تحریک انصاف نے عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نئی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔

زرائع کے مطابق ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ احتجاجی تحریک کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دی گئی ہیں اور اس سلسلے میں وکلاء اور دیگر سیاسی جماعتوں سے روابط کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک پر مسلط حکمرانوں کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں اور تحریک انصاف اس حکومت کے خاتمے تک اپنی تحریک جاری رکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ایک نالائق ترین وزیر اعلیٰ کو مسلط کیا گیا ہے اور عوام کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، تحریک انصاف اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت عوام کے حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھائے گی۔

ملک احمد خان بھچر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ عید کے بعد ایک منظم اور مؤثر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: احتجاجی تحریک تحریک انصاف کے بعد

پڑھیں:

’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!

اپریل2022 سے اَب تک، پی ٹی آئی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار ہوا نہ روایتی عدم استحکام کا کوئی ایسا بھونچال آیا کہ دَر و دِیوار لرز اٹھتے اور نظمِ حکومت کو سنبھالے رکھنا مشکل ہو جاتا۔ البتہ پی ٹی آئی کی اپنی کشتی برمودا تکون کے خونیں جبڑوں تک آن پہنچی ہے۔ چوبی تختے چرچرا رہے ہیں، بادبان دھجیاں ہو رہے ہیں، کشتی کو سنبھالا دینے کے بجائے مسافر ایک دوسرے کو سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور شام گہری ہو رہی ہے۔

عمران خان نے ’عدم اعتماد‘ کے ذریعے اقتدار بدر ہونے سے پہلے ہی سائفر کا ناقوس بجایا۔ اِسے پاکستانی جرنیلوں اور امریکیوں کی سازش کا نام دیا۔ ہمدردی کی انقلاب آفریں عوامی لہر اُٹھانے کی کوشش کی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم پی ڈی ایم حکومت کو بھی دھکا نہ دیا جا سکا۔ فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اڑھائی سو سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کیے۔ شہدا کی یادگاروں کو قہر و غضب کا نشانہ بنایا۔ طیارے نذرِ آتش کیے۔ فتنہ پرور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں۔ ملکی سلامتی کے انتہائی حساس معاملات کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ اپنے عشق میں ہلکان عدلیہ سے عجوبہ روزگار فیصلے حاصل کیے لیکن پاکستان کے کسی گوشے میں ایسے بحران یا سیاسی عدم استحکام نے انگڑائی نہ لی جو نظمِ اجتماعی کو مفلوج کر دیتا۔
انتخابات کے بعد، گذشتہ ایک برس میں بھی پی ٹی آئی مسلسل جتن کرتی رہی کہ ملکی اداروں کو متنازع بنا کر ہموار پانیوں میں تلاطم اُٹھایا جائے۔ 24 نومبر 2024 کو اسلام آباد پر لشکر کشی کو ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ حملہ بھی شرم ناک ہزیمت کا سیاہ داغ چھوڑ گیا۔ نیم دِلی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اُکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہو کر گھر لوٹ گئی۔ کبھی یورپی یونین کو درس جمہوریت دیتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان ’جی ایس پی‘ پلس کی رعایت کا حق دار نہیں رہا۔ کبھی آئی ایم ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پھوٹی کوڑی تک نہ دو۔ کبھی امریکی ارکان کانگرس کی مٹھی گرم کرتے ہوئے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں سرنگیں لگائیں اور پاکستان کو مغلظات سنوائیں۔ دُہائی دی کہ ’’پاکستان کی صورت حال غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہو چلی ہے۔‘‘ سفارت کاروں کو جمع کر کے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ایک بھاری بھرکم ’ڈوزیئر‘ آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو ایک سفاک اور انسانیت کش ریاست باور کرانے کی ’’سعی جمیل‘‘ کی گئی ہے۔ الحمدللہ۔ کھلی ملک دشمنی کی حدوں کو چھوتی ایک بھی مکروہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی بحران پیدا ہوا نہ سیاسی عدم استحکام جو ملک کی چولیں ہلا دیتا۔

نومبر 2024 کے اواخر میں عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی پاکستان نہ بھیجیں تا کہ ملکی خزانہ خالی ہو جائے۔ ادائیگیاں ممکن نہ رہیں اور ملک دیوالیہ ہو جائے۔ اِس سے ایک بڑے اقتصادی بحران کا سونامی جنم لے گا جو ریاست کی بھربھری دیواروں سے ٹکرائے گا اور شدید نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کا سیل بلا حکومت کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے تین ماہ سے یہ اپیل دیار غیر میں رُسوا ہو رہی ہے لیکن پاکستانی کان نہیں دھر رہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ نے 12 فروری کو اِس داستان کا نوحہ پڑھتے ہوئے سُرخی جمائی ’’How Pakistan’s Imran is losing remittances war against the Government‘‘
’’عمران کیوں کر حکومت کے خلاف ترسیلات زر کی جنگ ہار رہا ہے۔‘‘
پاکستانیوں نے دسمبر میں تین ارب ڈالر پہلے سے زیادہ پاکستان بھیجے۔ جنوری کے آخر میں ترسیلات زر میں مزید تین ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ سیاسی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی آرزو، اڈیالہ جیل کی راہداریوں کا رزق ہو گئی۔

چار مرتبہ، تحریکوں کے نتیجے میں پاکستان انتشار، سیاسی عدمِ استحکام یا ہمہ جہتی بحران کا نشانہ بنا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں، ایوب خان کے خلاف اُٹھنے والی تحریک نے معمولات حیات درہم برہم کر دئیے۔ سب تدبیریں الٹی ہو گئیں تو فیلڈ مارشل نے اپنا آئین، کوڑے دان میں پھینکا اور جان کی امان کی خاطر کمان جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے گھر چلا گیا۔ سیاسی عدم استحکام اور منہ زور بحران کی دوسری واضح مثال 1970 کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں سر اُٹھانے والی منہ زور تحریک تھی جس نے نصف پاکستان کی رگ جاں دبوچ لی اور پھر اُس کی فصیل پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔ تیسری بڑی تحریک 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے عنوان سے اٹھی اور ملک کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی، ’تحریک نظام مصطفیؐ‘ کے سانچے میں ڈھل گئی۔ حکومت کے اعصاب جواب دینے لگے۔ چار شہروں میں مارشل لا نافذ کرنے کے باوجود ملک گیر احتجاج کو نکیل نہ ڈالی جا سکی۔ اس ہمہ جہتی سیاسی عدمِ استحکام کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ملک پر فوجی حکمرانی کی طویل شب سیاہ مسلط ہو گئی۔ چوتھی بڑی تحریک نے آزادی عدلیہ کے پرچم تلے بال وپر نکالے جب طاقت کے نشے میں چور جنرل مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر کے عدلیہ کو غلام بنانے کی کوشش کی۔
اِس تحریک نے مشرف کو ناتواں کر کے رکھ دیا اور پھر وہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بالعموم یہ تحریکیں بے ثمر رہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1970 کے انتخابات کے بعد نئے انداز سے اُبھری تو پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1977 کی تحریک طویل مارشل لا پر منتج ہوئی۔ ’’تحریک آزادی عدلیہ‘‘ نے مشرف کی وردی تو اُتار دی لیکن خود عدلیہ کی کلغی میں اتنے مور پنکھ ٹانک گئی کہ وہ آج تک ریاست کے دو دیگر ستونوں، مقننہ اور انتظامیہ کو برتن مانجھنے اور پوچا لگانے والی کنیزیں سمجھتی ہے۔

الحمدللہ! پاکستان نہ عدمِ استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست، مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی وارداتیں مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ شورش اور بدامنی کی اس لہر پر قابو پانے کے لیے مؤثر کردار متعلقہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ اسے سیاسی عدم استحکام کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا سیاپا کرنے والوں کا ’آزادی عدلیہ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اُن کا اصل دُکھ یہ ہے کہ اِس سو فی صد آئینی پیش رفت نے، کونوں کھدروں میں چھپے اُن مہم جوئوں کو بے بس کر دیا ہے جو ’عدمِ استحکام‘ کی فصل کاشت کرنے جا رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی آنکھوں میں سجے، ’عدمِ استحکام‘ کے خوابِ خوش رنگ کو تعبیر میں ڈھالنے کے لیے راستہ فقط ایک ہی تھا کہ وہ 1977 والے قومی اتحاد کی طرح، اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتی۔ اب وہ گئے وقت کو واپس نہیں لاسکتی اور آنے والے وقت کا ہر لمحہ، حسرتِ ناتمام کے نوحے کے سوا کچھ نہیں۔ سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لیے، سفید و سُرمئی کبوتروں کی ڈاریں، کوئی معجزہ رقم کر سکتی ہیں نہ سیکڑوں صفحات پر مشتمل کوئی’’ڈوزئیر‘‘ عدمِ استحکام کا صُور پھونک سکتا ہے۔
رہا مسیحائے شرق و غرب ’ڈونلڈ ٹرمپ‘، تو فی الحال غزہ کے آتشکدے کی راکھ سے اپنے بچوں کی ہڈیاں چُننے والے فلسطینیوں کو اپنے آبائو اجداد کی سرزمین سے نکالنا اُس کی ترجیح اوّل ہے۔ اِس سے فارغ ہو کر شاید اُسے اڈیالہ جیل سے کسی کو نکالنے کا خیال بھی آ جائے۔

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا فیصلہ
  • آرمی چیف کے دورۂ پر سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کیخلاف کارروائی کا اعلان
  • عید کے بعد احتجاجی تحریک
  • سندھ میں ڈاکو راج کیخلاف عوامی تحریک کی احتجاجی ریلی
  • تحریک انصاف کا عیدالفطر کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ
  • گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر
  • سیاسی سروے 2024-2025: پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی، مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں اضافہ
  • ’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!
  • لاہور: پنجاب اسمبلی کے باہر تحریک انصاف کے ارکان عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں
  • فواد چودھری نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کو دو ٹکے کی قرار دیدیا