UrduPoint:
2025-04-15@09:36:53 GMT

غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) پاکستان کے شمال مغرب میں واقع گلگت شہر سے محض نو کلومیٹر کے فاصلے پر دینور کا خوبصورت شہر آباد ہے۔ مقامی صحافی رئیس سیفی شہر کے سماجی خد و خال واضح کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”دینور گلگت اور آس پاس کے شہروں کی نسبت زیادہ پُرامن ہے۔ دیگر شہروں میں کبھی کبھار فرقہ وارانہ کشیدگی سر اٹھاتی ہے لیکن دینور ایسے مسائل سے پاک ہے۔

یہاں صرف فقہ جعفریہ اور اسماعیلی برادری آباد ہے۔ دینور کا امن و امان مثالی ہے۔"

ثقافتی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ”یہاں زیادہ تر شینا اور بروشسکی بولی جاتی ہے۔ تعلیم کا اچھا خاصہ رجحان ہے لیکن پبلک لائبریری یا کلچرل سرگرمیوں کے لیے کوئی مناسب جگہ موجود نہ تھی۔

(جاری ہے)

ہمارے شہر میں 'غالب کی بیٹھک‘ نے مقامی ادیبوں اور مطالعہ کے شوقین افراد کے مل بیٹھنے کے لیے ایک عمدہ بندوبست کیا، جو لائق تحسین ہے۔

" کتابوں کے شوقین نوجوان کو 'غالب کی بیٹھک‘ کا خیال کیسے آیا؟

محمد سلیم نے قراقرم یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی۔ اسی دوران انہیں کتابوں کا 'چسکا‘ لگا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”تب میری کایا ہی پلٹ گئی۔ کتابیں پڑھتے ہوئے مجھے لگا ان سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں۔ فرصت ہی فرصت تھی، ہم کتابیں پڑھتے، ڈسکشن کرتے اور معاشرے کو بدلنے کے خواب دیکھتے۔

"

گریجویشن کے بعد محمد سلیم کتابوں کی صحبت اور فرصت کے لمحات مِس کرنے لگے۔ ان کے بقول، ”دینور میں اسکول اور کالجز گلگت سے زیادہ ہیں مگر کوئی پبلک لائبریری نہیں۔ میں دوستوں سے کہتا کہ مل کر کوئی کتب خانہ کھولتے ہیں۔ لیکن ہمارے کاسے میں خواب تھے سکے نہیں۔"

اب محمد سلیم کی زندگی میں کتابوں کی یاد اور روزگار کی تلاش ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

ایک دن دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے، ایک جگہ سے گزرے تو اس نے بتایا، ''یہاں جو ہوٹل تھا وہ بند ہو گیا، کیوں نا ہم کھول لیں؟‘‘

پہلے پہل سلیم کو لگا کیفے کھل گیا تو کتابیں اور ادب رہ جائے گا۔ بھائی اور دوستوں کے ساتھ مشاورت سے طے پایا کہ ہوٹل بناتے ہیں لیکن ماحول پاک ٹی ہاؤس جیسا ہو گا۔ یہ ہوٹل پڑھنے لکھنے والوں کی بیٹھک ہو گا۔

محمد سلیم بتاتے ہیں، ”مجھے شاعروں میں سب سے زیادہ غالب پسند تھا۔ میں نے کہا اسے غالب کے نام پر رکھیں گے اور یوں آغاز ہوا۔ ہماری دوست انیلہ سید لاہور سے آئیں اور انہوں نے آئیڈیا کے مطابق اسے بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا۔ اسے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔"

غالب کیفے میں جاری ادبی و ثقافتی سرگرمیاں

کیفے کی پیشانی پر 'غالب کی بیٹھک‘ کا بورڈ لگا ہے مگر اس کے اندر کیا چلتا ہے؟ کس طرح کی محفلیں سجتی ہیں؟

مقامی صحافی رئیس سیفی کہتے ہیں، ”یہ پلیٹ فارم ہے، جس میں صلاحیت ہے کہ کوئی بھی آئے اور دل جیت کر لے جائے۔

مثلاً کوئی نوجوان موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، پہلے جگہ نہ تھی، اب غالب کیفے ہے، جس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔"

محمد سلیم کہتے ہیں، ”ہمارے پاس بڑا ہال ہے اور سب کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ کوئی بھی آئے، وہ اپنا پروگرام کرے، ہم کوئی فیس نہیں لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے میں ایک آدھ محفل موسیقی ہو جاتی ہے۔ کتاب کے حوالے سے کوئی تقریب ہو گئی، کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔

"

تفصیل شئیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”کچھ دوست روزانہ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں، گپ شپ ہو گئی، کتابوں کا تبادلہ کر لیا۔ ریگولر ماہانہ اسٹڈی سرکل ہوتا ہے، جس میں طے شدہ کتاب یا موضوع پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔"

رئیس سیفی کہتے ہیں، ”غالب کیفے نے مکالمے کا پلیٹ فارم مہیا کیا، جو اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، اپنا نقطہ نظر شیئر کرنا چاہتے ہیں۔

یہاں ہر طرح کا ذہن اکٹھا ہوتا اور مکالمہ کرتا ہے۔"

محمد حسین کیفے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہاں دیسی اور فاسٹ فوڈ دونوں ہیں۔ ہم نے جگہ مختص کر رکھی ہے۔ مختلف افراد اور اداروں سے درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں کتابیں ڈونیٹ کی جائیں تاکہ اچھی لائبریری بن سکے۔ ہم اس کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مسلسل بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔

" دینور کے نوجوان پہلے والی نسلوں سے کیسے مختلف؟

صدیق پراچہ کو ریڈیو سے وابستگی کے دوران گلگت اور دینور میں طویل عرصہ قیام کا موقع ملا اور اس حوالے سے ان کے مشاہدات ایک قومی روزنامے میں شائع ہو چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”گلگت اور دینور کی معیشت بدل رہی ہے۔ اب وہاں سب سے بڑا ذریعہ روزگار تجارت ہے۔

زراعت کے برعکس تجارت مختلف برادریوں سے میل ملاپ کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دینور کی نوجوان نسل زیادہ کشادہ دل اور کھلی ڈلی ہے۔ وہ زندگی، ثقافت اور رسم و رواج کو روایتی انداز میں دیکھنے کے بجائے سوالیہ نظروں سے جانچتی ہے۔"

سیفی کہتے ہیں، ”نوجوان نسل اپنی شناخت کے بارے زیادہ حساس ہے۔

وہ اپنی زبان و ثقافت کی انفرادیت اور اہمیت پر زور دیتی ہے۔ انہیں اپنے حقوق کا زیادہ شعور ہے۔ وہ بھیڑ چال چلنے کے بجائے اپنی رائے بناتی اور پھر اسے آسانی سے تبدیل نہیں کرتی ہے۔"

اگر نوجوان نسل اپنی شناخت اور زبان کے معاملے میں زیادہ حساس ہے تو شینا اور بروشسکی بولنے والوں نے ایک اردو کے شاعر کا انتخاب کیوں کیا؟

محمد سلیم کہتے ہیں، ”یہ اہم سوال ہے لیکن آپ کو مقامی ماحول سمجھنا ہو گا۔

اگر ہم شینا کے کسی فنکار کے نام پر کیفے کھولتے تو بروشسکی والے مائنڈ کرتے، اگر بروشسکی کی تختی لگاتے تو شینا والے ناراض ہوتے۔ ہم چاہتے تھے کہ سب یہاں آئیں۔ یہ سب کا سانجھا پلیٹ فارم ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”غالب کی منڈلی جمتی تھی تو اس میں مولوی بھی ہوتے اور رند بھی، ہندو بھی اور مسلمان بھی۔ مکالمہ اسی چیز کا نام ہے کہ سب اپنی اپنی بات آزادی اور بلاخوف کہہ سکیں۔ اس کے لیے مرزا غالب سے بہتر کس کا نام ہو سکتا تھا؟"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو کرتے ہوئے محمد سلیم کہتے ہیں سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

اسلام آباد میں 3 روزہ اوورسیز کنونشن، شرکاء کیا کہتے ہیں؟

اسلام آباد میں 3 روزہ اوورسیز کنونشن کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس کنونشن میں دنیا بھر سے 1500 کے قریب اوورسیز پاکستانی شریک ہیں۔ کنونشن کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمات کو سراہنا ہے۔

کنونشن میں شریک ہونے والوں کا کہنا ہے کہ یہ کنونشن اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک شاندار موقع ہے کہ وہ دیگر تمام اوورسیز پاکستانیوں سے نہ صرف تعلقات قائم کریں بلکہ اپنے مسائل کو مل جل کر اجاگر کریں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کنونشن کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسا کنونشن پہلی بار ہو رہا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو حکومت ریڑھ کی ہڈی سمجھتی ہے اور اسی طرح ہمارا استقبال بھی کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی تمام تر مشکلات کو حل کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک بیٹھ کر ہمارے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اپنے مسائل حکومت تک پہنچائیں۔ مگر اس کنونشن کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کو موقع ملا ہے کہ وہ یہاں اپنے تمام تر تحفظات کو کھل کر بیان کر سکیں۔

واضح رہے کہ کنونشن کے پہلے روز وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز چوہدری سالک حسین کا کنونشن سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ کنونشن کا مقصد سمندرپار رہنے والے پاکستانیوں کی خدمات کوسرا ہنا ہے، اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل کا حل میری وزارت کی اولین ترجیح ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جا رہا ہے، پہلی بار ترسیلات زر 4ارب ڈالر سے تجاوز کرگئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد اوورسیز کنونشن چوہدری سالک حسین

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں 3 روزہ اوورسیز کنونشن، شرکاء کیا کہتے ہیں؟
  • ہر مہینے اگلے مہینے سے زیادہ ترسیلات زر آ رہی ہیں، قیصر شیخ
  • پاکستانی سفیر نے ایران میں قتل ہونیوالے شہریوں کی تفصیلات جاری کر دیں
  • “زیادہ تمباکو ٹیکس صحت نہیں، غیر قانونی مارکیٹ کو فروغ دیتا ہے” ، امین ورک
  • سابق کرکٹرز پر تنقید: شعیب اختر نے محمد حفیظ کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لے لیا
  • ٹیرف جنگوں اور تجارتی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہے، چینی وزارت خارجہ
  • ویرات کوہلی کی دوران میچ دل کی دھڑکنوں کا معائنہ کروانے کی ویڈیو وائرل، مداح پریشان
  • سلمان اکرم راجہ پارٹی کو کسی رجمنٹ کی طرح چلارہے ہیں، فواد چوہدری کا الزام
  • جے یو پی کراچی کے تحت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی
  • جمعیت علمائے پاکستان کی زیر قیادت اسرائیل مردہ باد ریلی، عوام کا فلسطینی مظلومین سے اظہارِ یکجہتی