یورپی سلامتی سے متعلق کلیدی ممالک کی سمٹ پیر کو فرانس میں
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے اتوار 16 فروری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ملکی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے بتایا کہ اس سربراہی اجلاس میں فرانس کے کلیدی اہمیت کے حامل یورپی اتحادی ممالک حصہ لیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ایک ٹیلی فون گفتگو میں یوکرین میں روسی فوجی مداخلت اور اس مداخلت کے ساتھ شروع ہونے والی یوکرینی جنگ کے بارے میں ایسا تبادلہ خیال شروع کر دیا، جس میں ٹرمپ نے جنگی فریق کے طور پر یوکرین اور اس کے یورپی حمایتی ممالک کو سرے سے نظر انداز کر دیا تھا۔
روسی یوکرینی جنگ: برطانیہ کو ٹرمپ سے کییف کی حمایت جاری رکھنے کی توقع
ساتھ ہی واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں اقتدار میں آنے والی نئی انتظامیہ نے یورپ میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دائرہ کار میں اپنے اتحادیوں کو اس حوالے سے بھی تنبیہ کر دی ہے کہ یورپ اب سلامتی کے معاملے میں امریکہ کی اعلیٰ ترین ترجیح نہیں رہے گا، بلکہ امریکہ اپنی فوجوں کو بھی اسی طرح منتقل کر سکتا ہے، جیسے وہ اب چین کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
امریکہ یورپ میں عسکری موجودگی میں تبدیلی پر نیٹو اتحادیوں سے بات چیت کرے، جرمن صدر
ماکروں کی طرف سے نئی یورپی پیش رفتفرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے اتوار کے روز نشریاتی ادارے فرانس انٹر کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ایمانوئل ماکروں پیر کو سرکردہ یورپی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ اس لیے ایک سمٹ میں شرکت کریں گےکہ یورپی سلامتی کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ژاں نوئل بارو نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس یورپی سمٹ میں کون کون سےممالک کے رہنما حصہ لیں گے۔
ٹرمپ کی نیٹو پر تنقید یورپ کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟
دوسری طرف یورپین یونین کے ایک اعلیٰ سفارتی ذریعے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کے دن پیرس میں ہونے والی سمٹ میں برطانیہ، جرمنی، پولینڈ، اٹلی اور ڈنمارک کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے اور یورپی کمیشن کی خاتون صدر ارزولا فان ڈئر لاین بھی حصہ لیں گی۔
برطانوی میڈیا نے بھی اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ ملکی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی پیرس سمٹ میں شرکت متوقع ہے۔
سعودی عرب میں روسی امریکی مذاکراتیوکرین کی جنگ کو شروع ہوئے تقریباﹰ تین سال ہونے کو ہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس اپنی انتخابی مہم میں بار بار کہا تھا کہ وہ دوبارہ صدر بننے کے بعد بہت کم عرصے میں یوکرینی جنگ ختم کرا دیں گے۔
دوسری طرف روس بھی اس کوشش میں ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے اپنے اس جنگی حریف کے ساتھ کوئی بات چیت کرنے کے بجائے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرے۔
یورپ کو امریکی عسکری تعاون پر انحصار کم کرنا چاہیے، جرمن وزیر
اس پس منظر میں کریملن خاص طور پر ان مذاکرات کے انعقاد پر زور دیتا آیا ہے، جو ممکنہ طور پر اگلے چند روز میں سعودی عرب میں شروع ہوں گے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس میں صرف امریکی اور روسی نمائندے ہی شامل ہوں گے اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلے میں نہ تو یوکرین کو شامل کرنے کی کوئی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی یورپ میں امریکہ اور یوکرین کے اتحادی ممالک کو اعتماد میں لیا گیا۔یوکرین جنگ اور ٹرمپ کی قیادت: امن کی نئی راہیں؟
یہ وہ پس منظر ہے، جس میں پیرس میں کلیدی یورپی ممالک کی کل کی سمٹ میں نہ صرف یوکرینی جنگ بلکہ براعظم یورپ کی مجموعی سلامتی کے موضوع پر بھی کھل کر بات کی جانا متوقع ہے۔
اسی لیے فرانسیسی وزیر خارجہ بارو نے آج کہا، ''جنگ کے خاتمے کا فیصلہ خود اور صرف یوکرین اور یوکرینی عوام کر سکتے ہیں اور ہم ایسا فیصلہ کیے جانے تک کییف حکومت کی مدد کرتے رہیں گے۔‘‘
م م / ش خ (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرینی جنگ کے ساتھ
پڑھیں:
یورپی کمیشن کا امریکہ پر جوابی ٹیرف میں 90 دن کی تاخیر کا اعلان
برسلز: یورپی کمیشن کی صدر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پر 90 روزہ وقفے کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے یورپی یونین کی جانب سے جوابی ٹیرف کے نفاذ میں بھی 90 دن کی تاخیر کا اعلان کر دیا ہے۔
کمیشن کی صدر کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تجارتی کشیدگی سے بچنے کے لیے مذاکرات کو ایک اور موقع دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یورپی یونین کے جوابی اقدامات کو تمام رکن ممالک کی حمایت حاصل ہے، مگر فی الحال ہم نے ان اقدامات کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز یورپی یونین نے امریکہ پر 25 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ اقدام امریکہ کی جانب سے یورپی اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف لگانے کے جواب میں کیا گیا تھا۔
جن امریکی اشیاء پر یہ ٹیرف عائد کیا جانا تھا ان میں مرغی، چاول، مکئی، پھل، میوے، لکڑی، موٹرسائیکلیں، پلاسٹک، ٹیکسٹائل، پینٹنگز اور برقی آلات شامل ہیں۔
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق زیادہ تر متاثرہ مصنوعات ری پبلکن اکثریت رکھنے والی امریکی ریاستوں میں تیار کی جاتی ہیں، جس سے اس اقدام کے سیاسی اثرات بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔