کینیڈا چائنا کارڈ کھیل کر رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
بیجنگ :
“کینیڈا ایک ایسا ملک ثابت ہوا ہے جو بڑے بھائی کی مانند ملک امریکہ کی جانب سے دھوکہ دہی ،دھمکی ،دھونس اور زیادتیاں سہہ رہا ہے ۔” چند روز قبل امریکہ کی جانب سے کینیڈا پر اضافی محصولات کے اعلان کے بعد بینک آف نووا سکوشیا کے ماہر اقتصادیات ڈیرک ہولٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اسی طرح کے الفاظ لکھے ۔ تاہم، کینیڈا کے سیاست دانوں نے امریکہ کی جانب سے “دھوکہ دہی، دھمکیوں اور زیادتیوں” کا جواب کیسے دیا؟ یہ ایک عجیب صورتحال ہے۔ حال ہی میں کینیڈا کے تمام 13 صوبوں اور علاقوں کے گورنروں پر متشمل وفد نے امریکی قانون سازوں، کاروباری گروہوں اور مزدور رہنماؤں سے ملاقاتوں اور لابنگ کے لئے امریکہ کا دورہ کیا۔لیکن اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کینیڈا کے ان سیاستدانوں نے “چائنا کارڈ” کھیلتے ہوئے چین کو “مشترکہ معاشی دشمن” کے طور پر پیش کیا۔ ان کوششوں پر بیرونی دنیا نے ا ن کا مذاق اڑایا اور کینیڈا کو اپنے مالک کے آگے دم ہلاتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے والا قرار دیا۔
کینیڈا امریکہ کا سب سے بڑا قریبی ہمسایہ اور اتحادی ہے لیکن امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے کینیڈا پر زیادتیاں کرنے، اسے دباؤ میں لینے ا ور اس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں کینیڈا ان اولین ممالک میں سے ایک تھا جس پر محصولات کی دھمگی دی گئی تھی۔ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، انہوں نے بار ہا کینیڈا کے امریکہ سے الحاق اور اسے امریکہ کی اکیاونویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو ” امریکی ریاست کا گورنر” کہہ کر بار بار ان کا مذاق اڑایا۔
گزشتہ ایک سال کے دوران کچھ مغربی ممالک نے چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا انتخاب کیا ہے لیکن چین اور کینیڈا کے تعلقات ابھی تک اس “رکاوٹ” کو عبور نہیں کر سکے ۔ مسئلے کی جڑ اس حقیقت میں ہے کہ کینیڈین سیاست دان اب بھی صرف امریکہ کی طرف دیکھنے کی غلامانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔ کینیڈا اپنی آزادی اور خود اعتمادی کھو چکا ہے ،لیکن اس سب کے باوجود بھی اسے امریی خطرے سے آزادی حاصل نہیں ہوئی ۔صرف اتنا ہی نہیں ، اس پالیسی سے کینیڈا نہ صرف چین کے ساتھ تعاون کا قیمتی موقع کھو چکا ہے بلکہ اس کی یہ سوچ اور عمل اس کی جگ ہنسائی کا بھی باعث بنی ہے ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
آرمی چیف کی کاوشیں، پاکستان کھپے اور عمرا ن نیازی
کیا اِس بارے کوئی دوسری رائے ہے کہ پاکستانی عوام نے کبھی سیاستدانوں کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیا ؟کیا اِس بات سے انحراف ممکن ہے کہ یہ سیاستدان ہی ہیں جو قبل از الیکشن یا بعد از الیکشن گیٹ نمبر چار سے ہی برآمد ہو تے رہے ہیں؟ کیا اِس بارے کوئی ابہام ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاستدانوں اور جرنیلوں کے گٹھ جوڑ کی تاریخ ہے ؟ کیا ہم آج اِس بات سے انکاری ہو سکتے ہیں کہ سیاسی تجربات کی تجربہ گاہ سے تیار ہو کر آنے والی بلائیں ہی پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں ؟ کیا عام پاکستانی جسے جدید تعلیم ٗ سائنسی سوچ ٗ منطقی انداز فکر اور اعلیٰ سماجی اقدار سے دور رکھ کر ٗ پہلے تو انسانی زینے سے ہی نیچے اتار لیا گیا اور ازاں بعد اُسے ہر برائی کی جڑ قرار دینے کی کوشش کی گئی ؟ کیا پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار عام آدمی ہے ؟ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسا کرنے میں مرکزی کردار عام آدمی کا ہے تو ہم اسے ثابت کرنے میں ہمیشہ ناکام رہیں گے ۔ گرین بک پر بدلتے ہوئے ہمارے مقاصد جب سالہا سال افغان وار ہی لکھتے رہے ٗ جس کا را میٹریل پاکستان سے برآمد ہوتا رہا تو ہمیں یہ بات تو سمجھ آ جانی چاہیے کہ اُس وقت پاکستان میں کس قسم کی نسل تیار ہو رہی تھی ۔ ہم ایسا کرتے ہوئے بھول گئے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہ نسل جوان ہو کر پاکستان کے گلی کوچوں میں اپنے نظریات و افکار کا پرچار کر رہی ہو گی اور ٹھیک اُسی وقت میں جب افغانستان وار کو ختم ہوئے ابھی سات سال ہوئے تھے ۔ پاکستان میں تحریک انصاف کو وجود میں لایا گیا ۔ غور کریں تو 1989ء کے بعد عمران نیازی کی ہیرو شپ کو انتہائی سائنسی بنیادوں پر ہمارے معاشرے کی رگوں میں اتارا گیا ۔ گو عمران کی ہیرو شپ بطور کھلاڑی تو موجود تھی لیکن 1992ء کے ورلڈ کپ کی جیت اور اُس سے پہلے شوکت خاتم کا خواب اور ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ یہ سب اُسی سیاسی عمل کا حصہ تھا جس میں عمران نیازی کو نئے طریقے سے لانچ کیا گیا اور وہ پاکستان کے ہر گلی محلے میں فنڈریزنگ کے نام پر گھومتا رہا ۔ آپ اِن سب باتوں کا الگ الگ تجزیہ کرسکتے ہیں یا اسے الگ الگ دیکھ سکتے ہیں مگر آپ اپنے کسی بھی تجزیے سے یہ بات خارج نہیں کرسکتے کہ اس سارے کام کا مرکز و محور صرف ایک شخص تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایوب خان کے ساتھ بھی رہا لیکن اُسے حقیقی شہرت ایوب خان کی مخالفت کرکے حاصل ہوئی لیکن بھٹو کی شہرت کے ساتھ بہت پہلے ’’ مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے‘‘ والا حادثہ ہو چکا تھا ۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائی جنرل یحییٰ خان کے اقتدار منتقل نہ کرنے پرناراض ہو چکے تھے اور اس کھیل میں بھٹو نے اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا بھرپور ساتھ دیا ۔ بھٹو کو حکومت مل گئی لیکن وہ اعلیٰ ترین اقتدار نہ مل سکا جو ریاست چلانے کیلئے سب سے زیادہ ضرور ی ہوتا ہے ۔20 دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے والے بھٹو کو تمام تر ہنگامہ خیزیوں اور سیاسی کامیابیوں کے باوجود 5 جولائی 1977 ء کو گرفتار کرلیا گیا اور ایک اذیت ناک موت اُس کے مقدرمیں لکھ دی گئی ۔ بھٹو کے کارکنوں نے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کردی اورجبر کا نیا جہاں ظلمت کی شکل میں ضیاء کی صورت پاکستانی قوم کے سامنے تھا ۔یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھٹو کے بیٹوں نے بھٹو کی سزائے موت کے اعلان سے پہلے ہی الذولفقار کی بنیاد رکھ کر انارکی کا رستہ اختیار کیا لیکن عظیم بھٹو نے اپنے بیٹوں کے اِس’’ مشن‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ۔ اس کااظہار بھٹو مقتول نے 21جون 1978 محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام اُن کی سالگرہ پر ’’ میری بیٹی ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے خط میں بھی کیا ۔ بھٹو نے اپنے بیٹوں اورکارکنوں کو ریاست پرحملے کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ نواز شریف کوجنرل ضیاء الحق نے اپنی گود میں جوان کیا لیکن پھر وہی سب کھیل تماشے ٗ فوجی بغاوت ٗ دو تہائی اکثریت گرفتار اورجلا وطن ٗ لیکن نواز شریف کے ورکروں نے ریاست پرحملے نہیں کیے ٗ شہیدوں کی بے حرمتی نہیں کی ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے منحوس سانحہ میں جب پاکستان کی مقبول ترین سیاسی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا تو سندھ کی حد تک کارکنوں کا غم و غصہ اپنی جگہ ٗ لیکن موجود ہ صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر نے ’’ پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پہلے قاضی حسین احمد مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی کو عمران نیازی کے ساتھ جوڑ دیا گیا جو اپنی وفات تک نیازی کے ساتھ رہے ۔ یہی وہ موڑ تھا جب عمران نیازی کو 2010ء کے سیلاب میں ماضی کے سیاستدانوں کی طرح فوجی چھتری میسر آ گئی جس کا منطقی نتیجہ مینار پاکستان کا جلسہ تھا جس میں مشرف لیگ ٗ نواز لیگ کے مفرور ٗ پیپلز پارٹی کے بد ظن سب ایک ہی صف میں عمران نیازی کی امامت میں جمع کردیئے گئے لیکن اس بار جرنیلوں سے ’’چوک ‘‘ہو گئی ۔عمران نیازی تواتر اور تسلسل کے ساتھ طالبان کا حمایتی بیانیہ بنا رہا تھا ٗ پاکستان کے نوجوانوں کے ذہنو ں میں ماضی بعید کے مسلمان فاتحین کی ہیرو شپ اُجاگر کررہا تھا ٗ وہ دنیا فتح کرنے کادرس دے رہاتھا اور ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والے مذہبی سٹڈی سرکل کے ساری اذہان اُس کے گرد اکھٹے ہو گئے وہ انتہا پسندوں کا نیوکلیس بن چکا تھا اور یک نہ شد دوشد اُسے فیض حمید جیسے ذہن بھی میسر آگئے جنہوں نے ایک کپ چائے پی کر چائے کی پیالی کا طوفان ہی دنیا میں برپاکردیا ۔ عمران نیازی کو اقتدار دینا وہ بدترین تجربہ تھا جس کیلئے آج پاکستان آرمی کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ موجودہ آرمی چیف اُس گندگی کو صاف کرنے کے درپہ ہیں لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں تو چودہ سو سال پہلے خوارج کو دین سے خارج کررکھا تھا ٗ اللہ اوراُس کے رسولؐ سے جنگ میں انہیں قتل کرنے ٗ پھانسی پر لٹکانے ٗ مخالف
سمتوں سے ہاتھ پائوں کاٹنے اوردربدر کرنے کے احکامات تحریر ہیں لیکن و ہ جنرل ضیا ء الحق جیسے مذہبی دعویدار کو نظر نہیں آئے لیکن آج اگر آرمی چیف عاصم منیرفسادیوں سے سرنڈر کے صورت میں اُن پر رحم کرنا چاہتے ہیں تویہ خوشی کی بات ہے ۔ اُن کی کاوشوں کو بھی سلام ہے کہ یہ پاکستانی عوام اورنوجوانوں کی کوششوں کے عین مطابق ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ’’ کامریڈ فوج ‘‘کو کل کوئی نیا ضیاء الحق نہیں ملے گا ؟ پاکستان کو ایک مستقل امن کی ضرورت ہے اوریہ اتنی دیر تک ممکن نہیں جب تک پاکستان کے گلی کوچے ٗ بازار ٗ مارکیٹس ٗ پلازے اورہوٹلوں کو اِن سے واگزار نہیں کرایا جاتا۔ پاکستان کا نوجوان افغان بیانیے سے نفرت کرتا ہے لیکن کیا پاکستانی نوجوانوں کو افغانوں سے پاک پاکستان دیا جا سکتا ہے ؟ ہماری ہر کوشش اتنی دیر تک ناکام رہے گی جب تک افغانوں کا پاکستان کی معیشت کے بڑے حصے پر قبضہ رہے گا ۔پاکستان ہماری پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے جنہیں افغان اور افغانستان کا طرز حکومت اور طرز سیاست پسند ہے بہتر ہے اُنہیں افغانستان بھیجنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگیاں اپنے پسندیدہ طرز زندگی کے مطابق گزار سکیں ۔