Express News:
2025-02-20@23:43:55 GMT

بُک شیلف

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

A Legislative Odyssey

(2012-2018)،  مصنف: ڈاکٹراحمد کریم خواجہ، ناشر: سید مُنعم حُسین

صفحات: 481، قیمت: 3500

مقننہ کے اراکین کا بنیادی فریضہ قانون سازی، جدید تقاضوں کے مطابق آئین اور قوانین میں ترامیم لانا اور ریاست کے شہریوں کے حقوق کے لیے اور انھیں درپیش مشکلات اور مسائل کے خلاف آواز اٹھانا ہے، مگر پاکستان میں ان منتخب نمائندوں کی اکثریت ترقیاتی فنڈز کے حصول، لوگوں کو ملازمتیں دلا کر اپنی مقبولیت بڑھانے اور سیاسی مخالفین کے خلاف تندوتیز تقاریر کے ذریعے اپنی قیادت کو خوش کرنے ہی میں اپنی متعین مدت گزار دیتے ہیں۔ کچھ تو ایک لفظ بولے بغیر ایوانوں کی آرام دہ کرسیوں اور ٹھنڈی فضا میں آرام کرکے ہی اپنا دور پورا کرلیتے ہیں۔ عوام بھی، جنھیں سیاست داں اپنے مقاصد باشعور کہتے نہیں تھکتے، اپنے نمائندوں کی مقننہ میں کارکردگی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، کیوں کہ ان کی نظر میں یہ نمائندے سڑکیں اور پُل بنانے جیسے امور کے لیے ایوانوں میں جاتے ہیں۔ تاہم اس مایوس کُن صورت حال اور بے عمل اراکین مقننہ کی بھیڑ میں ہمیں ایسے نمائندے بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنے فرائض پوری دل جمعی اور اخلاص سے ادا کیے۔ ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ ان کی یہ کتاب، جسے تصنیف بھی کہا جاسکتا ہے تالیف بھی، اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے کہ صاحب کتاب نے بہ طور سینیٹر ایوان بالا میں اپنا کردا مؤثر طریقے اور پوری دیانت داری سے ادا کیا۔  A Legislative Odyssey ایک منفرد اور اچھوتی کتاب ہے، جس میں ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے اپنی اس تمام کارکردگی کو جمع کردیا ہے جس کا مظاہرہ انھوں نے بہ طور سینیٹر 2012 سے 2018 کے دوران اپنی چھے سالہ مدت میں کیا۔ یہ کتاب دراصل مختلف دستاویزات کا مجموعہ ہے، جن میں صاحب کتاب کی طرف سے ایوان بالا میں پیش کردہ قانونی مسودے، ان میں سے منظور ہوکر قانون بننے والے مسودے، ان کی جانب سے لائی جانے والی قراردادیں، نکتہ ہائے اعتراض، توجہ دلاؤ نوٹس، ایوان میں ہونے والے مباحث میں بیان کردہ خیالات اور مختلف معاملات پر ڈاکٹرکریم احمد خواجہ کی طرف سے پوچھے گئے سوالات شامل ہیں۔ یوں یہ کتاب قوم وملک کی ترقی اور بہبود لیے ان کی فکری اور عملی کاوشوں ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ایک مختصر دور کی قانونی ارتقاء کی تاریخ بھی ہے، اس کے ساتھ ڈاکٹر خواجہ کے سوالوں کے جواب کی صورت میں قاری کو ریاست کے مختلف اداروں کے حوالے سے بہت سے حقائق تک رسائی بھی فراہم کرتی ہے۔ کتاب کے مصنف پیشے کے اعتبار سے ماہرنفسیات ہیں اور ان کا شمار ملک کے ذہنی امراض کے نمایاں ترین معالجین میں ہوتا ہے۔ وہ طویل مدت سے سیاست اور علمی، ادبی اور سماجی خدمات سے وابستہ ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن ہیں۔ بہ حیثیت سیاسی کارکن انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف چلنے والے بحالی جمہوریت کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ سیاست اور سماج سے جُڑے رہنے اور درددل رکھنے کے باعث انھیں معاشرے کے محروم ترین طبقات سے گہری ہم دردی ہے، جس کا عملی اظہار ان کے خواجہ سراؤں اور لاوارث بچوں کی حالت بہتر بنانے پیش کردہ قانونی مسودوں، کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی امراض اور ذہنی دباؤ کے باعث کیے جانے والے خودکشی کو جرم قرار نہ دینے اور جانوروں پر مظالم کے انسداد کے لیے ان کے پیش کردہ مسودے یقیناً ایسی کاوشیں ہیں جن پر وہ فخر کرسکتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسٹیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی (PILDAT) کے صدر احمد بلال محبوب کتاب میں شامل اپنے مختصر مضمون میں ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں انھوں نے ڈاکٹر خواجہ کو ایک انتہائی سنجیدہ اور اپنے کام سے مخلص قانون ساز پایا۔ ان کے علاوہ کتاب میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے سیکریٹری جنرل اور سابق چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری اور ممتاز سیاست داں اور سابق سینیٹر فرحت اللّہ بابر کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی سیاست کار یا منتخب نمائندہ ایوان میں قوانین میں ترمیم واضافے کی اپنی کوششوں، وہاں بیان کردہ اپنے خیالات اور استفسارات کو کتابی صورت میں سامنے لایا ہے۔ یوں ڈاکٹرکریم احمد خواجہ نے اپنی نوعیت کی اس الگ تصنیف کے ذریعے ایک مثبت اور قابل تقلید روایت کی طرح ڈالی ہے۔ خوب صورت طباعت کے ساتھ شایع ہونے والی یہ کتاب سیاسی محققین، تاریخ دانوں، صحافیوں، سیاست اور پاکستانی تاریخ کے طلبا اور سیاسی معاملات سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے نہایت دل چسپ اور معلوماتی دستاویز ہے، جس میں شامل گراں قدر مواد کا تقاضا ہے کہ اسے اردو میں منتقل کرکے بھی شایع کیا جائے۔ یہ کتاب فرید پبلشرز، 12، مبارک محل، اردو بازار، کراچی (فون نمبر: 3331354469) سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

صحافتی یادیں (صحافتی وذاتی)

مصنف: جبار مرزا، بہ اہتمام: علامہ عبدالستارعاصم، سلمان علی چودھری ،صفحات: 360 ، قیمت: درج نہیں ، ملنے کا پتا: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون نمبر: 03000515101، 03094105484

یادداشتوں کا شمار نثر کی دل چسپ ترین اصناف میں ہوتا ہے۔ کسی کی یادوں ذخیرہ تحریری صورت میں ڈھل کر ہم پر اس کے عہد، تاریخ اور مختلف ممتاز شخصیات کے بارے میں بہت کچھ منکشف کرتا ہے، اور اگر یہ یادداشتیں دہائیوں تک شہرِصحافت کی کوچہ گردی کرنے والے کسی صحافی کی ہوں تو جانے کتنی ان کہی کہانیاں، نیوزڈیسک روک دی جانے والی خبریں اور کتنے ہی راز دستاویزی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ ’’صحافتی یادیں‘‘ کے مصنف بھی ایک سنیئر صحافی ہیں، جو صحافتی دنیا میں رپورٹنگ اور انٹرویونگاری سے اخبارات اور رسائل کی ادارت تک تمام اہم ذمے داریاں ادا کرچکے ہیں۔ وہ شعر وادب سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ان کا شعری مجموعہ ’’مرحلے‘‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔ اس سے قبل ان کی 16کتابیں چھپ چکی ہیں اور چار زیرطبع ہیں۔ علم، تجربے، رسائی اور تعلقات کی وسعت کی بنا پر ان کی زندگی ماجروں سے پُر رہی ہے، جنھیں لکھنے کا وہ ہنر بھی جانتے ہیں اور کسی خوف ولحاظ کے بغیر بیان کرنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔ سو تصنیف وتالیف کی صورت میں وہ اپنے تجربات، خیالات اور معلومات میں پڑھنے والوں کو شریک کرتے رہتے ہیں۔ ’’صحافتی یادیں‘‘ بھی شریک کرنے کی اس روایت کی کڑی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ہر ہر صفحے پر کسی دل چسپ واقعے، چشم کشا حقیقت اور مختلف شخصیات وافراد کی زندگی اور شخصیت کے سیاہ وسفید گوشوں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل مختصر اور طویل تحریریں اتنی رواں اور دل چسپ ہیں کہ پہلا صفحہ الٹنے کے بعد کتاب کو بند کرکے ایک طرف رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس تصنیف میں دنیائے صحافت کے روزوشب کا تذکرہ بھی ہے اور ملکی سیاست کی حکایتیں بھی، عام افراد کی بڑی خاص افسانوں سی کہانیاں بھی اور مصنف کی ذات سے جُڑی حیران کرتی روایات بھی۔ کتاب میں ’’میں نہ کہتی تھی‘‘ کے زیرعنوان شامل طویل ترین تحریر دل پذیر ہونے کے ساتھ چونکانے والی بھی ہے، جس میں جبارمرزا اپنے ایک ’’مشن‘‘ کے قصہ بیان کرتے ہیں، جسے کی خاطر انھوں نے کوٹھوں اور ان چاردیواریوں کو جاتے راستوں کا سفر کیا جہاں نسوانی جسموں کے سودے ہوتے ہیں اور ہوس اور لالچ کے بیچ گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ جبارمرزا کی یادوں میں جابہ جا محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان جلوہ گر ہیں۔ وہ انکشاف کرتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر کا پہلا انٹرویو انھوں نے کیا تھا، ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہلے انٹرویو کا کریڈٹ کس طرح ان سے چھین کر کسی اور کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ڈاکٹر قدیر پر جو بیتی اس کی کہانی بھی کتاب کا حصہ ہے۔ پاکستان کو جوہری طاقت بنانے والے مایہ ناز شخص سے عشق کرتے اور ان سے قریبی تعلق رکھنے والے جبارمرزا اپنے ممدوح کی مظلومیت اور بے بسی کا درد لفظوں میں یوں ڈھالتے ہیں کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ جبارمرزا کی یادیں جب علامہ طاہرالقادری کے بیٹوں کی شادی کا احوال سُناتی ہیں تو لگتا ہے کہ ہم کسی بادشاہ زادے کے بیاہ کا منظرنامہ پڑھ رہے ہیں یا ہالی وڈ کے ستاروں کی کسی تام جھام، تزک واحتشام اور جمالیات کے تقاضوں سے بھرپور تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ہماری نظروں سے گزر رہا ہے۔ مصنف دینی رجحان کے حامل ہیں اور روحانیت سے شغف رکھتے ہیں، ان رجحانات کی عکاسی کتاب میں جگہ جگہ ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی شخصیت کے بارے میں پوری بے باکی سے اپنی رائے دیتے اور اس کے ساتھ پیش آنے والا اپنا کوئی تجربہ بیان کرتے ہوئے کسی مصلحت سے کام نہیں لیتے۔ جبارمرزا نے اپنے بچپن کی بہت سی کھٹی میٹھی یادوں کو بھی کتاب کا حصہ بنایا ہے، جس کے باعث اس تصنیف میں خودنوشت کا رنگ بھی شامل ہوگیا ہے۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات اور یاد رہ جانے والے خوب صورت اور معنی خیز جملوں کو بھی اس کتاب کی زینت بنایا ہے۔ چند سطور پر مشتمل یہ تحریریں مضامین کے آخر میں خانہ پُری کے طور پر چوکٹھوں کی صورت شایع کی گئی ہیں، جن میں سے بہت سی مصنف کی طویل تحریروں کی طرح اہمیت کی حامل اور چشم کُشا ہیں۔ کتاب معیاری کاغذ پر جا بہ جا رنگین اور سیاہ وسفید تصاویر کے ساتھ چھاپی گئی ہے، جس کا مطالعہ قارئین کے لیے حیرت، مسرت اور افسوں کے لمحوں سے دوچار کرتا تجربہ ہوگا۔

میرپورخاص، ماضی سے حال تک

مولف: عبدالمومن نوید انصاری، صفحات: 368، قیمت: 600، کتاب ملنے کا پتا: مکرانی مسجد، غریب اباد، میرپورخاص سندھ۔ رابطہ: ?03003315068 03332962971

آم اور کپاس کے حوالوں سے مشہور سندھ کے شہر میرپورخاص کو موضوع بنائے ہوئے یہ کتاب مصنف کی اپنے شہر سے محبت کا ثمر ہے، اس محبت نے انھیں بیسیوں حوالہ جاتی کتب ودستاویزات کے عرق ریزی سے مطالعے اور تحقیق کی دقتوں سے گزرنے پر مجبور کیا۔ یوں تو ہر محقق اور تاریخ داں کو جستجو کی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور کٹھن اور صبرآزما مراحل کے بعد ہی وہ اپنا کام مکمل کرپاتا ہے، لیکن عبدالمومن نوید انصاری کی مشکل کچھ سِوا تھی۔ وہ عالم دین ہیں، سو جب انھوں نے تحقیقی مقاصد کے تحت اور معلومات تک رسائی کے لیے اہل علم حضرات سے رابطہ کیا تو انھیں افسوس ناک رویے کا سامنا کرنا پڑا، وہ لکھتے ہیں،’’راقم کو معلومات کے حصول میں ایک طبقاتی فرق کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طبقاتی فرق کے بھی کئی پہلو تھے، جس میں یہ الفاظ بھی ادا کیے گئے کہ ایک مولوی کا اس طرح کی معلومات سے کیا کام؟‘‘ ان ہمت شکن حالات کے باوجود وہ اپنے راستے پر گام زن رہے اور منزل پر پہنچ کر ہی دَم لیا۔ ’’میرپورخاص ماضی سے حال تک‘‘ نہ صرف سرسبزی وشادابی کے گہوارے میں زندگی کرتے اس شہر کی تاریخ بیان کرتی ہے، بلکہ وہاں کے سماجی وثقافتی حقائق، ادارے، عمارات اور شخصیات بھی اس کا موضوع ہیں۔ کتاب میں دو امور کے حوالے سے انکشاف یا رائے چونکادینے والی ہے۔ پہلا یہ قیاس کے راجا داہر کے دور میں سندھ کا دارالحکومت اروڑ یا دراوڑ (جسے زیرتبصرہ کتاب کے مصنف نے راوڑ لکھا ہے) دراصل وہی شہر تھا جس کے میرپورخاص کے پاس ملنے والے کھنڈرات نے ’’کاہو جو دڑو‘‘ کا نام پایا۔ بدقسمتی سے یہ کھنڈرات اب مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ مصنف کی اس رائے کی بنیاد کچھ منطقی دلائل کے ساتھ سندھ کے معروف مورٔخ مہرکاچیلوی کے خیال پر استوار ہے۔ واضح رہے کہ اس شہر کی صحیح جائے وقوع کے متعلق مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسرا انکشاف ارض میرپورخاص پر مہاتما بدھ کی آمد سے متعلق ہے۔ اگر یہ دونوں خیالات تاریخ کی کسوٹی پر پورے اترکر صحیح ثابت ہوتے ہیں تو اہل میرپورخاص کے لیے ان کے شہر کی تاریخ بجاطور پر قابل فخر قرار پائے گی۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ میرپورخاص باقاعدہ بسایا جانے والا شہر ہے، جس کی آبادی کا اکثریتی حصہ چار بڑی ہجرتوں کا ورثہ ہے، جن میں اس شہر کی آبادکاری 1806ہجرت بانیٔ شہر میرعلی مراد خان تالپور نے مختلف اقوام کے افراد کو شہر میں اور اطراف آباد کیا، پھر 1900 میں جمڑاؤ نہر کے میرپورخاص پہنچنے کے بعد کھیتی باڑی کے لیے پنجاب سے لوگوں کو لاکر بسایا گیا، 1920 میں میرپورخاص میں روئی کے کارخانوں کے قیام کے بعد مکران کے بلوچ بڑی تعداد میں آکر یہاں بسے اور آخری اور سب سے بڑی ہجرت 1947کی ہے جب ہندوستان خاص کر سندھ سے ملحق بھارتی صوبوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا، جس کے باعث شہر کی اکثریت اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ کتاب میں پوری تفصیل سے میرپورخاص کی تاریخ اور شہر سے متعلق حقائق بیان کیے گئے ہیں، جس کی بنا پر یہ کتاب میرپورخاص کا انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ شہر کے ماضی اور حال کی عکاسی کرتی چند رنگین تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اہل میرپورخاص کے ساتھ سندھ کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے بھی یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ کتاب کی طباعت عمدہ اور اشاعت میں معیاری کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔  

عنکبوت (ناول)

مصنف: بسمہ نذیر ، ناشر: فرید پبلیشرز، کراچی، صفحات: 343، قیمت: 2 ہزار روپے

 ہر زبان میں خالص ادب کے دھارے کے ساتھ پاپولر فکشن کی لہر بھی رواں رہتی ہے۔ پیش پاافتادہ موضوعات پر عام قاری کے فہم، جذبات اور ذوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’قابل ابلاغ‘‘ زبان واسلوب میں تحریرکردہ ناول، ناولٹ اور کہانیاں جو کتابی صورت میں شایع ہوکر یا ڈائجسٹوں میں چھپ کر پاپولر فکشن کا نام پاتی ہیں، ان کی اپنی ایک اہمیت اور افادیت ہے۔ اس ’’عام فہم فکشن‘‘ سے ایک طرف مطالعے سے رغبت نہ رکھنے والے ہمارے جیسے معاشروں میں پڑھنے کا رجحان بڑھتا اور قارئین کی کھیپ کی کھیپ تیار ہوجاتی ہے، جو رفتہ رفتہ ان کی ایک تعداد کو سنجیدہ ادب تک پہنچادیتی ہے، دوسری طرف پاپولر فکشن کے تخلیق کاروں کے لیے یہ امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کچھ اپنا معیار بلند کرکے خالص ادب تخلیق کرنے والوں کے دھارے کا حصہ بن جائیں۔ چناں چہ پاپولر فکشن کا ذکر تضحیک کے ساتھ کرنے کے بجائے اس کی قدروقیمت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ زیرتبصرہ ناول بھی نثری ادب کی اسی صنف سے تعلق رکھتا ہے۔ اس ناول کا موضوع بچوں کے جنسی استحصال کا مکروہ دھندا ہے۔ کہانی میں بچوں سے زیادتی کے حوالے سے نفسیاتی عوامل کرداروں اور ان کے افعال کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ سرورق پر ’’نفسیاتی چکر میں گھری ایک زہریلی داستان‘‘ کے الفاظ پلاٹ کی اس سمت کی نشان دہی اور قاری کو متوجہ کرنے کی کوشش ہیں۔ بیانیے اور کرداروں کے مکالموں اور اعمال میں مصنفہ کا دینی رجحان واضح طور پر نظر اتا ہے۔ ناول کا عنوان بھی اسی رجحان کا عکاس ہے جو قرآن مجید کی سورہ عنکبوت سے لیا گیا ہے، جس میں قوم لوط اور اس کی ہم جنس پرستی کے قبیح فعل کا تذکرہ ہے۔ ناول کے مرکزی کردار پشاور میں مقیم خاندان کی ماہرنفسیات لڑکی اور ایک پولیس افسر ہیں۔ کتاب میں مصنفہ کا تعارف شامل نہیں، جو ان کا قلمی سفر جاننے میں مددگار ہوتا، تاہم مصنفہ کے پیش لفظ سے بس اتنا پتا چلتا ہے کہ یہ ناول انھوں نے پانچ سال میں مکمل کیا اور قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ’’عنکبوت‘‘ ان کی پہلی تخلیق یا کم ازکم پہلا ناول ہے۔ ناول میں پلاٹ اور کہانی کے بنیادی تقاضوں کا خاصی حد تک خیال رکھا گیا ہے، کئی جگہوں پر منظرنگاری بھی اچھی ہے، لیکن زبان وبیان کی خامیاں مصنفہ کی ناپختگی کی خبر دیتی ہیں۔ پلاٹ کو کہانی کا روپ دینے میں محنت تو دکھائی دیتی ہے لیکن یہ کہنا لازمی ہوجاتا ہے کہ انھیں اپنے تخیل میں جنم لیتے پلاٹ کو ناول میں ڈھالنے کے لیے مزید انتظار اور ذہنی مشقت کی ضرورت تھی۔ ساتھ ہی اتنے اہم موضوع کو تخلیقی سطح پر برتنے کے لیے تحقیق کو بنیاد بنایا جاتا تو کہیں بہتر ناول وجود میں آسکتا تھا۔

دیکھنا تقریر کی لذت

انتخاب: سید فرید حُسین، ناشر: فرید پبلشرز، 12، مبارک محل، اردو بازار، کراچی (فون نمبر: 3331354469) ، صفحات:188، قیمت:700 روپے

تقریر محض سیاست، مذہب اور تبلیغ کے مقاصد کے تحت بروئے کار آنے والا ایک فن ہی نہیں، یہ نوجوانوں کو اعتماد دینے، طرزفکر کو منطق اور دلائل پر استوار کرنے کے سبق اور مربوط ودل پذیر گفتگو کا ہنر سکھانے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ وہ تقاضے ہیں جن کی ضرورت پیشہ ورانہ امور اور عام زندگی میں اکثر درپیش آتی ہے۔ یہ کتاب مرتب بھی نوجوانوں خاص کر طلبہ کے لیے کی گئی ہے، چناں چہ اس تالیف کے لیے انتخاب کا فریضہ انجام دینے والے سیدفرید حسین لکھتے ہیں،’’پیش نظر کتاب ’دیکھنا تقریر کی لذت‘ کتابوں کے خزانے میں اضافہ نہیں بلکہ یہ مقررین بچوں اور بڑوں یعنی ثانوی واعلیٰ ثانوی کلاس کے پس منظر کو پیش نظر رکھ کر لکھی اور ترتیب دی گئی ہے۔‘‘ کتاب کی ابتدا میں ’’تقریر کیا ہے‘‘ کے زیرعنوان تحریر میں تقریر کی تعریف، فن خطابت کے مختلف رموز اور مقررین کی کام یابی کے لیے اصول ونکات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب طلبہ کے تقریری مقابلوں کے لیے مختلف موضوعات پر لکھی گئی تقاریر کا مجموعہ ہے، جنھیں لکھتے ہوئے طلبہ کی عمر اور علمی ولسانی استعداد کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ کتاب میں شامل تقریریں جن موضوعات پر ہیں وہ عمومی نوعیت کے اور خاص مواقع کی مناسبت سے ہیں، جیسے سیرت طیبہ، دورِحاضر اور سیرت مصطفی ﷺ، شب قدر، عیدالاضحیٰ، یوم پاکستان اور نسل نو کا کردار، دفاع وطن اور تعلیم، آزادی کی برکتوں کا فیض، قائداعظم محمد علی جناح، شہیدملت لیاقت علی خان، اقبال کے شاہین اور پاکستان کا مستقبل، محترمہ فاطمہ جناح۔ یہ کتاب تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبا وطالبات کے استفادے کے لیے معاون ومددگار ثابت ہوسکتی ہے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کریم احمد خواجہ کی صورت میں انھوں نے کی تاریخ کتاب میں تقریر کی ہیں اور کیے گئے کتاب کی یہ کتاب کے باعث مصنف کی کرنے کی کتاب کا کے بعد کے لیے کا حصہ لیے ان گیا ہے شہر کی بھی اس بھی ہے گئی ہے اور ان

پڑھیں:

۔2024،یو بی ایل کے منافع میں 34 فیصد اضافہ

کراچی(کامرس رپورٹر)یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ نے 31 دسمبر 2024 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 75.78 ارب روپے کی مجموعی آمدنی حاصل کی جو 2023 میں 56.47 ارب روپے کے بعد از ٹیکس منافع کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہے۔منافع میں 2024 کے دوران جاری آپریشنز سے 74.84 ارب روپے اور ڈسکنٹینیوڈ آپریشنز سے 938.61 ملین روپے شامل ہیں۔ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی 2024 میں بینک کی فی حصص آمدنی 61.39 روپے رہی جو 2023 میں 45.05 روپے تھی۔بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 31 دسمبر 2024 کو ختم ہونے والے سال کے لیے 11 روپے فی حصص یعنی 110 فیصد پر حتمی نقد منافع کا بھی اعلان کیا۔ یہ 33 روپے فی حصص یعنی 330 فیصد پر پہلے ہی ادا کیے جانے والے عبوری منافع کے علاوہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سری لنکا: ٹرین کی زد میں آنے والے 6 ہاتھی ہلاک، 2 زخمی
  • تاجکستان کا خواتین کے لباس کے حوالے سے نئے ضوابط جاری کرنے کا اعلان
  • ۔2024،یو بی ایل کے منافع میں 34 فیصد اضافہ
  • کراچی: تین بچوں کے باپ نے پھندا لگا کر خودکشی کر لی
  • کراچی تصادم کی طرف
  • قرآن ہمارا عقیدہ پر ایک تبصرہ
  • سلمان خان اور سنجے دت کس ہالی ووڈ فلم میں کام کرنے والے ہیں؟
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • اشکِ رواں
  • کتاب ہدایت