Express News:
2025-02-20@19:42:57 GMT

 سیاسی شعور سے عاری طلبہ ۔۔۔ روبوٹک مزدوروں کی افزائش

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

نوآبادیاتی معاشروں میں ’’سیاسی آزادی‘‘ پر قدغن کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ نہ صرف معمول کا ہی حصہ سمجھی جاتی ہے بلکہ اپنا تاریخی تسلسل بھی رکھتی ہے، کیوںکہ ایسے معاشروں کی کُل تاریخ سیاسی آزادی پر قدغن اور پابندیوں کا ہی شاخسانہ ہے۔ پاکستان بھی جو برطانوی استعمار سے آزاد ہوکر (کچھ لوگوں کی رائے البتہ مختلف ہے) دنیا کے نقشے پر ابھرا، ایسے ہی المیے کا شکار رہا ہے۔

پہلے انگریزوں کی پابندیاں تھیں اور ’’ہندوستان‘‘ غلام تھا، بعد میں ان کے ہم نواؤں نے ا نہیں کے ’’چلن‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے یہ سلسلہ جاری رکھا، جو اب تک بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں ’’پیکا ایکٹ‘‘ کی حالیہ ترمیم اس دعوے کی صداقت کے لیے کافی ہے۔ اس مضمون میں طلبہ کی سیاسی تاریخ کو محض بیان کردینے سے گریز کیا گیا ہے اور یہ ’تجزیہ‘ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جامعات، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی صورت حال کیا ہے۔

طلبہ کی کثیر تعداد کیوں ’’غیرسیاسی رویوں‘‘ کا شکار ہے؟ اور کیوں طلبہ کے اندر ’’غیرجمہوری بیانیے‘‘ مقبول ہورہے ہیں؟
ایسے معاشروں کی فہرست میں جہاں جمہوریت کی حیثیت کسی ’’عبوری تجربے‘‘ سے زیادہ نہیں ہے ، ان میں پاکستان سرفہرست ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری رویوںو اقدار کے پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول ہی پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان کا ’’اقتدار‘‘ ایسے سیاست دانوں پر مشتمل رہا ہے جو سیاسی بالیدگی اور پختگی سے یکسر نابلد تھے۔

ایسے میں جب خالصتاً سیاست داں بھی کوئی کام نہ آسکیں تو پھر جاگیرداروں، نوابوں اور سرمایہ داروں سے ’’سیاسی قیادت‘‘ کی امید رکھنا عبث ہے، بلکہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ وطن عزیز کی ابتدائی برسوں کی تاریخ دراصل پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی ہی تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی باگ ڈور ایسے سیاسی نابلدوں کے ہاتھ میں رہی ہے جنہوں نے ازخود اپنی نااہلیوں اور ناکامیوں کے سبب سول افسرشاہی کے لیے اقتدار پر قبضہ جمانے کی راہ ہموار کی ہے۔

 سول افسرشاہی کی اقتدار پر قبضے کی ابتدا ملک کے تیسرے گورنرجنرل غلام محمد سے ہوتی ہے، جب ان کی جانب سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر کے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ البتہ، سول افسر شاہی کا اقتدار دیرپا ثابت نہ ہوسکا اور ’’مارشل لا‘‘ کی نذر ہوگیا۔ سول افسر شاہی کا اقتدار اسکندر مرزا کی گورنر جنرلی کے زمانے میں عروج کو پہنچا جب کہ اس عروج کو زوال کی طرف خود اسکندر مرزا نے ہی دھکیلا جب انہوں نے آرمی چیف ایوب خان کے ذریعے مارشل لا کا اعلان کیا اور فیروزخان نون کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

یوں اسکندر مرزا نے ’اعلانیہ‘‘ فوجی افسرشاہی کو اقتدار کی راہ دکھائی۔ یہاں کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے کہ تاریخ کو محض ’’شخصیات‘‘ تک محدود کردینا اور سیاسی، اقتصادی و سماجی پہلوؤں اور تبدیلیوں کو نظرانداز کردینا، تاریخ کو مسخ کردینا ہے، تو یہاں صرف یہی کہنا چاہوں گا کہ مضمون کے موضوع کی مناسبت سے سیاسی، اقتصادی و سماجی پہلوؤں اور تبدیلیوں پر تجزیہ کرنا تو کجا انہیں بیان کرنا بھی محال ہے۔

بہرحال یوں سول و فوجی افسر شاہی (جس میں فوجی افسرشاہی کا غلبہ ہے) کی اقلیم نے ملکی اقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کیا۔ اس غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ کی اقتدار پر گرفت کے ہی سبب پاکستانی سماج میں جمہوری رویوں کا کال دکھائی دیتا ہے اور سیاست جمہوری اقدار سے خالی نظر آتی ہے۔ پے در پے لگتے مارشل لا اور آمریتوں کے دامن میں پنپتی جمہوریت نے سیاسی شعور کی ناپختگی کو مزید وسعت بخشی ہے۔ غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ (یا جسے اسٹیبلشمنٹ بھی کہا جاسکتا ہے) کی سرپرستی میں سیاسی شعور کو کچلنے کی مسلسل اور مستقل کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ دانش وروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور طلبہ کو جیلوں میں ٹھونسا گیا، عقوبت خانے سجائے گئے، اخبارات پر پابندیاں عائد کی گئیں اور مزدور یونینوں، طلبہ تنظیموں کو شجرہ ٔممنوعہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

ایسے میں ارباب اختیار کی جانب سے سیاسی شعور کو دبانے کی سب سے بڑی کوشش ’’طلبہ یونین‘‘ پر پابندی ہے۔ وہ طلبہ یونین جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں ـ ’’نرسری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے ملک کی سیاسی قیادت جنم لیتی ہے۔ طلبہ یونین کی پابندی سے قوم کے اجتماعی سیاسی شعور کو شدیدترین نقصان پہنچتا ہے یہ نقصان اس قدر شدید تر ہے کہ اس سے پیدا ہونے والے بحران کے حل کے لیے ’غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی آل و اولاد پر انحصار کرتی ہے یا مجبوراً کھیل کے میدانوں کو کھنگالتی ہے اور ’’مسیحا ‘‘تراش لاتی ہے۔ عہدقدیم سے ہی مسیحا تراشنے کا عمل استبدادی قوتوں کا وتیرہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ بھی ان ہی مشاغل سے بھر پور ہے۔ نام نہاد عوامی قائدین کی فہرست طویل ہے۔ اس فہرست میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے سیاسی جد کو اعلانیہ ’’ڈیڈی‘‘ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ 

طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ طلبہ کے سیاسی کردار سے تعلیم و تدریس کے معیار میں ابتری ہورہی ہے جس سے قوم و ملک کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جب کہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کو 40 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود ملک بھر میں تعلیمی صورت حال زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اور صرف تعلیمی صورت حال ہی زوال پذیر نہیں ہے بلکہ اخلاقی و سماجی پہلوؤں کا بھی برا حال ہے، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں غنڈا گردی، نشے کا استعمال، ہراسانی اور دیگر جرائم کا ارتکاب معمول بن چکا ہے۔

تعلیمی اداروں میں بڑی طلبہ تنظیمیں ’’مافیا‘‘ کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں، جو چھوٹی تنظیموں پراپنی دھونس جماتی ہیں۔ یہ دھونس صرف چھوٹی اور کم زور تنظیموں کا ہی مقدر نہیں ہوتا بلکہ عام طلبہ جو اسی’’ رویے‘‘ کے ہی سبب سیاست سے کنارہ کش رہتے ہیں، ان کو بھی جھیلنی پڑتی ہے۔

جامعات کے اندر طالبات کی جنسی ہراسانی کی خبریں بھی معمول کی بات ہوچکی ہیں۔ گذشتہ برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھے جائیں تو صورت حال کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔ بعض جگہوں پر استادوں کے بھیس میں جنسی درندے برا جمان ہیں جب کہ ایسے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی بے حس نظر آتی ہے۔ ایسا ہے کہ بعض ا داروں میں تو انتظامیہ خود ہی ’’مافیا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طلبہ یونین کے عدم وجود اور طلبہ سیاست پر ’’غیراعلانیہ ‘‘ پابندی کے سبب طلبا اپنے حقوق سے غافل ہیں اور انتظامیہ کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں جو انہیں لوٹنے، کھسوٹنے اور اپنی جباریت کے اظہار کے لیے متحرک ہے۔

بہر حال، مضمون طویل ہورہا ہے تو سطورِ بالا میں پوچھے گئے سوالات کا جواب پیش کرنا مناسب ہوگا۔ طلبہ کی کثیر تعداد کیوں ’’غیرسیاسی رویوں‘‘ کا شکار ہے؟ اس کی صریحاً ذمے داری ہمارے تعلیمی نظام پر ہے جو ’’عالمی نیولبر ل ازم‘‘ کے زیراثر پورے سماج کو ہی غیرسیاسی رویوں کی جانب دھکیل رہا ہے۔

کارپوریٹ سام راج کے سائے میں پلتے تعلیمی ادارے ایسی ’’معیاری تعلیم‘‘ فراہم کررہے ہیں کہ جو ’’وائٹ کالر روبو ٹک مزدور‘‘ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کررہی۔ عالمی استعمار کے زیرتسلط سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں نیولبرل ازم کا بھرپور پرچار کیا جارہے جس کی ابتدا غیرسیاسی رویوں کے جڑ پکڑنے اور انجام طلباء کا اپنے حقوق سے بیگانگی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ریاست بھی اپنی تمام مشینری کے ساتھ عالمی ایجنڈوں کو بروئے کار لانے میں پیش پیش ہے، اور استعماری قوتوں کی ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔

یہ سوال کہ طلبہ کے اندر ’’غیرجمہوری بیانیے‘‘ کیوں مقبول ہورہے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی تاریخی تسلسل میں سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ’’مردانِ آہن‘‘ کی آمریتوں کی داستان ہے، جنہوں نے اپنے خودساختہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جمہوری روایات و اقدار کا گلا گھونٹا ہے۔ بنیادی جمہوریت کے نظام سے لے کر اسلامی سوشلزم تک اور اسلامی جمہوریت سے اسلامی جدیدیت تک، آمروں نے’’ نظریات‘‘ کا سہارا لے کر نظریات سے عاری سیاست کو فروغ دیا ہے۔

غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ نے اپنے ’’لاڈلوں‘‘ کو مسندِاقتدار پر بٹھانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔ ریاست کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال نوجوانوں میں ایسے بیانیوں کو فروغ دینے میں ہوا ہے جو آمرانہ و پاپولسٹ طرزِسیاست کی طرف ابھارتے ہیں۔ ایسے میں طلبہ کے اندر غیرجمہوری بیانیوں کی مقبولیت پر تشویش کا اظہار خود اپنی ہی لاعلمی کا اعلان ہے۔

سطورِ بالا سے طلبہ کی سیاسی صورت حال کو سمجھنے میں کچھ حد تک مدد ملتی ہے اور مرض کی تشخیص کرکے ’’علاج‘‘ کی جانب بھی بڑھا جاسکتا ہے۔ پہلے ضروری ہے کہ مرض کی بہتر طور پر تشخیص کرلی جائے تاکہ کارگر و مفید علاج کی جانب بڑھا جاسکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غیرجمہوری ہیئت مقتدرہ تعلیمی اداروں میں غیرسیاسی رویوں سیاسی شعور طلبہ یونین پر پابندی کی سیاسی کی حیثیت صورت حال کے اندر کا شکار طلبہ کے کی جانب طلبہ کی ہے اور کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

شہر اقتدار میں ترقیاتی کام دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے: وزیراعظم

ویب ڈیسک:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ شہر اقتدار میں ترقیاتی کام دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔

 صدر رجب طیب اردوان انٹرچینج (ایف 8 اسلام آباد) کے فعال ہونے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جناح سکوائر کے بعد ایک اور شاندار عوامی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا، اسلام آباد کیلئے یہ انتہائی اہم منصوبہ ہے، اس منصوبے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو سہولت ہوگی۔

گھریلو ملازمہ سے زیادتی ، ملزم گرفتار

 انہوں نے کہا کہ شہر اقتدار میں ترقیاتی کام دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی کی سپیڈ اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، قلیل مدت میں منصوبے کی تکمیل لائق تحسین ہے، اس منصوبے سے انڈرپاسز اور یوٹرنز بنائے گئے ہیں۔

  

متعلقہ مضامین

  • صرف 45 منٹ کیلئے ملک کا صدر بننے والی شخصیت کون؟
  • تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات
  • پیپلز پارٹی نے 17سال میں شہر کا انفرا اسٹرکچر ہی نہیں تعلیم کو بھی تباہ کیا‘منعم ظفر خان
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کا انفرا اسٹرکچر ہی نہیں تعلیم بھی تباہ کردی: منعم ظفر خان
  • یونیورسٹی آف میرپورخاص میں کلاسزمیں طلبہ کے بیٹھنے کیلیے مناسب کرسیاںتک موجود نہیں،عبدالرحیم خان
  • عارف والا؛ تین طلبہ ڈوبے نہیں تھے، قتل کا انکشاف
  • شہر اقتدار میں ترقیاتی کام دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے: وزیراعظم
  • جس طرح ہم ملک چلا رہے ہیں ایسے تو پرچون کی دکان بھی نہیں چلتی: مصدق ملک
  • جس طرح ہم ملک چلا رہے ہیں ایسے تو پرچون کی دکان بھی نہیں چلتی، مصدق ملک
  • کراچی کاتعلیمی نظام بہتر کرنا چاہتے ہیں‘ڈپٹی میئر