Islam Times:
2025-04-13@23:40:19 GMT

سانحہ جامشورو کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، کاظم میثم

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

سانحہ جامشورو کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، کاظم میثم

اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جامشورو حادثے نے گلگت بلتستان کی فضا کو سوگوار کر دیا اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جامشورو حادثے نے گلگت بلتستان کی فضا کو سوگوار کر دیا اور اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس افسوسناک سانحے کو دو دن سے زیادہ گزرنے کے باوجود سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداوں کی سرد مہری سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کی سرزمین اہلبیت کے پیروکاروں کے لیے عرصہ دراز سے مقتل گاہ بنی ہوئی ہے۔ شہید حسن ترابی ہو یا شہید خادم حسین الغروی، کشمراہ کے فرزند شہید عارف حسین، شہید نبی گیول رنگاہ ہو یا سانحہ عباس ٹاون کے شہید عامر و دیگر، کراچی ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے کواردو کے دو بھائی شہید نذیر ہو یا بشیر، اسی طرح ملت جعفریہ کے قابل فخر عالم دین علامہ جلبانی ہو یاخرم زکی، علی رضا عابدی ہو یا رضا تقوی، سبط جعفر رضوی یا شہید تقوی ان سمیت دیگر ہزاروں شہدا کے قاتلوں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں حکومت ناکام رہی ہے۔   انہوں نے کہا کہ کراچی وادی حسین شہدا سے بھرے پڑے ہیں۔ ان سب کے ذمہ دار یہاں کی حکومتیں ہیں۔ سانحہ جامشورو میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مجرمانہ خاموشی انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔ سندھ حکومت بھی اس المناک سانحے پر چپ سادھ بیٹھی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ مجرموں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے اور ایف آئی آر بھی فرمائشی دفعات کے ساتھ بنائی جا رہی ہے۔ تھانہ اور پولیس کی قاتلوں کے ساتھ گھٹ جوڑ کے تانے بانے مل رہے ہیں۔ لہذا جوڈیشل انکوائری کے ذریعے سے سانحے کے حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس سانحے میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے تمام افراد نہ صرف قیمتی تھے بلکہ زین ترابی، آغا جان رضوی اور علی کاظم کو جانی خطرہ بھی لاحق تھا۔ وزیراعلی' سندھ اور سندھ حکومت نے اس سانحے پر جس طرح چشم پوشی کی وہ افسوسناک ہیں۔   ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف اس سانحے میں چار جانوں کا چلے جانا اور دوسری طرف خراش تک نہ آنا بہت سارے سوالوں کے جوابات کے لیے کافی ہے۔ شہدا کی میتوں کی کراچی سے روانگی ہو یا لواحقین کی حوصلہ افزائی ہر دو عمل سندھ کی حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ ہم بحیثت گلگت بلتستان کے باسی بھی اور بحیثیت مکتب اہلبیت کے پیروکار کے مقتدر حلقوں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے قاتلوں کو سزا دیں۔ سندھ کی سرزمین ہو یا کرم کی سرزمین، کوئٹہ ہو یا گلگت بلتستان ہمیں جینے کا حق دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گلگت بلتستان

پڑھیں:

گلگت بلتستان ججز تعیناتی وفاق کو آرڈر پسند نہیں تو دوسرا بنا لے، کچھ تو کرے: جسٹس جمال

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کیس کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019ء  پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان منظور عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ ہم مشروط طور پر اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے آرڈر 2018 ء پڑھ کر بھی سنایا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرڈر 2018ء کے تحت تو ججز کی تعیناتی وزیر اعلیٰ اور گورنر کی مشاورت سے کرنے کا ذکر ہے، گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ وزیراعظم گورنر کی ایڈوائز ماننے کے پابند نہیں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم جو کرنا چاہئیں کر سکتے ہیں تو ون مین شو بنا دیں۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے کہا کہ اسٹے آرڈر کی وجہ سے ججز کی تعیناتی کا معاملہ رکا ہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ اسٹے آرڈر ختم کر دیتے ہیں آپ مشاورت سے ججز تعینات کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر کے اس معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019ء کو ترمیم کر کے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے۔اسد اللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرڈر 2018ء کو ہم نہیں مانتے کیونکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2020 ء میں فیصلہ دیا اس پر عمل درآمد کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2019 ء میں مجوزہ آرڈر ہے اسے پارلیمنٹ لے جائیں اور قانون سازی کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے مجوزہ آرڈر 2019 ء نہ بنایا اور نہ اسے اون کرتے ہیں۔اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کے لیے تو یہ مانتے ہیں لیکن ججز تعیناتی کے لیے نہیں مانتے۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے بتایا کہ ججز کی عدم تعیناتی پر گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ میں آٹھ ہزار کیسز زیر التواء  ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2018ء ان فیلڈ ہے، اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019ء پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، مجوزہ آرڈر 2019ء مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا پھر دوسرا بنا لیں۔جسٹس امین الدین خان نے ہدیات کی کہ آرڈر 2018ء کے تحت ججز تعینات کریں۔گلگت بلتستان میں مشروط طور پر ججز تعینات کرنے کے لیے اٹارنی جنرل نے مخالفت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انصاف کی فراہمی میں تعطل ہے ہم چاہتے ہیں ججز تعینات ہوں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مستقبل میں 2018 ء کے تحت ججز تعیناتی وفاقی حکومت کو سوٹ کرتی ہے۔اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پانچ میں سے چار ججز کی تعیناتی پر ہمیں اعتراض نہیں، ایک جج کی تعیناتی سیکشن 34 کے تحت نہیں ہوئی اس پر ہمیں اعتراض ہے۔عدالت نے کہا کہ کیس میرٹ پر سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کیا تاہم عدالت نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
  • گلگت بلتستان کے وکلاء نے 16 اپریل سے عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا
  • ججز تقرری کیس، گلگت بلتستان حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی
  • سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز تقرریوں پرحکم امتناع ختم کردیا
  • سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز کی تقرریوں پر حکم امتناع ختم کردیا
  • سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز کی تقرریوں پر حکم امتناع ختم کر دیا
  • سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز تقرریوں پر حکم امتناع ختم کر دیا
  • گلگت بلتستان میں ججز تقرریوں سے متعلق بڑی پیشرفت
  • سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز تقرریوں پر حکم امتناع ختم کردیا
  • گلگت بلتستان ججز تعیناتی وفاق کو آرڈر پسند نہیں تو دوسرا بنا لے، کچھ تو کرے: جسٹس جمال