انسان خود کو نہ بدلے تو حالات اُسے بدل کر رکھ دیتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
تعارف:
حسن رضا، ایچ آر ماہر اور ایک ٹیک کمپنی کے سی ای او ہیں۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر میں مختلف اداروں کے ساتھ و ابستہ رہے۔ کنسلٹنسی کے مختلف پروجیکٹس بھی کیے۔ کم و بیش دو عشروں تک مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اپنی کمپنی قائم کی۔
سوال: ایچ آر کا بنیاد ی کام کیا ہے۔
جواب: ایچ آر کسی بھی ادارے کا ایک شعبہ ہوتا ہے جو ملازمین کے مختلف معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس میں ملازمین کی بھرتی، تربیت ، انتظامیہ کے ساتھ تعلقات ، متعلقہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کروانا ایچ آر کی ذمہ داری ہے۔
سوال: ٹیک ایچ آر(Tech HR) کی اصطلاح سے کیا مراد ہے؟
جواب: ٹیک انڈسڑی میں ایچ آر سے مراد ہیومن ریسورس کے مختلف کاموں کو ڈیجیٹل ٹولز، سافٹ وئیرز اور آرٹیفیشل اینٹلی جنس کے ذریعے سے کرنا ہے۔ اس میں ملازمین کی کارکردگی، جاب پر رہنے والا عرصہ، آن لائن ٹریننگز، ریموٹ ورکنگ، کام کی جگہ کا کلچر، ٹیکس کٹوتی، کارکردگی کی ٹریکنگ، ملازمین کے ساتھ سیشنز اور اس نوعیت کی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔
سوال: پاکستان میں ایچ آر کا سکوپ کیا ہے؟
جواب: بدلتے رجحانات کے ساتھ پاکستان میں بھی کاروباری دنیا میں نت نئے آئیڈیاز اور رجحانات کو اپنایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ، پاکستا ن میں کاروباری اداروں میں ایچ آر کا تصور نہیں تھا۔گلوبلائزیشن کے بعد اور انٹرنیٹ کے عام ہوجانے سے یہاں ایچ آر کا تصور آیا۔ اب پاکستان کی تمام بڑ ی کمپنیوں، کاروباری اداروں میں ایچ آر کی موجودگی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ بالخصوص آئی ٹی انڈسٹر ی کی ترقی کے بعد ایچ آر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر، بینکنگ، آئی ٹی، ہیلتھ اور ایجوکیشن میں اس کا رول بڑھ گیا ہے۔
سوال: آپ زندگی کا ایک طویل عرصہ کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت کرتے رہے ، پھر آپ نے اپنی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کیسے کر لیا؟
جواب: یہ اچھا سوال ہے۔ جب آپ ملازمت کر رہے ہوتے ہیں تو آپ بنیادی اخراجات پورے کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک لگی بندھی تنخواہ ہر ماہ مل جاتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ میری بنیادی ضروریا ت پوری ہو رہی ہیں۔ تو سلسلہ چل رہا ہے تو چلتے رہنے دیں۔ لیکن میرے والد مجھے کہا کرتے تھے کہ تم کوئی اپنا کام کرو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ میں کہا کرتا تھا تنخواہ مل رہی ہے، زندگی سکون سے چل رہی ہے۔ تو رہنے دیں ٹھیک ہے۔ مگر وہ کہتے تھے کہ نہیں تم کوئی اپنا کام شروع کرو۔ وہ کیونکہ انگلینڈ میں رہتے تھے تو جب بھی پاکستان آتے تو ہماری اسی موضوع پر بات چیت ہوتی تھی۔ ملازمت پیشہ آدمی رِسک لینے سے گھبراتا ہے۔ سوچ وہی فکس سیلری والی رہتی ہے۔ لیکن جب آپ Owner بنتے ہیں تو پھر آپ کا ڈر اور خوف ختم ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ ، اپنے آپ کو بطور لیڈر اوپر لے کر جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بات بتا تا ہوں ، جس سے میں گروسری وغیرہ لیتا تھا ، تو ادھار وغیرہ چلتاہے۔ کچھ ایسے معاملات ہوئے کہ تنخواہ لیٹ ہو گئی۔ راشن والے کو کچھ پیسے دینے تھے تو اس نے بہت شور مچایا۔ آپ پیسے نہیں دے رہے ، تو میرے ذہن میں میرے والد کا جملہ آیا کہ اگر تم بزنس نہیں کرنا چاہتے تو ٹھیک ہے مگر تمہار ا کوئی اور بھی ذریعہ آمدن ہونا چاہیے۔ تو مجھے خیال آیا کہ اگر چالیس پچاس ہزار روپیہ میں اپنی مہارت سے کما سکتا ہوں تو کیوں نہ کمایا جائے۔ تو پھر میں نے جاب کے ساتھ ساتھ کوئی کنسلٹنسی آ جانی تو وہ کر دینی، مختصر دورانیے کا کوئی کام کر دینا تو اس طرح میرا آمدنی کا ذریعہ بنتا گیا۔
جب میں نے دیکھا کہ میرا بیک اپ آہستہ آہستہ مضبوط ہو رہا ہے تومیں نے سوچا کہ مجھے اس طرف آنا چاہیے۔ دو ہزار بیس میں جب کووڈ تھا تو اس وقت مجھے ٹیک انڈسٹری میں آنے کا موقع ملا۔ اس وقت پاکستان میں ٹیک اور فارماسویٹیکل دو ہی سیکٹر بڑھوتری کی جانب گامزن تھے۔ ٹیک سٹارٹ اپس کے ساتھ کنسٹلنٹی شروع کر دی، اس طرح میرا اپنا کام شروع ہوا۔ تو میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ راشن والا مجھے نہ کہتا اور مجھے خیال نہ آتا تو شاید میری زندگی میں یہ ٹرننگ پوائنٹ نہ آتا۔اس کے علاو ہ قاسم علی شاہ بھی مجھے کہا کرتے تھے کہ اپنا کام شروع کرو، تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔
سوال: آپ کی کمپنی کی ڈ ومنز کیاہے وہ کس نوعیت کے کام کرتی ہے؟
جواب: میری کمپنی ٹیک بیسڈ ایچ آر کمپنی ہے۔ جس میں مختلف ٹیک کمپنیز کے ایچ آر کو ہم ہر ماہ اکٹھا کرتے ہیں۔ ہمارے ہر میٹ اَپ کے مختلف تھیمز ہوتے ہں۔ کارپوریٹ سیکٹر کے اکثر سیشنز ، بنیادی طور پر نیٹک ورکنگ سیشنز ہوتے ہیں، لیکن ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ علمی سیشنز ہوں اور نئے رجحانات اور موضوعات پر بات ہو۔ مثلاً گزشتہ ایک میٹ اَپ میں ہم نے ایک گلوبل ٹرینڈ تھا Open Salary Forum ، یعنی ہر ایک کو ہر کسی کی تنخواہ کا علم ہو، اس پر ہم نے بات چت کی۔ پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنا بڑا مشکل ہے۔ کچھ کلچر ل روایت ہے ، سماجی مسائل بھی ہیں۔ ہم نے Open Salary Forum پر بات چتہ کی۔ ہم نے ایچ آر کے بہترین آٹھ، دس ماہرین کو بلایا اور انہوں نے اس موضوع پر بات کی۔ ہم نے پھر Mentoring Reverse پر بات کی۔ یہ دور ایسا ہے کہ جس میں آپ اپنے سینئیرز سے تو سیکھتے ہی ہیں مگر اب آپ اپنے جونئیرز سے بھی سیکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم نے ایک نشست رکھی ، ایچ آر کے لو گوں کو بلایا اور اس پر بات چیت کی۔ ٹیکنا لوجی سے وابستہ نوجوان سیکھناچاہتے ہیں، وہ سینئیرز سے بھی سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ایکLearning Forum بنا دیا ہے۔ اب لو گ ادھر آتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں۔
سوال: اپنا کام شروع کرنے کا ابتدائی تجربہ کیسا رہا؟
جواب: آغاز میں تو کچھ مشکلات تھیں۔ کیونکہ میرے اہلِ خانہ بھی اس نئے تجربے سے کچھ مطمئن نہیں تھے۔ انہی دنوں ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک تصویر اور پوسٹ بہت وائرل ہوئی، جس میں ایک شخص نے خود کشی کر لی تھی۔ پوسٹ میں تھا کہ اس کی بیوی اسے کہتی تھی کہ جاؤ اور کما کر لاؤ اور مجھے نہیں پتہ کہ کس طرح کمانا ہے۔ اب پتہ نہیں اْ س شخص پر کتنا دباؤ اور حالات کاجبر ہو گا کہ اس نے یہ قدم اٹھایا۔ بعد میں اس شخص کی بیوی نے معافی بھی مانگی۔ مگر وہ شخص تو جان سے گیا۔ جتنے بھی نوجوان میرے پا س آتے ہیں یا وہ اپنا کام شروع کر رہے ہوتے ہیں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ آپ نے صبر سے کام لینا ہے، یہ مشکل وقت ہے ، گز ر جائے گا، اللہ پا ک اپنا رحم فرمائے گا اور آپ کو ضرور رزق دے گا۔ گھر والوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مدد کریں۔ میں خوش قسمت رہا کہ میرے گھروالوں نے اس معاملے میں میرے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ کیونکہ میرے والد نے انہیں بتایا ہوا تھا کہ آپ نے دو ، تین ماہ اس کو تنگ نہیں کرنا۔ میراپہلا ماہ مشکل گزرامگربعد میں پھر معاملات بہتر ہوتے چلے گئے۔
سوال: ہمارے ہاں ایک عمومی تاثر ہے کہ تنخواہ دار طبقہ بزنس کی جانب نہیں جاتا، کیونکہ بزنس کے لیے بہت زیادہ پیسہ درکا رہے مگر حالیہ عرصے میں ٹیک کمپنیز نے اس تاثر کی نفی کی ہے ، اب سرمائے سے زیادہ آئیڈیا یا مہارت کی اہمیت ہے ، آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: دیکھیں، اس معاملے کا تعلق سوچ سے ہے۔ سی ای او بننے سے پہلے ، سی ای او کی طرح سوچنا پڑتا ہے۔ تو جب آپ کی سوچ ہی سی ای او والی نہیں ہوگی تو پھر آپ سی ای او نہیں بن پائیں گے۔ بدقسمتی سے جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں یا پڑھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ تم نے نوکر ی ہی کرنی ہے۔ سی ای او نہیں بننا۔ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ ہمارا پڑھا ئی کا نظام اور گرومنگ نوکری کے لیے ہوتی ہے، بزنس کے لیے نہیں۔ میں اولڈ راوین ہوں، جب میں وہاں پڑھ رہا تھا تو کئی میرے ہم جماعت پولیس میں آنا چاہتے تھے اور کچھ وکالت کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے کیسز کے معاملات تھے۔ بعض اینکر بننا چاہتے تھے تو وہ بن گئے۔ کوئی اس وقت یہ نہیں کہتا تھا کہ میں نے اپنی کمپنی کھولنی ہے۔ میں ادھر چلا جاؤں ، اْدھر چلا جاؤں، اب وہ سارے ٹھیک ہیں۔ ایک تو یہ مائنڈسیٹ ہے۔ اب جوں جوں سوشل میڈیا پھیل رہا ہے، تو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔
سوال: ٹیک انڈسٹری میں کامیاب ہونے کے لیے کیا ضروری ہے؟
جواب: ٹیک میں کامیاب ہونے کے لیے ٹیکنالوجی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ کے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہونا ضروری ہے۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو کسی انویسٹر کو ڈھونڈیں۔ ہمارے ہاں کام کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ ایک بزنس مین ہے ، وہ آتا ہے، ایک ٹیم بناتا ہے اور اس سے کام کرواتا ہے۔ دوسرا ہوتا ہے فری لانسر ، فری لانسر کیا کرتا ہے ، وہ پروجیکٹ پکڑتا ہے، کام کرتا ہے ، پیسے کماتا ہے لیکن وہ ٹیم نہیں بناتا۔ اب تیسرا کیا ہے کہ ایک انویسڑ ہے، اس کا پیسہ ہے، وہ اچھے آئیڈیے کو پیسہ دینا چاہتا ہے، کوئی بھی فرد اچھے کاروباری آئیڈیا کیساتھ اس کے پاس جائے تو وہ انویسٹ کرتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ کام آپ کرو، میں اپنا مارجن لوں گا اور Partner Sleeping کے طور پر کام کروں گا۔
سوال: ایسے انویسٹرز کہاں ملتے ہیں؟
جواب: ایسے انویسٹرز پاکستان میں دستیاب ہیں لیکن انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے، ہمارے ہاں طلباء کیا کرتے ہیں کہ وہ نیٹ ورکنگ نہیں کرتے ، یونیورسٹی اور دیگر افراد کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ ہمیں سپورٹ نہیں کیا۔ اب نجی سیکٹر کی جامعات اس طرف آرہی ہیں۔ وہ طلباء کو انٹرپرینیورشپ کی طرف لے کر آرہے ہیں۔ وہ گالا اور اس نوعیت کی سرگرمیاں کرواتے ہیں تا کہ طلباء کو بتایا جا سکے کہ آپ نے اپنے آئیڈیا کو بیچنا کیسے ہے۔ اگر آپ پاکستان میں نہیں بیچ سکتے تو باہر بیچ دیں۔ میں جن سافٹ وئیر ہاؤسز کے ساتھ کام کر رہا ہوں انہوں نے ایک پروڈکٹ بنائی، پاکستان میں کسی نے اسے نہیں خریدا، انہوں نے باہر بیچ دی، اب ان کے پاس ڈالرز میں پیسے آرہے ہیں۔ پھر اس میں ایک اور پہلو بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ خالی اچھا آئیڈیا کافی نہیں ہے، اس کو پیش کرنا بھی آنا چاہیے۔ آگے جا کر اس کو بیچنا بھی ہے۔ تین چار دوست اکٹھے ہوتے ہیں، انہیں آئیڈیا ز تو اچھے سوجھتے ہیں مگر انہیں بیچنا نہیں آتا، آپ کو ایسی ٹیم چاہیے جس میں آپ اپنی Strength پرکھیلیں، کوئی ایک ممبر بہترین کمیونیکیشن سکل کا مالک ہو، کوئی اچھا تجزیہ کر لیتا ہے، کوئی پریزنیٹیشن اچھی بنالیتا ہوگا، تو یہ ٹیم بنانا ضروری ہے۔
سوال: آپ نے ذکر کیا کہ یہ سوچ کا معاملہ ہے ، یہ بتائیں کہ سوچ میں تبدیلی کیسے آئے، کیا اس کے لیے کوئی عمر کی حد ہے یا کیا کچھ کرنا ہوگا کہ سوچ بدلے؟
جواب: اس میں ایسے ہے کہ جو Change Management ہے یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس تبدیلی کے عمل کے لیے کتنے آمادہ ہیں۔ ہمار ے ہاں لوگوں کو جم میں جانے کا شوق ہوتا ہے۔ جاتے ہیں، ورک کرتے ہیں، لیکن ہم ڈسپلنڈ نہیں رہتے۔ اس میں ہمیں ناکامی ہوتی ہے۔ موٹیویشن کے ساتھ ڈسپلن ضروری ہے۔ یہ سوچنا کہ میں نے کارپوریٹ سیکٹر میں جانا ہے ، یا کسی اور جگہ جاناہے تو میں نے کوشش اور محنت کتنی کی ہے۔ میرے پاس سٹریٹیجی کیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کیسے کرنا ہے۔ ریسرچ کے مطابق اگرآپ اپنے آپ کو جوانی میں تبدیل کرلیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ، بعد میں مشکلات آتی ہیں۔ مگر ناممکن نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے توپھر حالات آپ کو تبدیل کردیں گے۔ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو ایک قدم بڑھائیں اورپھر مستقل مزاجی اور تسلسل کو برقرار رکھیں۔ Change Management میں تسلسل لازمی ہے۔ وگرنہ کامیابی کے روٹھ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ میں مختلف جامعات میں جاتا ہوں، لیکچر دیتاہوں، بڑے اچھے لیکچر ز ہوتے ہیں، تالیاں بج جاتی ہیں، طلباء خوش ہوتے ہیں۔ مگر بعد میں اس کا فالو اپ نہیں ہوتا۔
سوال: آپ ٹریننگز بھی کرواتے ہیں۔ آپ کا کیا تجزیہ ہے کہ ہمارے نوجوان کہاں کوتاہی کرتے ہیں۔ کونسی تعلیم حاصل کریں یا سکلز سیکھیں تا کہ خود روزگار کمانے کے قابل ہو جائیں۔
جواب: سب سے زیادہ کمی جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ ہے صبر۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز جلدی ہو جائے۔ میں جاؤں آفس میں، ایک بڑا سا آفس ہو ، سجا سجایا ہو، میں گھنٹی بجاؤں اور ملازم چائے لے کر آ جائے۔ یہ ہو گا ضرور لیکن فوراً نہیں ہو سکتا۔ ایجوکیشن میں ڈگری اور سکلز دونوں ضروری ہیں۔ اگر ہروقت کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا چاہیے۔ میرے ایک دوست بہت اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ وہ ہرسال کوئی نیا کورس کرلیتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ ان سب کورسز کے لیے آپ کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ پیسے کا عمل دخل نہیں ہوتا، نیت کا عمل دخل ہے۔ میں جب نیک نیتی سے شروع کرتا ہوں تو اللہ میری مدد کرتا ہے۔ اگر کسی نوجوان نے کوئی ڈگری کر لی ہے، ایم بی اے یا کچھ اور، تو وہ کہتے ہیں کہ بس میں نے بہت پڑھ لیا۔اب مزید نہیں پڑھنا۔ پھر ہمارے ہاں ایسا بھی ہے کہ جب ہم اپنا کیریئر شروع کر رہے ہوتے ہیں توہمیں وہ نوکری نہیں ملتی جو ہم چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ نوکری ملتی ہے،جو ہم نہیں چاہتے۔ اس کے لیے ہم نے کوئی سکل نہیں سیکھی ہوتی۔میرا ایک سٹوڈنٹ تھا وہ دبئی گیا جاب ڈھونڈنے۔ اس کو ایچ آر کی جاب نہیں ملی۔ اس کو کسی بینک میں کسٹمر سروس کی جاب مل گئی۔ اس نے مجھے فون کیا کہ میری رہنمائی کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں کسٹمر سروس کی کچھ ویڈیوز اورآرٹیکلز بھیجتا ہوں، اس کو دیکھو۔ اس نے کہا کہ سر مجھے لگتا ہے کہ مجھے یہ جاب چھوڑنا ہو گی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اگر تم ایچ آر میں آنا چاہتے ہو تو آجا ؤ گے، لیکن یہ تمہارے لئے ایک موقع ہے۔ اس کو ضائع مت کرو۔ اس نے وہ ٹریننگز دیکھیں ، کوئی چھ ، آٹھ ماہ بعد اس کو اپنی فیلڈ میں جاب مل گئی۔ بعد میں بتانے لگا کہ وہ کسٹمر سروس جاب والی تربیت میرے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔ سیکھنا ضروری ہے۔ یہ آپ کو Back Pay کرتا ہے۔ اس طرح مختلف کورسز ہیں ، اے آئی کے کورسز ہیں ، جو ان کو سیکھ لے گا، آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ہو ں گے۔
سوال: سوچ کی تبدیلی کے محرکات یا عوامل کون سے ہیں؟
جواب: سوچ کی تبدیلی کے مختلف عوامل ہیں، پہلے تو ایک Mentor ہو جو آپ کی زندگی میں اہم رول ادا کرے۔ آپ کو گائیڈکرے ، وہ فیملی ممبر، کولیگ یا دوست بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا وہ لوگ جوآپ کو ستاتے ہیں، تنگ کرتے ہیں،ان کو اپنی زندگی میں بلاک کر دیں۔ کیونکہ وہ آپ کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ کہیں گے کہ پاکستان میں کچھ نہیں ہو سکتا، ۔ ان لوگوں سے ا پنی کامیابیاں شئیر کریں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔
میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے دیں۔ دنیا میں کوئی فرد ، آپ کے لیے کچھ نہیں کرے گا، آپ کو خود ہی اپنے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنا کام شروع کر کر رہے ہوتے ہیں پاکستان میں میں ایچ ا ر اپنے ا پ کو ایچ ا ر کا ایچ ا ر کی ہمارے ہاں چاہتے ہیں کے مختلف کرتے ہیں نا چاہتے نا چاہیے ضروری ہے سی ای او ا پ اپنے کرتا ہے نہیں ہو ہوتا ہے کے ساتھ ا ئیڈیا اگر ا پ پر بات اور اس کے پاس رہا ہے نے ایک کیا ہے کچھ نہ کہ اگر ہیں کہ تا ہوں کے لیے کام کر
پڑھیں:
نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
مسلم لیگ نون کے بارے میں اس کے مخالف خاص کرپاکستان تحریک انصاف کے لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ وہ عوام میں اپنی مشہوری کی خاطر ہمیشہ ایسے نمائشی منصوبے اور پروجیکٹس شروع کرتی ہے جو وقتی فائدے کے لیے ہوتے ہیں اورجو تین چار سال میں مکمل ہوکراگلے الیکشن سے پہلے مکمل ہوجاتے ہیں ، جنھیں دکھاکر وہ عوام سے ووٹ حاصل کرلیتی ہے۔
جیسے سڑکیں ، شاہراہیں اورٹرانسپورٹ کے منصوبے جو مسلم لیگ کے دور ہی میں سارے ملک میں پچھلے کئی برسوں میں دیکھے گئے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے شاہراہوں اورموٹرویز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں وہاں ہم نے مواصلات اورٹرانسپورٹ کا نظام بہت ہی اچھا ، دلکش اورپائیدار دیکھا ہے۔اس کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔یہ منصوبے چند سالوں کے لیے نہیںبنائے جاتے ہیں، یہ آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدان صرف اورصرف سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایسے اہم منصوبوں کی مخالفت کرنا اپنافریضہ سمجھتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے 1990میں بحیثیت وزیراعظم پہلی بار عنان حکومت سنبھالا تو سب سے پہلے ملک میںسفری سہولتوں پرتوجہ دی اورموٹروے بنانے کا تصور پیش کیا۔ یہ اس ملک کا پہلا بڑامواصلاتی پروجیکٹ تھا جو یورپین ممالک کی طرز پرشروع کیا گیا۔ مخالفوں نے اسے ایک غیر ضروری عیاشی اورفضول خرچی قراردیکر بھرپور مخالفت شروع کردی۔یہ دوررس ثمرات کا حامل وہ پروجیکٹ تھا جسے ہم شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ نوازشریف نے یہ پروجیکٹ اپنے وقتی سیاسی فائدے کے لیے ہرگز شروع نہیں کیاتھا بلکہ یہ اگلی نسلوں کے لیے بنایا جانے والا بہت عظیم منصوبہ تھا۔
انھیں اس وقت یہ معلوم بھی نہیںتھاکہ وہ اپنے اس پہلے دور میں مکمل کرپائیں گے بھی یا نہیں۔مگر انھوں نے دن رات ایک کرکے باوجود مشکل مالی حالات کے اسے مکمل کرناچاہا مگراس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے اُن کا یہ خواب پورا ہونے نہیںدیا اورقبل ازوقت معزول کرکے ایوان وزیراعظم سے انھیں رخصت کردیا۔ وہ دوبارہ جب 1997 میں برسراقتدار آئے تو پھر وہیں سے یہ کام شروع کیا جہاں سے یہ معطل ہوگیا تھا۔یہ منصوبہ کوئی وقتی فوائد سمیٹنے کے لیے نہیں تھا بلکہ رہتی اورآنے والی نسلوں کے لیے بنایاگیا تھا جس پر سفر کرتے ہوئے اُن کے مخالف اندر سے تو سمجھتے ہونگے کہ واقعی یہ ایک بہت ہی زبردست پروجیکٹ ہے جس کا فائدہ وہ خود بھی اُٹھا رہے ہیں مگر مخالفت کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیںکرتے۔
اسی طرح میٹروبس سروس کا اجراء بھی ہمارے بڑے شہروں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسے جنگلابس سروس کہنے والوں نے بعد ازاں خود اپنے علاقے میں بھی شروع کیا ۔یہ شروع کرتے ہوئے انھیں ذرا بھی شرم اورندامت محسوس نہ ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہاکرتے تھے اوراب خود بھی اس سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں۔ 126دنوں کے دھرنے میںوہ صبح وشام اس کی مخالفت کیاکرتے تھے اورکہاکرتے تھے کہ قوم کو جنگلا بس نہیں بلکہ اسکول اوراسپتال چاہیے۔مگر جب انھیں خود اقتدار ملاتو انھوں نے کتنے اسپتال اوراسکول بنا ڈالے۔ ہمارے یہاں یہ بڑی افسوس ناک روایت رہی ہے کہ خود کو جب کبھی کام کا موقعہ ملاتوخود توکوئی کام نہ کریں مگر دوسرا اگر کوئی اچھا اوربڑا منصوبہ شروع کرے تو اس کی مخالفت کرکے عوام کو اس کے بارے میں متنفر کردیں۔میٹروبس اوراورنج ٹرین منصوبہ کوئی عیاشی یا فضول خرچی نہیں ہے ۔
یہ وقت اورزمانے کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آج کے دور میں ترقی کرنا نہ ممکن ہے۔ جس طرح موبائل فونز آج ہرشخص کی ضرورت ہے اسی طرح اچھی ٹرانسپورٹ سروس بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور دیگر شہروں کی نسبت ایک بہت اچھا اورخوبصورت سہولت یافتہ شہر سمجھاجاتا ہے۔ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے لوگ ان سہولتوں کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔اگر باقی صوبوں کی حکومتوں نے بھی نون لیگ کی طرح سوچا ہوتااورکام کیاہوتا تو آج وہ بھی ایسی ہی سہولتوں سے مستفید ہورہے ہوتے۔ انھیں کس نے ایسے پروجیکٹس شروع کرنے سے روکا ہے ۔
نون لیگ نے اپنے تیسرے دور میں سب سے پہلے سی پیک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھانی ، جسے روکنے کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر چار مہینوں تک دھرنا دیا گیا کہ چائنہ کے صدر یہاں نہ آسکیں۔ مگر میاں صاحب کوجیسے ہی اس دھرنے سے کچھ راحت ملی وہ تیزی سے اس منصوبے پرجت گئے۔ یہ منصوبہ بھی صرف میاں صاحب کی ذاتی پبلسٹی کے لیے نہ تھا۔ یہ اس قوم کوعظیم اورخودمختار بنانے کی سمت میں بہت ہی اچھا منصوبہ تھا۔ ہم اسے بھی ایک شارٹ ٹرم منصوبہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔یہ ہماری اگلی نسلوں کی ترقی وخوشحالی کا ایک منصوبہ ہے جو اگر مکمل ہوگیا تو ہم یقینا ایک روشن مستقبل سے ہمکنارہوسکتے ہیں۔
میاں صاحب آج بھی اپنی اس عادت سے مجبور ہوکرطویل المیعاد منصوبوں پرکام کررہے ہیں۔ بلوچستان میں چھپی معدنیات کے بارے میں ہم بہت کچھ سنا کرتے تھے لیکن اُن پرکام شروع ہوتے نہیںدیکھ پاتے تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج شہبازشریف کے اس دور میں سینڈک اورریکوڈک منصوبوں پربھی کام شروع ہوگیا ہے۔
کہنے کو شہباز شریف حکومت کو گزشتہ الیکشن میںسادہ اکثریت بھی نہیں ملی تھی اورانھیں مجبوراً یہ ذمے داری سنبھالنی پڑی کیونکہ جنھیں واضح سیٹیں ملی تھی انھوں نے خراب معاشی حالات کے سبب حکومت لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور شاید یہ اس ملک کے لیے بہتر ہی تھاکہ انھوں نے یہ ذمے داری نہیں لی ورنہ آج ایسے پروجیکٹس کے بجائے ہمارے یہاں ویلفیئر تنظیموں کی مدد سے لنگر خانے اورشیلٹر ہومز ہی بن رہے ہوتے۔عوام کو اِن لنگر خانوں میں مفت کی روٹی کھانے کا عادی بنایا جا رہا ہوتا۔کوئی تعمیری کام نہیں ہو رہا ہوتا اور ہم شاید ڈیفالٹ بھی کر گئے ہوتے۔
مذکورہ بالا پروجیکٹس کوئی مختصر مدت یا شارٹ ٹرم پرمبنی نہیں ہیں۔ یہ طویل المیعاد وہ پروجیکٹس ہیں جو اگر پایہ تکمیل تک پہنچ گئے تو ہم یقیناً قرضوں کے دلدل سے نکل جائیںگے بشرط کہ اس حکومت کو کام کرنے دیاجائے ، ایسا نہ ہوکہ ہربار کی طرح اس حکومت کو بھی قبل ازوقت فارغ کردیا جائے اورناکامی کا الزام سیاستدانوں پرلگادیا جائے۔
ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کاموازنہ کرتے ہوئے انصاف سے کام نہیںلیتے اورجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اوراپنے لیڈر کی غلط کاریوں پرپردہ ڈالنے کے لیے سارے سیاستدانوں کوایک ہی لکڑی سے ہانک رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ تمیز نہیں کرتے کہ کس سیاستدان نے اس قوم کی بھلائی کے لیے کچھ کام کیے ہیں۔ ملک کوبرباد کرنے والوں اوراسے بہتربنانے والوں دونوں ہی کو اپنی ناکامیوں کا مورد الزام ٹھہرارہے ہوتے ہیں۔ کس نے قوم کا پیسہ قوم کی بھلائی پرخرچ کیا ہے اورکس نے مزے اُڑائے ہیںکوئی کام بھی نہیںکیا صرف باتیں ہی کیںاورقرضے بھی سب سے زیادہ لے لیے ہم یہ نہیںدیکھتے۔