کیسی آزادی، کیسا جشن، کیسی خوشی؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
یہ تو معلوم نہیں کہ کہاں تھی لیکن ایک مملکت ناپرسان تھی جو بدنام تھی اوراس سے زیادہ حیران وپریشان تھی کیوں کہ اس پر دوردراز سے آئی ہوئی ایک غیر قوم حکمران تھی،یہ غیر قوم حد سے زیادہ عیارتھی، مکارتھی اوربے مہار تھی، دنیا بھر کی چالباز، نوسرباز اوردھوکہ باز تھی۔چہرے ان کے سفید ہوتے تھے لیکن اس سفید چہرے اورچمڑے کے نیچے سو بھید ہوتے، چھید ہوتے تھے ، چونکہ ان کی آنکھیں طوطا رنگ ہوتی تھیں۔
اس لیے طوطا چشم بھی ہوتے تھے ، اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے ان کا صرف ایک فرد آیا، جس نے یہاں کے بادشاہ کی بیوی کا علاج کیا پھر اس علاج کو انلارج کیا اور بدلے میں خودکو ایک کوٹھی کا محتاج کیا یعنی جب بادشاہ نے کہا، مانگ کیامانگتا ہے تو اس نے نہ مال مانگا نہ منال، نہ موتی، نہ لال مانگا صرف ایک کوٹھی مانگی۔لیکن وہ ایک کوٹھی کہاں تھی وہ تو ایک بلائے جہاں تھی فریب جہاں تھی، کارخانہ شیطان تھی کیوں کہ کوٹھی بڑھنے لگی، چڑھنے لگی، پھیلنے لگی اورطرح طرح کے کھیل کھیلنے لگی۔
کوٹھی سے آشیانہ بنی، آشیانے سے تجارت خانہ بنی اورتجارت خانے سے سازش خانہ بنی، اس تاجر خانے سے آشیانے بننے لگے،افسانے بننے لگے اورخزانے بننے لگے اور پھر وہاں ایک تجارتی کمپنی نے جنم لیا اورپھر جنم جنما تر کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا، آہستہ آہستہ کمپنی قدم بڑھاتی رہی، جال بچھاتی رہی یہاں تک کہ پورا ملک اس جال میں پھنستا رہا ، دھنستا رہا اور پھر پورے کا پورا پھنس گیا، دھنس گیا، غلام ہوا، زیردام ہوا، بد سے بدنام ہوا ہرلحاظ سے گمنام ہوا، ناکام ہوا اور یہ قوم مٹھی بھر ہوکر بھی حکمران بن گئی ، روح رواں بن گئی، بدمعاش جہاں بن گئی ۔
دراصل قدیم زمانوں سے یہ ملک ان کی نظر میں تھا کہ اس سونے کی چڑیا کو شکار کریں گے، گرفتار کریں گے اورزیراقتدار واختیار کریں گے اوراس میں کامیاب ہوئے، فتح یاب ہوئے، سیراب ہوئے، بس پھر کیا تھا جت گئے ،اس ملک کو لوٹنے اورنوچنے کھسوٹنے، وہ سونے کے انڈے دیتی رہی اور یہ لوگ ہڑپ کرتے رہے بلکہ ان انڈوں کو اپنی مرغیوں کے نیچے رکھ کر چوزے بھی نکالنے لگے اوروہ چوزے بھی بڑے ہوکر انڈے دینے لگے اوران کے لیے دولت اورطاقت کے سرچشمے دینے لگے ۔
کافی عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا،ساری رہا ،طاری رہا یہاں سے دولت وہاں سے جاتی رہی اوراس قوم کے ملک کو نہلاتی رہی یہاں تک کہ جوملک مقروض تھا منحوس تھا وہاں یہ حالت ہوگی کہ کوئی قرض لینے والا نہیں رہا، بھیک مانگنے والا نہیں رہا، بھوکا سونے والا نہیں رہا کہ سونے کی چڑیا نے اسے مالامال کردیاتھا، نہال کردیا تھا، بے مثال کردیا تھا۔
اوراس ملک کے اپنے باشندے بلبلاتے رہے کہ جو کچھ وہ کماتے تھے، وہ یہ لوگ لے جاتے تھے، کھاتے تھے پیتے تھے اورجیتے تھے۔ پھر ان سفید جسموں اورسبز چشموں نے ایسا دام پھیلایا، برسرعام پھیلایا اور بذریعہ عوام پھیلایا کہ خود اس ملک کے لوگ خود اپنے آپ کو اپنے ملک کو لوٹنے میں ان کے مددگار بن گئے،اطاعت گزار بن گئے اور سہولت کار بن گئے اورغلامی پر فخر کرنے لگے ۔
بالاخر اس ملک کے عوام کالانعام کو،صاحبان تفہیم وافہام کو احساس ہوا کہ یہ سفید جسم اورسبز چشم تو سارا ملک لوٹ کرلے جائیں گے، ہمیں بھوکا بنائیں گے اوربھیک کاکٹورادے کر بہکائیں گے چنانچہ آزادی کی تحریک چل پڑی ،آوازیں بلند ہوئیں، نعرے لگ گئے ،ان لوٹ ماروں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ تو قابو سے باہرہورہے ہیں، ماہرہورہے ہیں اورظاہرہورہے ہیں تو ان کے شیطانی دماغ میں ایک خیال آیا، جال آیا، جنجال آیا، اس خیال اس جال اوراس جنجال کا نام تھا ۔ ڈیوائڈ اینڈ رول ۔
عوام ہی میں اپنے تابعدار خدمت گار پیداکیے گئے جو عوام میں طرح طرح کے فتنے جگانے لگے، لوگوں کوآپس میں لڑانے لگے، بہکانے لگے اور بھٹکانے لگے لیکن پھر بھی تحریک چلتی رہی ،پھولتی رہی، پھیلتی رہی اورسفید جسموں اورسبزچشموں کے سینے پر مونگ دلنے لگی تو انھوں نے اپنے نمک خواروں ، کفن برداروں کو نام کے سرداروں کو اشارہ کیاکہ گھس جاؤ۔ اوروہ گھس گئے ، آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے ، بظاہر آزادی کی طرف مائل ہوگئے اوردکھاوے کے قائل ہوگئے جب تک تحریک والوں کو پتہ چلتا یہ مورچوں میں بیٹھ چکے تھے۔
ہراول میں پہنچ چکے تھے اوراپنے چہروں پرمکاری کا نقاب کھینچ چکے تھے، آخرکارغیرملکی سفید چشم اورسبز جسم والے جب جانے پر مجبور ہوئے تو انھوں نے اپنے چمڑے کاسفید رنگ ان کے خون اورآنکھوں کاسبز رنگ ان کے قدموں میں منتقل کیا اوربظاہر چلے گئے لیکن حقیقت میں کہیں بھی نہیں گئے تھے بلکہ اپنے نمک خواروں میں اندر گھس کر چھپ کر اورنادیدہ ہوکر بیٹھ گئے ۔ملک کے عوام خوش تھے، سرشار تھے ،شکر گزار تھے کہ ہم نے ظالم جابر اورباہر کے لوگوں کو بھگادیا ، اٹھادیا لیکن نہیں جانتے تھے کہ ان کاسفید رنگ ان کے خون میں کتنا گہرا اترچکا ہے ، ویمپائروں نے مقامی ویمپائروں کو جنم دیا تھا ۔
خدا کے سادہ دل بندے تو خوشیاں منارہے تھے، بھنگڑے ڈال رہے تھے اورآزادی کے جشن منارہے تھے لیکن وہ جاتے جاتے ان کو اپنے غلاموں کے غلام بناگئے ۔ایک جگہ آزادی کی خوشی میں چند لوگ بیٹھے جشن منا رہے تھے کہ ظالم چلے گئے، اب ہم ہوں گے اورہمارا ملک اوراس کے وسائل، کہ وہی کوتوال انھی سپاہیوں کے ساتھ وہی ڈنڈا ہلاتا ہوا وہی مونچھیں لہراتا ہوا اور وہی گالیاں بکتا ہوا اور ان کو دوچار ڈنڈے برائے ثواب رسید کرتے ہوئے بولا ، جلدی سے جاؤ گھروں میں جو کچھ ہے لاؤ تاکہ ہم خزانے میں جمع کریں ۔ ان لوگوں نے کہا یہ کیاظلم ہے جب غیروں کی حکومت تھی توہم اپنی آدھی کمائی دیتے تھے اوراب جب اپنی حکومت ہے تم کہتے ہو کہ پوری کمائی لاؤ ۔
کوتوال بولا، ہاں اب اپنی آزاد قومی حکومت ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ لاؤ۔ حکومت کو دو اورحب الوطنی دکھاؤ قومی تعمیر وترقی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لو۔ان لوگوں نے کچھ پس وپیش کیا توکوتوال نے ان کو ڈنڈے پر رکھ دیا پہلے اسے خوب کوٹا اورپھر جی بھرکر لوٹا، نوچا کھسوٹا اورحوالات میں ڈال کر تفتیش جاری کردی لیکن دوسری طرف کچھ لوگ ہشیار بھی تھے ،سمجھ دار بھی تھے اورخبردار بھی تھے اوراس جشن اورہلاگلا سے بیزار بھی تھے کیوں کہ وہ جانتے پہچانتے تھے اورمانتے تھے کہ حکومت کبھی نہیں بدلتی، صرف نام بدل جاتے ہیں چہرے اور فام بدل جاتے ہیں، زنجیریں اوردانہ ودام بدل جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ دیواستبداد جمہوری قبا پہن کر نیلم پری بن جاتا ہے ۔
ایسا ہی ایک سمجھ دار ہوشیار خبردار کاشتکار کھیت میں ہل چلارہاتھا ایک راستہ گزرنے والے شخص نے آواز دی ارے احمق تم آج بھی ہل چلارہے ہو۔
کاشتکار نے پوچھا کیوں آج کیا ہوا ہے ؟ اس شخص نے کہا آج یوم آزادی ہے، شہر میں جشن ہے آؤ ہم تم بھی شامل ہوجائیں ، کاشتکار نے بیلوں کو ٹخ ٹخ کرکے روکا ۔
کیسی آزادی ؟ دوسرا بولا ،وہ منحوس سفید جسم اورسبز چشم چلے گئے ہیں ۔ کاشتکار بولا اچھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے لیکن یہ بتاؤ کہ کوتوال، پٹواری اورنمبردار کو بھی ساتھ لے گئے نا؟
دوسرے نے کہا ، نہیں ان کو تو یہاں چھوڑگئے ۔ کاشتکار واپس اپنے ہل کے پاس آتے ہوئے بولا، تو پھر کیسی آزادی، کیسی خوشی ،کیسا جشن؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا زادی کی سے زیادہ لگے اور رہے تھے بھی تھے تھے کہ نے کہا ملک کے اس ملک
پڑھیں:
پیپلز پارٹی جائز بات کرتی ہے تو ن لیگ کے خلاف کیسی ہوئی؟ شازیہ مری
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری—فائل فوٹوپیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ فیصلے لیتے ہوئے اگر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا تو تشویش ہوتی ہے۔
’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شازیہ مری نے کہا کہ ن لیگ کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہو گی، ہم کہتے ہیں کہ ن لیگ فیصلے مشاورت سے کرے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال ہو چکا اور سی سی آئی کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی، پیپلز پارٹی جائز بات کرتی ہے تو ن لیگ کے خلاف کیسی ہوئی؟
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ آئینی وفاقی عدالت کا قیام ضروری ہے، آئینی ترامیم پر پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ ملک کی خاطر ہم نے ن لیگ کو سپورٹ کیا، ہماری اور کوئی مجبوری نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ معاملات کو اس نہج پر لے آتی ہے تو ہم رد عمل دیتے ہیں۔