Jasarat News:
2025-02-20@20:08:14 GMT

ڈنکی کے ذریعے امریکا جانے کے خواب کی خوفناک تعبیر

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

ڈنکی کے ذریعے امریکا جانے کے خواب کی خوفناک تعبیر

دارئین گیپ :امریکا میں بہتر زندگی کی تلاش میں ہر سال ہزاروں افراد خطرناک راستے اختیار کرتے ہیں لیکن کچھ راستے خوابوں کو بھیانک حقیقت میں بدل دیتے ہیں، جنوبی امریکا میں واقع دارئین گیپ ایسا ہی ایک خوفناک اور جان لیوا جنگل ہے، جہاں ہر قدم پر موت کا خطرہ منڈلاتا ہے۔

دارئین گیپ: ایک خطرناک گزرگاہ

یہ 97 کلومیٹر طویل جنگل کولمبیا اور پاناما کے درمیان واقع ہے اور طویل عرصے تک ناقابلِ عبور سمجھا جاتا رہا۔ مگر اب یہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ایک مرکزی راستہ بن چکا ہے، وینزویلا، ہیٹی، ایکواڈور، بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت سمیت کئی ممالک کے ہزاروں افراد ہر سال اس جنگل سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس میں قدم رکھتے ہی وہ خود کو ایک ایسی دنیا میں پاتے ہیں جہاں نہ قانون ہے، نہ مدد، اور نہ واپسی کا راستہ۔

جنگل کی وحشت: قدرتی آفات اور انسانی مظالم

دارئین گیپ کا سب سے بڑا خوف اس کا خطرناک ماحول ہے، جنگل میں سانپ، خونخوار درندے، زہریلے کیڑے، تیز بہاؤ والے دریا، دلدلیں اور کھڑی چٹانیں موجود ہیں،مسلسل بارش، شدید گرمی اور حبس مسافروں کی طاقت اور حوصلہ توڑ دیتا ہے۔

مگر سب سے بڑا خطرہ مسلح گروہ اور اسمگلرز ہیں، جو غیر قانونی تارکینِ وطن سے بھاری رقوم وصول کرتے ہیں، اور لوٹ مار، قتل اور جنسی تشدد عام ہے۔

کتنے لوگ یہاں دفن ہو چکے؟ کوئی نہیں جانتا!

اقوامِ متحدہ کے مطابق، 2023 میں 5 لاکھ سے زائد افراد نے اس جنگل سے گزرنے کی کوشش کی۔ کچھ کامیاب ہو گئے، مگر سینکڑوں ہمیشہ کے لیے یہیں دفن ہو گئے،ہر سال یہاں سے 20 سے 30 لاشیں برآمد ہوتی ہیں، لیکن اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ کئی لوگ ہمیشہ کے لیے جنگل کی گہرائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

دارئین گیپ: خوابوں کا قبرستان

یہ جنگل صرف ایک راستہ نہیں بلکہ ان خوابوں کا قبرستان ہے جو غربت اور غیر یقینی مستقبل سے بچنے کے لیے غیر قانونی ہجرت کے راستے پر چل پڑتے ہیں،جو لوگ بچ نکلتے ہیں، وہ زندگی بھر خوفزدہ رہتے ہیں،اور جو نہیں بچ پاتے، وہ اس جنگل میں دفن ہو کر دوسروں کے لیے وارننگ بن جاتے ہیں، مگر یہ انتباہ شاید اگلے مسافر نہ سن سکیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب

(3)
مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماڈل پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف سے مستعار لیا تھا، جو انہی وعدوں کو لیکر سیاسی میدان میں تھے۔ اقتدار میں آتے ہی، جوں جوں کیجری وال کی حقیقت کھلتی گئی، پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ 2015 میں پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو جیسے بانی رہنماؤں کو اس وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے کیجریوال کے طرزِ قیادت پر سوال اٹھائے تھے۔ جو تحریک عوام کی شمولیت اور اجتماعی فیصلوں کے اصولوں پر کھڑی ہوئی تھی، وہ جلد ہی ایک شخصیت پر مبنی تنظیم بن گئی۔ کیجریوال کے اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے کی روش نے کئی بانی اراکین کو پارٹی سے دور کر دیا۔ جو لوگ ملک کو بدلنے نکلے تھے، وہ خود بدل گئے۔ جب 2015 میں اروند کیجریوال نے بطور وزیر اعلیٰ گورنر ہائوس کے بجائے دہلی کے پرانے شہر سے متصل رام لیلا گراونڈ میں عوامی اجتماع میں حلف لیا۔ مجھے یاد ہے کہ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دوستو، جب کسی کو ایسی شاندار جیت ملتی ہے تو اس میں غرور آنے کا خدشہ ہوتا ہے اور اگر غرور آ جائے، تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر وقت محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں مسلسل اپنے اندر جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم میں غرور تو نہیں آ رہا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم کبھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے‘‘۔ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ غرور نے کانگریس کو زوال تک پہنچایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود اسی غرور کے شکار ہو گئے اور پارٹی کو بحران میں دھکیل دیا۔

کیجری وال کی شناخت ہی کرپشن کے خلاف ان کی بے لچک مہم تھی۔ بطور انڈین ریونیو سروس افسر، وہ رشوت طلب کرنے والے افسران کو بارہا بے نقاب کرتے رہے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں کام کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ’’پریورتن‘‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی، جو دہلی کے پسے ہوئے طبقات کو بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے نجات دلانے میں مدد دیتی تھی۔ انہوں نے اطلاعات کے حق (RTI) قانون کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو کرپٹ سرکاری افسروں کے چنگل سے آزادی دلائی۔ یہی وہ اصول تھے جن پر عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اصول خود پارٹی کی سیاست کی نذر ہو گئے۔ آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود ایک نئی داستانِ عبرت بن چکی ہے۔ ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، پریورتن کے رضاکار متعلقہ افسر کے پاس متاثرہ شخص کو لے کر جاتے اور ریفنڈ کی تاریخ دریافت کرتے۔ مقررہ دن، وہ موسیقی کے آلات کے ساتھ انکم ٹیکس آفس پہنچ جاتے تھے۔ اگر ریفنڈ دینے سے انکار کیا جاتا تو وہ فرش پر بیٹھ جاتے، گیت گاتے، ڈھول بجاتے۔ یہاں تک کہ ریفنڈ جاری کر دیا جاتا۔ ایک بار ایک شخص سے انکم ٹیکس افسر نے اس کا ریفنڈ کلیئر کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے رشوت طلب کی۔ کیجریوال کی سربراہی میں پریورتن کے رضاکار چند صحافیوں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں ڈھول اور باجے بجاتے ہوئے نکلے اور رشوت کی رقم کا چیک لے کر سرعام اس افسر کو پیش کرنے پہنچ گئے۔ افسر پچھلے دروازے سے فرار ہو گیا، مگر محکمہ نے فوری اس شخص کا ریفنڈ جاری کردیا۔ اسی طرح کسی بستی میں اگر بجلی کا ٹرانسفارمر خراب ہوکر نہیں لگایا جاتا تو اسی طرح وہ بجلی دفتر پہنچ کر وہاں گانا بجانا شروع کر دیتے تھے۔ بیوروکریسی کے ستائے ہوئے افراد کے لیے وہ ایک سہارا بن گئے تھے۔ مایانک گاندھی کے مطابق کیجریوال کے دست راست اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ان کو ایک بار بتایا ’’مایانک بھائی، اصول کتابوں میں اچھے لگتے ہیں لیکن ہم اب جنگ میں ہیں، اور ہمیں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوگا‘‘۔ اس طرح سمپورن کرانتی (کلّی انقلاب) کا نعرہ خاموشی سے سیاسی سمجھوتے میں تبدیل ہو گیا۔

جو جماعت اندرونی جمہوریت اور عدم مرکزیت کا وعدہ کر رہی تھی، وہ تیزی سے کیجری وال کے گرد گھومنے والی شخصیت پرست جماعت بن گئی۔ اختلافِ رائے دبایا جانے لگا اور چاپلوسی کی ثقافت پروان چڑھنے لگی۔ دہلی کے اراکین اسمبلی، جنہیں اپنے حلقوں پر توجہ دینی تھی، دیگر ریاستوں میں تعینات کیے گئے، جہاں وہ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے اور صرف وہ مقامی رہنما منتخب کرتے جو کیجری وال کے قریبی حلقے کے وفادار ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی سطح کے باصلاحیت رہنما پس ِ پردہ چلے گئے۔ بی جے پی کے غلبے والی ریاستوں میں کانگریس کی جگہ لینے کی خواہش کے باوجود، پارٹی کی کمزور تنظیم اور مقامی سطح پر مضبوط قیادت کی کمی نے اس کے عزائم کو نقصان پہنچایا۔ بد عنوانی کے خلاف وجود میں آئی پارٹی کو بد عنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر قانون جیتندر سنگھ تومر کی جعلی ڈگری اسکینڈل پر کیجریوال کا مؤقف عجیب سا تھا۔ بجائے وہ اپنے وزیر کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے جواب طلب کرتے، وہ ان کا دفاع کرنے لگے۔ مگر ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد انہیں اپنا مؤقف بدلنا پڑا۔ مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اسی طرح 2016 میں، پارٹی نے اپنی ویب سائٹ سے چندہ دہندگان کی فہرست ہٹا دی، تو شفافیت کے عزم پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔

جب 2022 میں، دہلی حکومت نے نئی ایکسائز پالیسی متعارف کروائی تاکہ شراب کی فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکے، یہ ایک طرح سے اس پوری تحریک کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس پالیسی سے مبینہ طور پر مخصوص نجی کمپنیوںنے فائدہ اٹھایا اور الزام ہے کہ ان سے پارٹی فنڈ کے لیے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس کیس میں ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا سمیت کئی اہم رہنما ملوث پائے گئے۔ فروری 2023 میں سسودیا کو گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ 2024 میں، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو بھی حراست میں لے لیا گیا، جو بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح منیش سسودیا پر اسکولوں کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ عآپ اب بھی ایک قومی جماعت ہے۔ پنجاب میں یہ حکومت چلا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھتی ہے۔ تاہم، اس کے توسیعی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سال 2022 میں، دہلی سے باہر اسے سب سے بڑی انتخابی کامیابی پنجاب میں ملی، جہاں اس نے روایتی کانگریس-اکالی دل اقتدار کے دو قطبی نظام کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے اسے قومی پارٹی کا درجہ دلایا اور یہ عندیہ دیا کہ اس کا طرزِ حکمرانی دوسرے علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پنجاب میں حکومت چلانا نئے چیلنجز لے کر آیا۔ ایک ایسے صوبے کا انتظام سنبھالنا، جو گہرے زرعی بحران اور منشیات کے مسئلے میں جکڑا ہوا ہے، دہلی کی حکومت چلانے سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ آپ کی سیاسی سمت ایک سبق آموز کہانی ہے۔ (بشکریہ: 92نیوز)

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت تارکین وطن دارئین جنگل کے شیلٹر منتقل
  • امریکا سے ڈی پورٹ پاکستانیوں سمیت دیگر تارکین وطن پاناما میں ڈیرین جنگل کے علاقے منتقل
  • رحیم یار خان:بس اور رکشے کی خوفناک ٹکر،4افراد جاں بحق ،7زخمی
  • ٹیسلا نے بھارت میں فیکٹری لگائی تو یہ امریکا سے زیادتی ہوگی، ٹرمپ
  • امریکا فلسطین کا سب سے بڑا  دشمن ہے، فلسطینی عوام 
  • عام آدمی پارٹی کا زوال۔ ٹوٹ گئے خواب
  • 'ہماری مدد کریں' امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت 300 محصورتارکین وطن کی دنیا سے اپیل
  • عام آدمی پارٹی کا زوال۔ٹوٹ گئے خواب
  • خوفناک خبر سامنے آئی کہ لوگ بانی پی ٹی آئی سے ملتے اور باہر آکر یوٹیوبرز کو باتیں بیچتے ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی کا دعویٰ
  • سموگ اور فضائی آلودگی کا مستقل حل ،لاہور میں قدرتی جنگل اگانے کی مہم شروع