پاکستان میں پانی کی طلب میں 60 فیصد اضافے کا امکان، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد: عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں غیر زرعی مقاصد کے لیے پانی کے استعمال میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق پاکستان میں پانی کی طلب میں اضافے کی وجوہات سامنے آگئیں ہیں، پاکستان کی سالانہ شرح نمو 4.9 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے، 2047 تک درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کا خدشہ ہے، پانی کی طلب میں 60 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے،درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پانی کا 15 فیصد زیادہ استعمال ہوگا۔
???? آئندہ 30 سالوں میں غیر زرعی پانی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبپاشی کے 10 فیصد پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی، عالمی بینک کی “کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک 2026-35” نامی دستاویز کے مطابق غذائی تحفظ پر سمجھوتہ کیے بغیر پانی کے استعمال کو متوازن رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
اس کے لیےپانی کے تحفظ کی حوصلہ افزائی ضروری ہوگی، زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا،پانی پر مبنی فصلوں (واٹر انٹینسیو کراپس) سے دوری اختیار کرنا ہوگی، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں زراعت اور پانی کے بہتر انتظام کے لیے اصلاحات درکار ہوں گی۔
ورلڈ بینک کا منصوبہ: پانی اور زراعت میں بہتری کے اقدامات
????پنجاب میں زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی، سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انفرااسٹرکچر مضبوط کیا جائے گا، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC) زرعی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پانی کی طلب پانی کے
پڑھیں:
ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا آئی ٹی پالیسی کے غلط استعمال کا انکشاف
اسلام آباد:سینیٹر انوشے رحمان کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل مل مالکان حال ہی میں لگائے گئے 29 فیصد انکم ٹیکس سے بچنے کیلیے اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ کے طور پر رجسٹر کرا رہے ہیں۔
بدھ کو سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرمملکت سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹس کو بڑھانے کیلیے کم کیے گئے 0.25 فیصد انکم ٹیکس کی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، کمیٹی کا اجلاس پی پی پی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں ہوا۔
واضح رہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس پر 29 انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجیکل ایکسپورٹ پر ابھی بھی ٹیکس کی شرح 0.25 فیصد ہے جبکہ آئی ٹی خدمات کی ایکسپورٹ پر ٹیکس کی شرح 1 فیصد ہے۔
اجلاس میں شریک چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کمیٹی کو معاملے کی تحقیق کرنے کی یقین دہانی کرائی، واضح رہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران آئی ٹی ایکسپورٹ 28 فیصد اضافے کے ساتھ 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ حکومت کی جانب سے بار بار انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ماہرین آئی ٹی ایکسپورٹ میں کمی کی پیشگوئیاں کر رہے تھے۔
اس تناظر میں آئی ٹی ایکسپورٹ میں اس تیز رفتار اضافے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، سینیٹ کو پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق جنوری میں 652 آئی ٹی کمپنیاں رجسٹرڈ کی گئی ہیں، جو کہ گزشتہ ماہ رجسٹر کی گئی نئی کمپنیوں کا 20 فیصد بنتی ہیں، سینیٹر انوشے رحمان کو ان تفصیلات سے آئی ٹی انڈسٹری نے آگاہ کیا ہے۔
آئی ٹی انڈسٹری نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح آئی ٹی انڈسٹری کا غیر حقیقی پھیلائو ہوگا، جس کی وجہ سے حکومت انکم ٹیکس میں دی گئی رعایت کو ختم بھی کرسکتی ہے،
آئی ٹی انڈسٹری کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جون کے بعد رجسٹر ہونے والی کمپنیوں نے کافی عرصے سے رجسٹرڈ کمپنیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ایکسپورٹ کی ہے، یہ بھی تشویش کی ایک وجہ ہے، اور اس سے بے ضابطگیوں کا اظہار ہوتا ہے۔