پاکستان میں ’ایف ایم‘ ریڈیو نشریات کے 30 برس!
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اگر یہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے ہوش ریڈیو کی سنگت میں ہی سنبھالا۔ جب ہمارے ملک میں ’ایف ایم‘ نے تو جنم نہیں لیا تھا، لیکن ہمارے گھر میں بہت اہتمام سے ’ریڈیو پاکستان‘ سے ہر جمعے کی صبح ’بچوں کی دنیا‘ سنوایا جاتا تھا۔
کبھی کبھی صبح ساڑھے سات بجے کے خبرنامے کے بعد پانچ منٹ کا تجزیہ ’پس منظر‘ بھی سنا جاتا۔ ہفتہ وار تعطیل جمعے کی رات کو ’ریڈیو ڈرامے‘ کا بھی شغف رہا اور کبھی کراچی کے حالات نے زیادہ انگڑائی لی، تو ساڑھے دس بجے ’بی بی سی‘ اردو کا ’شب نامہ‘ اور رات آٹھ بجے کا ’سیربین‘ سننے کا بھی سلسلہ رہتا۔ چند ایک بار اتوار کو کبھی فرصت کے دنوں میں ریڈیو کی سوئی پھِرا کر کبھی ’حیدرآباد (دکن)‘ سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات سے بچوں کے پروگرام بھی سنے اور ہاں رمضان المبارک کی راتوں میں ریڈیو کا اینٹینا ٹیڑھا کر کے کبھی ’سعودیہ‘ لگا کر تراویح سننے یا یہ صرف یہ جاننے کا سلسلہ بھی یادوں میں ہے کہ وہاں چاند ہوا یا نہیں۔
1990ء کی دہائی میں ہمارے ریڈیو سے اس تعلق کا سبب یہ تھا کہ ہماری امی بچوں کی تعلیم وتربیت کے واسطے ’ٹی وی‘ کو اچھا خاصا مضر خیال کرتیں، تبھی متبادل کے طور پر انھوں نے ہمیں ریڈیو اور ’ٹیپ ریکارڈر‘ پر کہانیوں اور نظموں سے زیادہ جوڑے رکھنے کی کوشش کی، پھر بچوں کے رسائل سے روشناس کرا دیا۔ اسی عرصے میں ’ایف ایم‘ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جس پر بالکل صاف آواز میں ایک چینل بھی سنائی دیا، جہاں صرف انگریزی موسیقی ہوتی۔ اندازہ ہے کہ یہ ایف ایم 100 کی آزمائشی نشریات رہی ہوں گی، پتا چلا یہ بھی ایک ریڈیو چینل ہے۔ جو اب آواز کی دنیا کا ایک بہت بڑا انقلاب بننے والا تھا۔
ایف ایم 100 کی آزمائشی نشریات کے زمانے میں شام کو آدھے گھنٹے کے لیے اس پر آصف غزالی کی آواز سنائی دیتی، جو معلومات عامہ کے کسی سوال کا جواب براہ راست ٹیلی فون کال پر لیتے تھے۔ ایک دن سوال بتاتے، جس کا اگلی شام جواب لیا جاتا اور شاید پھر اس پر کوئی انعام وغیرہ بھی ہوتا۔ پھر باقاعدہ ’ایف ایم 100‘ شروع ہوگیا اور ایک دنیا اس کی اسیر ہوتی ہی چلی گئی۔ اس میں بغیر کسی شور کے بالکل واضح آواز کیا کوئی کم تبدیلی تھی کہ اس میں سامعین کو براہ راست ٹیلی فون کال کرنے کی سہولت بھی دے دی گئی۔
ابھی نجی ذرایع اِبلاغ میں صرف ’این ٹی ایم‘ جیسا ایک نیم آزاد سا ’تفریحی ٹی وی‘ ہی موجود تھا، جو فقط شام کو چند گھنٹوں کے لیے ہوتا، لیکن ’ایف ایم 100‘ نے یہاں تیسری جست یہ بھی لگائی تھی کہ اول دن سے ہی 24 گھنٹے کی نشریات جاری رکھیں، جس میں لوگوں سے ٹیلی فون کال پر ہلکے پھلکے مختلف موضوعات پر بات چیت بھی ہوتی۔
سامعین کو ’’ایک سو گیارہ، ایک سوگیارہ، ایک سو‘‘ ملاتے ملاتے زمانے گزر جاتے، ان کی انگلیاں گھس جاتیں، ٹیلی فون کا ڈائل اٹک جاتا یا اس کے بٹن جواب دے جاتے، لیکن اس وقت ’ایف ایم‘ پر کال ملانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا اور ’کال‘ مل بھی جائے تو بہت ہی مختصر بات کی جاتی تھی، اس میں بھی گھر کے مختلف لوگ بات کرنا چاہتے تھے، لیکن ٹیلی فون کالوں کی ایک طویل قطار ہوتی، اس لیے زیادہ وقت نہیں دیا جاتا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ذرائع اِبلاغ کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے ریڈیو کو ٹی وی کی مقبولیت نے بہت دھچکا پہنچایا، یہاں تک کہ اِسے مردہ سمجھ لیا گیا تھا، لیکن ’ایف ایم‘ کی آمد نے ریڈیو کو گویا ایک نئی زندگی دے دی۔ ایف ایم 100 اعلانیہ طور پر ایک تفریحی اور موسیقی کا چینل تھا، جس پر اکثر ’پاپ‘ گانوں ہی کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی لوگوں کی ٹیلی فون کالیں بھی شامل ہوتیں، تب بھی ہر دو، تین کالوں کے بعد ایک گانا ضرور سنایا جاتا۔ اس لیے لوگ مختلف گانوں کی فرمائشیں بھی کرتے رہتے۔
یہ سب پاکستانی گانے ہوتے، ہندوستانی موسیقی چلنے کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا، بس رات 10بجے سے 12 بجے تک جنید ممتاز کے پروگرام میں بلند آہنگ مغربی موسیقی سنائی دیتی یا پھر کافی بعد میں جا کر کچھ تبدیلی لانے کی خاطر عربی، فارسی، ہسپانوی اور دنیا کی دیگر زبانوں کے گانوں کا پروگرام بھی کیا گیا۔
’ایف ایم‘ کے ان پروگراموں کی ترتیب، عنوان اور ان کے ’پریزینٹر‘ آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں، پہلے صبح سات بجے سے نو بجے تک اکبر شہباز کا ’مارننگ شو‘ ہوتا، جس میں وہ مختلف سروے اور تحقیقی رپورٹ وغیرہ شامل کرتے۔ صبح نو سے 10 راحت فردوس کا ’آپ کی باتیں اور مشورے‘ میں زیادہ تر گھر داری، باورچی خانے اور گھریلو ٹوٹکے وغیرہ جیسی چیزیں ہوتیں، دوپہر 12 سے دو بجے تک ’لنچ ٹائم اسپیشل‘ میں اکثر فلمی اور کلاسیکی گانے سنائے جاتے، اس میں بہت عرصے تک ذیشان احمد رہے، پھر انھی کی جیسی آواز والے ان کے بھائی فرخ خان نے بھی اس پروگرام سے خوب مقبولیت پائی، پھر شاید دو سے پانچ تک نزہت حسین ہوتی تھیں، جن کی آواز اپنی بہن راحت فردوس سے ممیز کرنا اچھا خاصا مشکل ہوتا۔ پانچ کے بعد آٹھ بجے تک ’ڈرائیو ٹائم شو‘ ہوتا تھا، جس میں شروع میں فائزہ شکیل خان ہوتی تھیں، پھر ایاز عمر رہے، آٹھ بجے سے 10 بجے تک شروعات میں تو ثروت رحمٰن کا عام پروگرام ہوتا تھا، لیکن بعد میں یہاں ’ٹاک شو‘ شروع ہوا، جس کی شروعات اکبر شہباز نے کی، پھر ہفتے میں کچھ دن کوثر آصف، روبی سلیم اور شاید خلیل اللہ فاروقی نے بھی یہ پروگرام کیا۔
اس کے بعد خالد زبیری بھی یہ پروگرام کرنے لگے اور پھر بعد میں مظفر احمد نے خاصے طویل عرصے تک مسلسل اس پروگرام کو نبھایا۔ یہ پروگرام کسی سنجیدہ موضوع پر سامعین کی ٹیلی فون کالوں پر مشتمل ہوتا تھا اور اس پروگرام کا تعارف یہی کہہ کر کرایا گیا تھا کہ اس میں آپ طویل گفتگو بھی کر سکتے ہیں، کیوں کہ سامعین کو یہ شکایت ہوتی تھی کہ اتنی مشکل سے تو کال ملتی ہے، لیکن زیادہ دیر بات نہیں کی جاتی، یوں شروع کے پروگراموں میں ایک کال 15 سے 20 منٹ تک کی بھی ہوئی، لیکن پھر دھیرے دھیرے چار پانچ منٹ تک سمٹتی چلی گئیں، اس کے بعد رات 12 سے صبح 4 بجے تک شاعری اور غزلوں کا پروگرام اجمل شوبی ، روبی درانی ، اور خلیل اللہ فاروقی کرتے ، پھر صبح 7 بجے تک تلاوت اور نعت وغیرہ سنائی جاتیں ۔
’ایف ایم‘ 100 پر عام طور پر ایک ہی پریزینٹر پروگرام کرتے تھے، لیکن خاص مذہبی اور قومی تہواروں پر مشترکہ پروگرام ہوتے، جس میں بہ یک وقت دو، تین میزبان محو گفتگو ہوتے، ان کے مکالموں اور نوک جھوک سے سامعین بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اگر آپ نے ایف ایم 100 سنا، تو شاید آپ کو بھی ان کا ’پی او بکس‘ نمبر 13028 آج بھی یاد ہوگا، لیکن یہاں کبھی باقاعدہ خطوط پڑھنے کا پروگرام نہیں ہوا۔
1995ء میں ’ایف ایم‘ 100 کے بعد 1998ء میں ریڈیو پاکستان کا ایف ایم 101 شروع ہوا، اس کے بعد 2003ء میں ایف ایم 107 اور پھر پے درپے مزید ’ایف ایم‘ چینلوں نے بھی کام شروع کردیا۔ ایک طرف جہاں ’ایف ایم‘ 100 کے متعارف کرائے گئے انداز ’السلام علیکم پاکستان‘ نے ہر خاص وعام میں مقبولیت حاصل کی، وہیں اس نام سے ان کا ایک ماہ نامہ بھی کافی مقبول رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں ہر بار ان کے کسی نہ کسی ریڈیو پریزینٹر کی تصاویر اور انٹرویو وغیرہ شایع ہوتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ دیوانہ وار اس میگزین کے لیے دوڑے چلے جاتے تھے کہ جنھیں وہ سنتے ہیں، انھیں دیکھیں تو سہی کہ کیسے لگتے ہیں؟
عام طور پر ’ایف ایم‘ کے پروگرام اسٹوڈیو سے ہوتے تھے، ان کے اسٹوڈیو کا پتا کبھی نہیں بتایا جاتا، تاہم اکثر شام کو ’ڈرائیو ٹائم شو‘ میں اکثر ایک پیٹرولیم کمپنی کے تعاون سے شہر کے کسی پیٹرول پمپ پر آنے والوں سے براہ راست گفتگو کی جاتی، اس کے لیے وہاں کوئی پریزینٹر موجود ہوتا۔ ایسے ہی پھر مختلف کمپنیاں اپنی تشہیر کے لیے ایسے ’روڈ شو‘ کرواتیں، جس میں تسلسل سے آنے والا پروگرام ’ٹیسوری جیولرز‘ کا تھا، جو شہر کی کسی بھی بڑی سُنار کی دکان سے شام کو براہ راست ہوتا تھا اور ایک پریزینٹر اسٹوڈیو سے ساتھ شامل ہوتا تھا۔
یوں تو مختلف گلوکاروں اور اداکاروں کے انٹرویو بھی ہوتے رہتے، لیکن مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق شخصیات کے انٹرویو کے لیے ’ایف ایم‘ 101 کا پروگرام ’میٹنگ پوائنٹ‘ قابل ذکر ہے، جو ہر بدھ کو سہ پہر چار سے پانچ سہ پہر نشر ہوتا، جس میں شہناز احد میزبان ہوتیں، انھوں نے یہاں محمود شام اور شفیع نقی جامعی سمیت مختلف مایہ ناز شخصیات کے انٹرویو کیے۔ ایسے ہی ’ایف ایم‘ 100 کی شوخ آوازوں کے درمیان سنجیدگی اور متانت کا پیکر خالد زبیری نے ’کام یاب پاکستانی‘ کے عنوان تلے بے شمار شخصیات کے انٹرویو کیے، جس میں فاطمہ ثریا بجیا، عبدالستار ایدھی وبلقیس ایدھی، نثار بزمی، مسعود احمد برکاتی اور شفیع نقی جامعی وغیرہ کے نام تو ہمیں آج بھی یاد ہیں۔ عبدالستار ایدھی سے براہ راست گفتگو کے دوران انھوں نے اچانک ایک وعدہ لے لیا تھا، جس پر شاید وہ خود بھی ہکا بکا رہ گئے تھے، کہ ’’آپ وعدہ کیجیے کہ جس دن آپ کو پتا چلے گا کہ خالد زبیری کا انتقال ہوگیا، تو آپ آئیں گے اور اپنی ٹوپی میرے اوپر رکھ دیں گے!‘‘ چارو ناچار ایدھی کو اس پر ہاں کہنا پڑا اور سننے والے اس اچنبھے پر ششدر رہ گئے تھے۔
’ایف ایم‘ 100 نے ایک پروگرام میں اپنے مختلف پریزینٹروں کے انٹرویو کا دل چسپ سلسلہ بھی شروع کیا، جسے بعد میں غالباً ’ایف ایم‘ 101 نے بھی اپنایا اور پھر دوسرے چینل کے پریزینٹروں کے انٹرویو بھی نشر کیے گئے۔ یہ ایک بڑا قدم تھا، ورنہ کہاں ایک چینل پر دوسرے چینل کا نام لینا بھی گوارا نہیں ہوتا تھا، پھر شاید ’107‘ پر یا کسی اور چینل نے بعد میں یہ بھی کیا کہ وہ اپنے پروگرام کے ساتھ پڑوسی ’ایف ایم‘ چینلوں کے پروگراموں کا بھی بتانے لگے کہ اس وقت فلاں چینل پر آپ کے ساتھ فلاں ہے اور فلاں چینل پر فلاں پریزینٹر موجود ہے۔
2002ء کے زمانے کے بعد سہ پہر تین سے پانچ ’ایف ایم‘ 100 نے بچوں کے حوالے سے روزانہ پروگرام شروع کیا، جس مین صرف ٹین ایج تک کے بچوں کی کالیں شامل ہوتیں، اس کے میزبان فیصل علی خان تھے، جو اب نجی ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ یہ ’ایف ایم‘ کے مقبول پریزینٹر ذیشان احمد اور فرخ خان کے چھوٹے بھائی تھے، بعد میں ان کی چھوٹی بہن سارہ خان نے بھی 18، 19برس کی عمر میں یہ پروگرام کیا۔ ایسے ہی نوجوانوں کے کیریئر اور ان میں چُھپی ہوئی مختلف صلاحیتوں کے حوالے سے خالد زبیری کا پروگرام ’یوتھ ٹائم‘ ہر جمعے کو آٹھ سے 10 بجے نشر ہوتا اور اتوار کی دوپہر بھی ایک گھنٹے کے لیے ہوتا تھا۔ ’یوتھ ٹائم‘ ہی میں وجیہ ثانی، صائمہ ظفر اور عمران سلیم جیسے ’نوجوان‘ شریک ہوتے تھے، جو بعد میں خود پریزینٹر بنے۔
’ایف ایم 100‘ نے یہ روایت بھی ڈالی تھی کہ ان کے یہاں سے پانچ وقت کی اذان نشر ہوتی، جس کے بعد دعا، اور پھر ایک نعت، قوالی اور ایک ملی نغمہ ہوتا، یوں ہر اذان کے بعد 20 منٹ یہ سلسلہ ہوتا تھا۔ محرم کے پہلے عشرے میں معمول کی نشریات معطل کر کے صرف تلاوت مع ترجمہ نشر ہوتی تھی اور غالباً روزانہ تین سپارے سنائے جاتے، اس طرح 10 دن میں قرآن پاک مکمل ہو جاتا۔ رمضان میں سحروافطار کی خصوصی نشریات ہوتیں۔
افطار کے بعد مسجد الحرام کی ریکارڈ شدہ تراویح نشر ہوتیں اور 10 بجے کے بعد معمول کی نشریات ہوتیں۔ رمضان میں خلیل اللہ فاروقی کی آواز میں ’شاہ نامۂ اسلام‘ بھی یہاں ایک عرصے تک جاری رہا، پھر ریڈیو ون ’ایف ایم‘ 91 سے منسلک ہوگئے، تو وہاں بھی سنائی دینے لگا۔ یہی نہیں خلیل اللہ فاروقی نے یہاں 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم سے قبل عمران خان کا انٹرویو بھی کیا، تب تک عمران خان جنرل پرویزمشرف کے پرزور حامی تھے۔
کچھ اور منفرد اور مقبول پروگراموں کا ذکر کیجیے، تو یوں تو اکثر سامعین سے گفتگو کے لیے مختلف موضوعات دیے جاتے تھے، لیکن کبھی کبھی کوئی سوال بھی پوچھ لیتے، جس کے درست جوابات پر انعامات دیے جاتے۔ ’ایف ایم‘ 100 سے ہر ہفتے کی صبح کوئی 10بجے کے قریب ایک گلو کا اسپانسر پروگرام بھی آیا، جس میں بتایا یہ جاتا کہ یہ ایسا پروگرام ہے کہ جس میں آپ نہیں بلکہ ہم کال کریں گے اور آپ کو صرف فون اٹھا کر ’ہیلو یھو‘ کہنا ہے، اس پر آپ کو انعام دیا جائے گا۔ نہ جانے اس میں کتنی کالیں طے شدہ ہوتی تھیں، کچھ کالر کہہ دیتے تھے اور باقی ظاہر ہے نہیں کہتے تھے، انھیں کیا پتا کہ انھیں کون کال کر رہا ہے۔
بہت سے اسپانسر بھی ایسے پروگرام کرواتے۔ سامعین کی فرمائشیں بھی چلتی رہتیں، لیکن روزانہ سہ پہر ڈھائی سے تین بجے پہلی بار ایک اسپانسر پروگرام میں کالرز کی فرمائش پر اسی وقت گانے سنائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے لیے کالر کا گانا گنگنانا شرط ہوتا۔ اس وقت ایک نیا صابن ’Camey‘ آیا، یہ پروگرام اس کی جانب سے ہوتا تھا، آدھے گھنٹے میں چار سے پانچ فرمائشیں ہی شامل ہو پاتیں، وہ بھی ادھورے گانوں کے بعد اشتہارات چلنے شروع ہو جاتے تھے، لیکن یہ ایک عرصے تک مقبول پروگرام رہا۔ پھر دیگر ایف ایم چینلوں نے بھی اس طرز کے پروگرام شروع کیے۔
سننے والوں کو لگتا کہ شاید ہاتھ کے ہاتھ ہی گانا نشر کر دیا گیا، لیکن وہ کالر سے بات کرنے سے پہلے ہی اس کا مطلوبہ گانا پوچھ کر نکال لیتے تھے۔ کرکٹ میچ کے زمانے میں ہر تھوڑی دیر بعد میچ کی خبریں عتیق صاحب سناتے اور اتوار کو سہ پہر تین سے چار بجے ڈاکٹر بزمی انعام کی میزبانی میں مختلف ماہرین صحت اور ڈاکٹر آتے، جہاں لوگ مختلف بیماریوں کے حوالے سے راہ نمائی پاتے۔
’ایف ایم‘ 105 پر رات 12 بجے کے بعد منہاج علی عسکری نے ایک ’ہارر شو‘ بھی شروع کیا۔ ایف ایم 101 پر ہر جمعے کو سہ پہر تین بجے نشر ’پولیس ہیلپ لائن‘ ہوتا تھا، جس میں پولیس کے مختلف اعلیٰ افسران لوگوں کی شکایات سنتے تھے۔ 101ہر جمعے کی شام پانچ یا چھے بجے فرضی کرداروں سے آراستہ ایک منفرد پروگرام ’’پیبلو پیبلز شو‘‘ نشر ہوتا، جس کی میزبان ’جیو‘ کی ابتدائی ’خبرخواں‘ بننے والی ندا تہذیب ہوتی تھیں۔
ہر اتوار کی رات 10 سے 12 کے درمیان ایف ایم 101 سے عنبرین حسیب عنبر کی لکھی گئی گیتوں بھری کہانی نشر ہوتی تھی، جس میں پریزینٹر عاصم بشیر کہانی سناتے اور اس میں کہانی کی مناسبت سے مختلف گیت شامل کیے جاتے۔ ایف ایم 106.
ایسے ہی کم از کم دو سے تین ایف ایم چینلوں پر مختلف مواقع پر رات 12 بجے سے دو بجے تک مانی اور اظفر کا شو بھی خاصا موضوع بحث رہا، جس کی انفرادیت مختلف موضوعات پر ان دونوں کی بے تکلف اور بے باک گفتگو ہوتی، لیکن یہ زیادہ عرصے نہ چل سکا، کیوں کہ کالروں سے گفتگو میں وہ کچھ تہذیب سے گرجاتے، بلکہ کبھی تو یہ گفتگو عامیانہ پن کے زمرے میں داخل ہوجاتی، جس پر دیگر پروگراموں میں سامعین شکایت بھی کرتے تھے۔
’ایف ایم ‘ پر گونجنے والی کچھ معروف آوازیں
’ایف ایم‘ کی صنعت کے نمایاں میزبانوں میں اسلامیہ آرٹس کامرس کالج میں لاہور سے آنے والی ناہید سعید کو دیکھا، وہ وہاں فلسفہ پڑھانے آئی تھیں، 2008ء کے آخر میں خالد زبیری سے کلفٹن میں ان کے دفتر میں باقاعدہ ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد عاطف توقیر، مستقیم غوری، انیس منصوری کو اپنی یونیورسٹی میں دیکھا۔ صحافتی ذمہ ادا کرتے ہوئے ممتاز صداکار بدر رضوان، رفیع الزماں الزبیری، شفیع نقی جامعی اور ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی جیسی نمایاں شخصیات سے انٹرویو کا اعزاز ملا۔ ’بی بی سی‘ اردو سے وابستہ رہنے والی منفرد آوازیں رضا علی عابدی، ماہ پارہ صفدر، نعیمہ احمد مہجور ہماری ’فیس بک‘ پر ساجھے دار بن سکیں۔ فیس بک پر شامل ملک میں ’ایف ایم‘ کے پریزینٹروں میں رضوان زیدی، اجمل شوبی، شہناز احد، مظفر احمد، عاصم بشیر، رضوان زیدی، فرحین ملک، عاطف توقیر، شہلا خان، ناجیہ احمد، شارق محمود، مستقیم غوری اور اسما توحید وغیرہ شامل ہیں۔ بعد میں دیگر پروگرام کرنے والوں میں اعتصام الحق، ہدایت سائر، خرم سہیل، سنجیدہ ارشد، ڈاکٹر ثنا غوری، فہمینہ ارشد بھی ’فیس بک‘ پر ہمارے ساتھ ہیں۔
’ایف ایم‘ 100کے جن میزبانوں نے اس وقت کافی کام کیا، ان میں آصف غزالی، راحت فردوس، اکبر شہباز، نزہت حسین، ذیشان احمد، فائزہ شکیل خان، اجمل شوبی، ثروت رحمٰن، جنید ممتاز، عظیم رفیع، مظفر احمد، ڈاکٹر بزمی انعام، خلیل اللّہ فاروقی، روبی درانی، ثمن انصاری، ایاز عمر، فرخ خان، اظہر حسین، زینب امتیاز، فرح خان، فیصل علی خان، سارہ خان، طاہرہ نقوی، مشہود تبارک، ایس ایس افغان، محفوظ الحسن، محمد علی خان، ایاز احمد، شرف قیصر، کرسلا، خالد زبیری، کوثر آصف، عمران سلیم، ثروت حسنین، صائمہ ظفر، سردار خان، سمیحہ سیفی شامل ہیں۔ دیگر شہروں کی نشریات میں اعجاز قریشی ، ارم گیلانی اور طاہر نذیر کے نام حافظے میں ہیں۔
’ایف ایم‘ 101 کی بات کی جائے تو یہاں پر سیما رضا ردا، سفیان جی یوسفی، عدنان حسن سید، ندا تہذیب، عاصم بشیر، یحییٰ حسینی، شارق محمود، بلال شفیع، وجیہ سحر، تحریم فاطمہ، ارشد حسین، اطہر رضا اجنبی، بنیش حنیف، افشاں رحیم خان، محمد نقی، نثار میمن، ربیعہ اکرم، عاطف مظہر، شہناز احد، شہلا خان، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، ماریہ نورین، اسما توحید، ریحان اسعدی، عائشہ سحر ، ذیشان الحق خان وغیرہ آج بھی یادداشت میں ہیں۔
’ایف ایم‘ 107 پر شعرو ادب کے شناور عاطف توقیر، مستقیم غوری، شاہینہ عتیق، حماد اسمعٰیل، دانش سعید، نوشین رزاق، عفیفہ امین، زبیدہ طارق (زبیدہ آپا)، محمد علی شہکی، شاہد خواجہ، وقار الحسن، وجیہہ ثانی، عمر بنگش، ڈاکٹر فرید اللّہ صدیقی اور ایمن ہارون نمایاں رہے۔
’ایف ایم‘ 105پر رضوان زیدی، ملیحہ حق، تحریم منیبہ، فرحین ملک، سیدہ تحسین فاطمہ، ابو راشد، زین العابدین، منہاج علی عسکری، ہما کاشف وغیرہ کو نمایاں پایا۔ یہاں خبریں پڑھنے کے لیے وسیم صدیقی اور طلحہ صدیقی کی آوازیں بھی سماعت میں ہیں۔
’ایف ایم‘ 103پر ابھرنے والی نمایاں آوازیں عقیل ثمر، ساحر لودھی، ناجیہ احمد، حسنی نوید آفریدی، شعیب احمد، بصیر نوید، بلو بھائی، انیس منصوری، سیدہ مریم رضوی، مرینہ گُل، فیصل مسعود، ناہید سعید اور فضا احسن شامل ہیں۔ یہاں خبرنامے کے لیے محمد وسیم اور اظہار عاصمی کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
ہماری یادداشت میں محفوظ ’ایف ایم‘ کی ان 107آوازوں کے ساتھ ساتھ ماضی کے ممتاز کرکٹ کمنٹریٹر اور آج کے تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ کے علاوہ یوٹیوبر وقار ذکا، متیرا، مانی اور اظفر سے لے کر ’ڈینو‘ تک انھی مختلف ایف ایم چینلوں پر سنائی دیتے رہے ہیں۔ ایسے ہی ٹی وی پر دکھائی دینے سے بہت پہلے زبیدہ طارق ایف ایم 107 ہی پر مشہور ہو چکی تھیں۔
منفرد انداز
رات 10 سے 12 بجے ایف ایم 100 پر انگریزی پروگرام کرنے والے میزبان جنید ممتاز پروگرام کی شروعات ’’واٹس ایپ، واٹس ایپ، واٹس ایپ، واٹس ایپ۔۔۔ پاکستان۔۔۔۔!‘‘ کہتے ہوئے کرتے۔ ایسے ہی 101 پر شارق محمود کے پروگرام شروع کرنے کا اندازِ ’ہیلو کراچی‘ کہہ کر ہوتا، جو ایف ایم 100 کے ’السلام علیکم پاکستان‘ کی طرح کافی معروف ہوا۔ 101 سے روزانہ شام پانچ بجے ماہی گیروں کا پروگرام نشر ہوتا تھا، جس میں کافی عرصے تک ممتاز براڈ کاسٹر محمد نقی صاحب کو سنا گیا۔ وہ اس پروگرام کا اختتام کچھ اس طرح کرتے تھے کہ اسی دعا کے ساتھ اجازت دیجیے کہ ’’بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھانا بند کر دیں!‘‘
ایسے ہی ایف ایم 100 کے پریزینٹر اکبر شہباز اپنے پروگرام کے اختتام اس انگریزی فقرے پر کرتے: ’Keep your feet on the ground and keep reaching for the stars‘‘ ایسے ہی یہاں خالد زبیری کے پروگرام کا اختتامی جملہ ہوتا ’’جینے کی مہلت کتنی کم ملتی ہے، محبت کرنے کی اس سے بھی کم، اتنی وقت کی تنگی میں دشمن سے بھی نفرت کرنا عیاشی ہے!‘‘ محفوظ الحسن کہتے ’’مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت۔۔۔ میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں!‘
’’السلام علیکم لالو کھیت‘‘
ایف ایم 100 کے ’السلام علیکم پاکستان‘ کی مقبولیت کے جواب میں معروف مزاحیہ اداکار سلیم آفریدی نے ’السلام علیکم لالو کھیت‘ کے عنوان سے ایک پیروڈی ’ایف ایم ڈبلیو 11‘ سلسلہ شروع کیا، جو آڈیو کیسٹ کی صورت میں آیا اور چھا گیا۔ اس کا طنزو مزاح پر مبنی مواد اگرچہ کئی جگہوں پر معیار سے گرنے بھی لگتا تھا، لیکن مجموعی طور پر یہ ایک مقبول اور معیاری سلسلہ تھا، جس کے ہر کچھ دن کے بعد نئے نئے ’والیوم‘ آتے اور اس کی تعداد غالباً 2000ء کے زمانے تک 50 سے متجاوز کر گئی۔
اس میں ہوتا یہ تھا کہ عام طور پر آڈیو کیسٹ میں ایک سائیڈ پر پانچ گانوں کی گنجائش ہوتی تھی، یہ اس میں ایف ایم 100 کی فون کال کی طرح پیروڈی کالیں شامل کرتے اور اس کے بعد ایک مقبول انڈین گانا ہوتا اس طرح چار گانے اور چار کالیں اور پوری کیسٹ میں آٹھ کالیں اور آٹھ گانے شامل ہوتے تھے۔ ان مزاحیہ ٹیلی فون کالوں میں سلیم آفریدی کے ساتھ سکندر صنم اور ذاکر مستانہ وغیرہ بھی شامل ہوتے۔
خبرناموں کا سلسلہ
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ایف ایم 100 نے صبح کے وقت خبروں کے بلیٹن شروع کیے، اس میں صاحب اسلوب شاعر خلیل اللہ فاروقی خبریں پڑھتے، یہ چند دن ہی چل سکے۔ 2004ء کے زمانے میں جب ’ایف ایم‘ 103 آیا، تو اس پر ’بی بی سی‘ کے خبرنامے چلنے شروع ہوئے، جس پر اس وقت کے وزیراطلاعات شیخ رشید پیچھے پڑ گئے، انھوں نے کہا کہ ’ایف ایم‘ کا لائسنس انٹرٹینمنٹ کا ہے، میں اس پر خبریں نہیں چلنے دوں گا۔
پھر مقدمے بازی ہوئی اور ’بی بی سی‘ سے آنکھ مچولی کے بعد ’بی بی سی لندن‘ کے بہ جائے اُسے ’بی بی سی پاکستان‘ کہہ کر یہ سلسلہ کافی عرصے جاری رہا، بلکہ بی بی سی اردو کے مختلف پروگرام بھی یہاں سنائے گئے۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد ’بی بی سی‘ نے اپنا خصوصی پروگرام بھی مقامی ’ایف ایم‘ سے نشر کیا۔ ’بی بی سی‘ پاکستان بالکل ایسے ہی لگا جیسے 2016ء میں ’ایم کیو ایم‘ کو باقاعدہ ’پاکستان‘ کے لاحقے کے ساتھ پکارا جانے لگا اور دوسرا دھڑا ’ایم کیو ایم لندن‘ کہلایا۔ اس وقت بھی بہت سے ’ایف ایم‘ چینل اپنے خبرنامے نشر کر رہے ہیں، جب کہ کچھ دیگر نجی ٹی وی چینلوں کے خبرناموں ہی کو نشر کر دیتے ہیں۔
ایف ایم 107 کے انقلابات
یہ 2000ء کے زمانے کی بات ہے، جب ایف ایم 100 پر ایک میوزیکل کنسرٹ کا اشتہار چلا، جس میں بتایا گیا کہ فلاں فلاں جگہ پر موسیقی کی دنیا کا ایک دمکتا ستارہ لکی علی آرہا ہے اور پھر اس میں ان کے گانے کے صرف اتنے بول ’ایک پل کا جینا۔۔۔‘ سنایا جاتا۔ یہ اس وقت کے ماحول میں بہت اچنبھے کی بات تھی، کیوں کہ تب تک ایف ایم پر ہندوستانی موسیقی کا تصور سرے سے موجود ہی نہ تھا، تبھی ایک مستقل کالر مسز پروین آصف نے ہلکے پھلکے انداز میں ذکر بھی کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، لیکن 2003ء میں ایف ایم کی دنیا میں تیسری شمولیت ایف ایم 107 کی ہوئی، تو اس نے شروع ہی سے ہندوستانی موسیقی کا بگھار لگائے رکھا، جو بغیر کسی تعارف کے نشر ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ 107 نے ریڈیو ڈراموں کا سلسلہ بھی شروع کیا، لیکن یہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا۔ یہی نہیں یہاں کراچی کے حوالے سے مرکوز ہو کر ٹریفک کی خبریں، شہر کی سرگرمیوں پر بھرپور ارتکاز کیا گیا، جس کی مقبولیت ہونا فطری تھا، لہٰذا اس کے اثرات پھر دیگر چینلوں پر بھی دکھائی دیے۔
یہاں کبھی براہ راست کالیں شامل ہوتی نہیں دیکھیں، کہا جاتا ہے کہ شروعات میں ایک ناخوش گوار تجربے کے بعد اسے ترک کیا گیا۔ اس کے ایک پروگرام ’سنو کراچی‘ میں شہر کے مختلف مسائل پر تحقیقی رپورٹ نشر کی جاتی، ’برانڈ بولتا ہے‘ میں مختلف کمپنیوں کے ذمہ داران کے ساتھ گفتگو ہوتی، ایک اور کام یاب اور منفرد پروگرام رہا۔
ایسے ہی جب ’ایف ایم‘ 103 آیا، تو اس نے کسی خبری چینل کی طرح بیش تر پروگراموں کو حالات حاضرہ اور مختلف سماجی مسائل اور موضوعات کے خصوصی پروگرام ہوتے، لیکن پھر یہ سلسلہ سمٹ کر ایک آدھ پروگرام تک محدود ہوگیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: السلام علیکم پروگرام بھی کے حوالے سے ٹیلی فون کا کے پروگرام کے انٹرویو کا پروگرام خالد زبیری یہ پروگرام اس پروگرام اکبر شہباز سلسلہ بھی ایف ایم 107 ایف ایم 100 میں ریڈیو کی نشریات ہوتی تھیں براہ راست اس کے بعد انھوں نے شروع کیا کے زمانے نشر ہوتا نشر ہوتی ہوتی تھی کا سلسلہ بھی شروع ہوتا تھا شروع ہوا واٹس ایپ کے مختلف کے بعد ا کی ا واز کی دنیا کی جاتی سے پانچ شروع ہو بھی کیا لیکن یہ عرصے تک ایسے ہی نے والی میں ایک اور پھر کے ساتھ ا وازیں شامل ہو ا ج بھی بھی یہ کے لیے بجے کے تھا کہ سہ پہر اور اس بھی کر تھی کہ بجے تک رہا ہے میں ہی کی بات شام کو نے بھی
پڑھیں:
اشکِ رواں
فرطِ جذبات سے سرشار پلکیں بھیگی ہچکی بندھی آہوں سسکیوں تڑپ اورغموں سے چور بوجھل دل بے قابو ہونے سے ضبط کابندھن ٹوٹ گیا۔پہلے پہل ڈبڈبائی پھرتھرائی اورآنکھیں بھرآئیں۔ آنکھوں میں تیرنے والے اشک چھلکنے کے لیے بیتا ب ،انسان کی بے اختیاری کاواضح ثبوت اشکوں کا بحربیکراں ،چشم تر،دیدہ پُرنم دلی،کیفیات کااظہار نمناک آنکھوں میںچھپے اشک ہیں۔انسان کی قیمتی اورانمول متاع بے بہا آنسو، آنکھوں سے رواں ہونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے۔بے بسی ،مجبوری اورلاچارگی کی کیفیت میں واحدسہارا اشک ہوتے ہیں۔شکستہ دل والے آنسوئوں کی قدرومنزلت خوب جانتے ہیں۔دکھ، تکلیف ،غم ،رنج ،راحت ،خوشی اور انبساط کے لمحات میں چشم تر ہونافطری عمل ہے۔پاکیزہ صاف وشفاف ،کبھی کبھار نمکین آنسوئوں کے نمک پارے بن جاتے ہیں۔مولاناروم کا کہنا ہے کہ ’’آنسو تووہ خون ہے جسے غم اور صدمے نے پانی بنادیا ہے‘‘اشکوں کی دھند میں کچھ لوگ کمال ضبط کامظاہرہ کرتے ہوئے بغیرآنسوئوں کے رولیتے ہیں۔کوئی عیاں اورکوئی نہاں اشک بہاتا ہے۔ایسے اشک بہانے والوں کی آ ہ سے بچنا چاہیے۔اشکوں کی جھڑی دل کی تشنگی سیراب کردیتی ہے۔نالہ نیم شب اولیا ء اللہ اوردرویشوں کاشیوہ رہا ہے۔راہِ سلوک کی عبادت وریاضت ،روح کی طہارت کیف سرور،جذب ومستی میں ڈوب کر گریہ نیم شبی سے دعائوں کی مقبولیت وجدان میں القا ہونے سے چشم بصیرت عطاہوتی ہے۔تہی دامن ،مفلوک الحال کے پاس اشک ہی تو ہوتے ہیںجن سے وہ اپنی داستان غم بیان کرتا ہے۔ہجروصل کے لمحات کا اکسیر نسخہ آنسو ہیں۔محبت کے سوزونہاںمیں ڈوبے اشک، بیتی یادوں کے ترجمان بن کر داستان بیان کرتے ہیں ۔تنہائی کا انس شبِ تاریک میں مچلتا شرر کی مانند حصول رحمت رب العالمین کا ذریعہ ہے۔دیدہ پُرنم چھلکتے رقت طاری ہونے سے قدسی محوحیرت سے جلوہ قدرت کانظارہ کر رہے ہوتے ہیں۔روح کی حقیقت اشکوں سے منعکشف ہوتی ہے۔شبنم کے آنسو مرجھائے ہوئے پھولوں کو پھر سے کھِلادیتی ہے۔قلب کی کچھ خاص کیفتیںزبان بیان نہیں کرپاتی اشک ہی حالِ دل کا راز فاش کرتے ہیں۔ڈبڈ بائی آنکھوںسے رواں آنسو سخت دل کوپگھلا دیتے ہیں۔سرمگیںآنکھوں سے آنسوٹپ ٹپ گرتے ہیں توساون کی کالی گھٹائوں کاساماں باندھ جانے سے دامن میں اشکوں کا ذخیرہ ہوجاتا ہے۔وصل و فراق کے خوشگوار تلخ لمحات اشکوں سے محبت اورنفر ت کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔کچھ غم جو دل کو بے چین رکھتے ہیں۔ آنسوئوں کی صورت میں دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔اضطراب کے عالم میں گریہ زاری سے رواںاشک انتہائی قیمتی ہیں۔اشک اظہار بندگی ہوتے ہیں۔اشک ندامت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں حاضری نصیب والے کوہی ملتی ہے۔تنہائی کے لمحوں میں اشک بہانا چاہیے۔آنسوئووں سے انسان کا کیتھارسس ہوتا ہے۔موتیوں سے زیادہ صاف اشک رخساروں پرڈھلکے داستان غم بیان کررہے ہیں۔شب کے اُس پہرجب کوئی بھی آپ کے پاس نہ ہوخلوت میں آنکھیں نمناک ہوجائیں زندگی کاحاصل ہوتا ہے۔دل وجان سے چاہے جانے والا جب رشتے وناطے ختم کر کے جفا کی راہ لیتاہے تووفا کرنے والے کے پاس اشک فشانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اشک کمزوری کی علامت نہیں بلکہ یہ بہت بڑی طاقت ہوتی ہے جوپتھردل کوبھی موم کردیتے ہیں۔آنسو صحت کے لیے بہت مفید ہوتے ہیںماہرین امراض چشم کے مطابق آنسوئوں کے ساتھ رونے کا عمل آنکھوں کے لیے موثر تھراپی کادرجہ رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے آنکھوں کی کارکردگی بہترہوتی ہے۔اشک بہانے کا عمل انسان کے جذباتی زخموں کو مندمل کرنے میں مدددیتا ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق آنسوٹپکنے سے جلد کی حساسیت بڑھ جاتی ہے اورگہرے سانس لینے کاعمل تیز ہوجاتا ہے جو صحت کے لیے اچھی علامت ہوتی ہے۔رونے کاعمل ہر فرد کے لیے تھراپی کی حیثیت رکھتا ہے۔آنسو آنکھ کاعدسہ دھو کر شفاف منظر دیکھنے میںمددگار ہوتے ہیںمٹی ،گردوغبار صاف کرنے کے ساتھ آنکھوں کو نمی فراہم کرتے ہیں۔جس سے ہماری بینائی میں بہتری پیداہوتی ہے۔بے قرار اوربے سکوں دل کی گریہ زاری سے نہ تھمنے والے آنسو رحمت ابر بن کر صدف امید پراس طرح برستی ہے کہ گوہر مقصود برآمد ہوتا ہے۔آنکھوں میں بحرِ بیکراں رکھتے ہوئے چپکے چپکے آنسو بہانا اورحسین یادوں میں کھوجانا زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ ہوتا ہے۔مشہور مزاحیہ اداکار چارلی چپلن نے کیا خوب بات کہی کہ”مجھے بارش میںآنسو بہانا اچھا لگتا ہے کیونکہ بارش میں رونے سے کسی دوسرے انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ آنکھوں سے ٹپکنے والے اشکوں کاسلِ رواں ہے۔’’شبنم صبح کے قطروں کی طرح چھلکتے ڈھکتے رخساروں پر آنسوئوں سے آنچل کابھیگانا پھر اچانک سے کوئی اشک شوئی کردے تو کیا کہنے کبھی کبھارکسی کی سادگی پر آنکھ بھرآتی ہے۔آنسو کوقطرہ سے قلزم بنتے دیرنہیں لگتی۔دل کی لگی آنسوئوں کے پانی کے بغیر نہیں بجھ سکتی۔کسی کی جدائی میں بہائے جانے والے اشک حقیقی طورپر اثرپذیر ہو کر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔داغِ مفارقت دے جانے والے پیاروں کی جدائی میں اشک تھمنے کا نام نہیں لیتے ایک کسک دل میں اُٹھتی ہے۔
ـ’’ہرکجا آبِ رواں غنچہ بود-ہرکجا اشک رواں رحمت بودترجمہ جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین پر پھول اورغنچے کھلتے ہیں -جب آنسو جاری ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے۔(مولانہ روم)اشکوں کی اہمیت کااندازہ سورۃ یوسف (آیت 86)سے بخوبی ہوتا ہے۔حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی کے غم میں مبتلا خاموشی سے روتے روتے آنسو ختم ہوگئے اور آنکھیں سفید پڑگئیں بینائی چلے گئی انہوں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ’’ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا بے شک میں اپنا رنج وغم صرف اپنے اللہ پاک سے بیان کرتا ہوں۔وہ میری دلی کیفیات کو مجھ سے بہتر جانتا ہے وہی سکون دینے والا ہے۔وہ میرے بچے سے مجھے ملانے والا ہے‘‘اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی گریہ زاری کی بدولت بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملوادیا۔پدرانہ شفقت اورجوش محبت سے یہ معجزہ ہوا۔خزن وملال کی کیفیت میں مانگی جانے والی دُعائیں کبھی رد نہیں ہوتی ہیںکیونکہ اللہ رب العزت کی رحمتیں آنسوئوں میں رہتی ہیں۔شوق دید کو دل میں رکھ کر نگاہ الفت سے نہاں خانہ جھوم جاتاہے۔خوف اورخثیت الہٰی سے رات کی تاریکی میں نمناک آنکھوں سے ٹپکنے والا بندہ مومن کے آنسو کا قطرہ اللہ تعالیٰ کوبے حد پسند ہے اوریہی لمحہ قرب ہے جب یزداں شہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے۔وجدانی کیفیت میں رازونیاز کالطف نرالا ہے۔دل کی نرمی ،روح کی بالیدگی خوف خداکی واضح دلیل اشک ہیں۔روٹھنے والوں کو منانے کے لیے آنسو کارگر ثابت ہوتے ہیں ۔آنسوئوں سے داغ دل دھل جاتے ہیںاس کے لیے اشک ندامت بہانا لازم ہے۔کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کی چشم تر ہونے پراُس کی ڈھارس بندھائی جائے۔ہماری وجہ سے کسی کے اشک رواں ہونے سے تھم جائیں بہت بڑی نیکی ہوگی۔ آنسو آپ کا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہیں ۔ کسی کو دکھ، درد،تکلیف میں مبتلاپاکر اس کے غم کومحسوس کرتے ہوئے آنکھوں سے چھلکنے والے اشکوں کو خاک بسر ہونے سے پہلے اپنے دامن میں سمو لیناچاہیے۔ سکوتِ شب تنہائی میں اشک بہانے سے مرادیں برآتی ہیں۔خشوع وخضوع ،سچے ،پاک وشفاف ،خثیت الہٰی سے لبریز متبرک اورقابل رشک ،اشک محسن انسانیتؐ کے تھے۔