UrduPoint:
2025-04-15@09:56:01 GMT

جاپان حد سے زیادہ سیاحت سے پیدا شدہ بحران کے حل کی تلاش میں

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

جاپان حد سے زیادہ سیاحت سے پیدا شدہ بحران کے حل کی تلاش میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) گزشتہ سال سیاحوں کی ریکارڈ تعداد دیکھنے کے بعد، جاپان اس سال بھی سیاحت کے نئے ریکارڈ بنانے کے لیے تیار ہے۔

سفری صنعت اور قومی حکومت کورونا کے بعد معاشی فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، لیکن شہریوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے، کیونکہ اہم سیاحتی مقامات پر بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد ان کی روزمرہ زندگی میں خلل ڈال رہی ہے۔

جاپان میں 2024 کے دوران 36.

9 ملین غیر ملکی سیاح آئے، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 47.1 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ تعداد 2019 کے ریکارڈ 31.9 ملین سیاحوں سے بھی تجاوز کر گئی، جب وبا کے باعث عالمی سیاحت تقریباً رک گئی تھی۔

اب "گولڈن روٹ" کے شہروں، یعنی ٹوکیو، کیوٹو اور اوسا کا کے رہائشی غیر ملکی سیاحوں کی بڑ ھتی ہوئی تعداد سے پرشان ہیں، جو اکثر جاپانی معاشرتی آداب کی پاسداری نہیں کرتے جو یہاں کی ثقافت کا بنیادی جزو ہیں۔

(جاری ہے)

سیاحوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل

جاپانی میڈیا نے بھی کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے ہیں جو خاص طور پر چونکا دینے والے ہیں۔ ان میںامریکہ سے آنے والے ایک سیاح کا کیس بھی شامل ہے، جسے ٹوکیو کے تاریخی میجی جنگو مقبرے کے لکڑی کے دروازے پر گرافٹی بنانے پر گرفتار کیا گیا۔ ایک دیگر واقعہ چلی کی انفلوئنسر کا ہے، جس نے شنتو مزار کے مقدس ٹورِی گیٹ پر پُل اپس کرتے ہوئے اپنے آپ کو فلمایا۔

ایک اور غیر ملکی نارا کے قدیم شہر میں ایک ہرن کو لات مارتے ہوئے ویڈیو میں دیکھا گیا۔

کیوٹو شہر کے ڈائریکٹر جنرل برائے سیاحت، توشینوری تسوچیہاشی نے کہا، "مقامی افراد شکوہ کرتے ہیں کہ بسوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ وہ سوار نہیں ہو پاتے، سیاح سڑکوں پر سگریٹ نوشی کرتے ہیں، گندگی پھیلاتے ہیں اور دیگر بدتمیزیاں کرتے ہیں۔"

مقامی افراد اور سیاحوں کے درمیان ہم آہنگی

شہریوں اور سیاحوں کی زندگیوں کے درمیان توازن قائم کرنے کے مقصد کے تحت، کیوٹو شہر نے سیاحوں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق متعارف کرایا ہے تاکہ باہمی سمجھ بوجھ اور احترام کو فروغ دیا جا سکے۔

اس کے علاوہ، شہر بھر میں سیاحت کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

شہر کے مشہور مقامات کے درمیان سیاحوں کی آسان نقل و حرکت کے لیے خصوصی بسیں متعارف کرائی گئی ہیں، جس سے عوامی ٹرانسپورٹ کا بوجھ کم ہو گیا ہے، اور نئی ویب سائٹس اور ایپس کے ذریعے مختلف زبانوں میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔

جاپان کے دیگر شہروں نے مختلف طریقے اپنائے ہیں، جن میں کچھ متنازعہ بھی ہیں۔

ہیمیجی شہر کی مقامی حکومت — جہاں سفید ہرن کا قلعہ، جو کہ یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے، واقع ہے — غیر ملکی سیاحوں کے لیے داخلے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ایشلے ہاروی، جو 15 سال سے جاپان کے سیاحتی شعبے میں کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی شہروں میں اوورٹورزم کا مسئلہ بڑھ رہا ہے اور جاپان کو دیگر ملکوں کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔

ان کے مطابق، "اوور ٹورزم لندن، بارسلونا، وینس اور کیوٹو میں کئی سالوں سے ایک مسئلہ رہا ہے، لیکن یہ مارکیٹ کے چلنے کی وجہ سے حل کرنا مشکل ہے۔"

ہاروی کا کہنا ہے کہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ سیاح دیہی علاقوں کا سفر کریں، جہاں وہ زیادہ اصل جاپان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ "اوور ٹورزم کا مسئلہ چند شہروں تک محدود نہیں، بلکہ پورے ملک کے 90 فیصد حصے میں ہے۔

"

سیاحت: نئے طریقوں کی ضرورت

ہاروی کے مطابق، جاپان کا سیاحتی شعبہ زیادہ تر جغرافیائی اور موسمی "برانڈ اثاثوں" پر انحصار کرتا رہا ہے، جیسے کہ چیری بلوسمز اور پہاڑ فیوجی، اور سیاحوں کو ان مقامات کو مختلف زاویوں سے دریافت کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔

اور، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاحت کے شعبے نے کووڈ-19 کی وبا کے دوران سست روی کا فائدہ نہیں اٹھایا تاکہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کرتا۔

ہاروی کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ایک ہی طریقے سے حل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کو مل کر سوچنا پڑے گا تاکہ جاپان سیاحت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

ش خ/ ج ا (جولیان رایل، ٹوکیو)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سیاحوں کی غیر ملکی کے لیے

پڑھیں:

“زیادہ تمباکو ٹیکس صحت نہیں، غیر قانونی مارکیٹ کو فروغ دیتا ہے” ، امین ورک

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) فیئر ٹریڈ اِن ٹوبیکو (FTT) کے چیئرمین امین ورک نے ایک تفصیلی گفتگو میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے پاکستان میں نمائندہ کی تمباکو کنٹرول پالیسیوں اور ٹیکس نظام سے متعلق حالیہ بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں یک طرفہ، بے بنیاد اور زمینی حقائق سے لاتعلق قرار دیا۔

امین ورک نے گفتگو کا آغاز WHO عہدیدار کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے کیا۔ “ہمیں پوچھنا چاہیے کہ پاکستان میں ہر سال تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے باعث 1,64,000 اموات اور معیشت کو 700 ارب روپے کا نقصان ہونے کا دعویٰ کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ اس کا ڈیٹا کہاں ہے؟ آڈٹ ٹریل کیا ہے؟ یہ چند این جی اوز کے نیٹ ورک کا بنایا ہوا بیانیہ ہے، جنہیں ممنوعہ بین الاقوامی تنظیموں سے فنڈز ملتے ہیں،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ WHO نمائندہ نے 2023 میں ٹیکس محصولات میں اضافے کو کامیابی قرار دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا بڑا خمیازہ قانونی صنعت کو بھگتنا پڑا، جو اب غیر قانونی تجارت کی وجہ سے سکڑ رہی ہے۔ “وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ ریونیو بڑھا، لیکن یہ نہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی سگریٹس کا مارکیٹ شیئر 56 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ پالیسی مکالمہ اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟” ورک نے سوال اٹھایا۔

فروخت اور عمل درآمد سے متعلقہ رپورٹوں اور مارکیٹ سروے کے مطابق، پاکستان میں فروخت ہونے والے 413 سگریٹ برانڈز میں سے 394 فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جب کہ 286 برانڈز وزارت صحت کی طرف سے لاگو کردہ گرافیکل ہیلتھ وارننگ قانون کی پابندی نہیں کرتے۔ مزید برآں، 40 سے زائد مقامی کمپنیاں فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکس ادا کیے بغیر کام کر رہی ہیں۔ “جب آپ قانونی اور غیر قانونی مارکیٹ کے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں، تو آپ کی پوری دلیل پاکستان کے زمینی حقائق سے غیر متعلق ہو جاتی ہے،” انہوں نے زور دیا۔

امین ورک نے بار بار ٹیکس بڑھانے کی تجویز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ “جب نفاذ کا نظام کمزور ہو، تو غیر معمولی ٹیکس سے تمباکو نوشی کم نہیں ہوتی، بلکہ صارفین سستے اور غیر قانونی متبادل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس سے قانونی صنعت کو نقصان، ٹیکس چوری میں اضافہ اور مجرمانہ نیٹ ورکس کو فائدہ پہنچتا ہے،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ کئی مقامی NGOs، جو مبینہ طور پر ممنوعہ غیر ملکی تنظیموں سے فنڈز حاصل کرتے ہیں، صرف قانونی شعبے کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث 40 سے زائد کمپنیوں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔ “یہ خاموشی محض مشکوک نہیں بلکہ مکمل حکمتِ عملی کے تحت ہے،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے بین الاقوامی تنظیموں پر پاکستان کی سماجی و معاشی حقیقتوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قانونی تمباکو صنعت نے پچھلے سال تقریباً 300 ارب روپے کے ٹیکس دیے، اور ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔ “اس تعاون کو نظرانداز کرنا اور پوری صنعت کو بدنام کرنا صحت عامہ کی وکالت نہیں بلکہ ایک تباہ کن عمل ہے،” انہوں نے کہا۔

آخر میں امین ورک نے حکومت پاکستان، ایف بی آر اور وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ ایسے بیانیوں کے اصل مقاصد اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔ “ہم مقامی زمینی حقائق، تصدیق شدہ ڈیٹا، اور خودمختار پالیسی سازی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ضابطہ بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر بیرونی ایجنڈے کے تحت بننے والی نام نہاد ہیلتھ پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے شواہد پر مبنی پالیسی سازی، منصفانہ ٹیکس نظام، اور غیر قانونی سگریٹ ساز اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی حمایت دہراتے ہوئے کہا، “وہ بیانیہ جو صرف قانونی صنعت کو سزا دیتا ہے اور غیر قانونی مارکیٹ کو پروان چڑھاتا ہے، اسے مکمل طور پر رد کرنا ہوگا۔”

متعلقہ مضامین

  • پنجاب سیاحوں کی میزبانی کیلئے مکمل طور پر تیار ہے: مریم نواز شریف
  • پی ٹی آئی والے جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا: رانا ثنا اللہ
  • سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستانیوں کا کردار، ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، پاکستانی سفیر احمد فاروق
  • “زیادہ تمباکو ٹیکس صحت نہیں، غیر قانونی مارکیٹ کو فروغ دیتا ہے” ، امین ورک
  • گندم بحران حل کیا جائے، کاشتکار 900 روپے فی من نقصان میں جارہے ہیں: صدر کسان اتحاد
  • رحیم یار خان: کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے 2 افراد کو اغوا کرلیا، تلاش جاری، پولیس
  • ٹیرف جنگوں اور تجارتی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہے، چینی وزارت خارجہ
  • لداخ کے شعبہ سیاحت میں بیرونی مداخلت کو روکنے کا مطالبہ
  • خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات
  • غزہ میں پانی کا بحران سنگین، چند لٹر پانی کے لیے میلوں سفر