے گئے، جنہیں بلوچستان کے عوام کے درد و دکھ کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ایم ڈبلیو ایم رہنماء نے اے پی سی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے قائد سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ثابت کیا کہ ہم ذاتی مفادات کی خاطر کسی کا ساتھ نہیں دیتے، حقوق کے حصول کی تحریک میں آخر تک کھڑے رہیں گے۔ ماضی میں ہمیں تقسیم کرتے ہوئے ہم پر حکومت کی کوشش کی گئی۔ ہمیں مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ماضی میں بلوچوں کا قتل عام کیا گیا۔ بیس سالوں تک ہزارہ قوم دہشتگردی کا شکار رہی۔ جب تک ہم اکھٹے ہوکر جدوجہد نہیں کرتے، بلوچستان کے عوام کا استحصال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سیاسی عمائدین کی جانب سے بھی بلوچستان کی آواز کو صوبے سے باہر پہنچانے میں کوتاہی دیکھی گئی۔ دیگر صوبوں میں رہنے والے اقوام کو بلوچستان کی صورتحال سے متعلق آگہی ہونی چاہئے۔ ہمیں اپنی مظلومیت دیگر پاکستانیوں تک پہنچای چاہئے۔