مصطفی قتل کیس،نوجوان کی والدہ کا بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
مصطفی اغوا اور قتل کیس میں مقتول نوجوان مصطفی کی والدہ نےایک نیوز پر ویڈیو بیان میں سائوتھ انویسٹی گیشن پولیس پر سوالات اٹھا دیئے، نوجوان کی والدہ کا کہنا تھا کہ 20روز تک پولیس صرف میرے بیٹے کی کردار کشی کرتی رہی۔والدہ نے کہا کہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساوتھ میرے بیٹے کی کردار کشی کرتا رہا،کوئی کام نہیں کیا ، ایس ایس پی علی حسن کیخلاف بھی مقدمہ ہونا چاہیے،ایس ایس پی علی حسن کیوں میری بات نہیں سن رہا تھا،ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساوتھ علی حسن کو معطل یا برخاست ہونا چاہیے۔والدہ نے مزید کہا کہ ایسے افسر جو عوام کی بات نہیں سنتے انہیں ہٹانا چاہیے،ایس ایس پی اے وی سی سی انیل حیدر سے مدد کا مطالبہ کیا ہے،اے وی سی سی نے10روز میں ہی کیس ٹریس کرلیا،لڑکی کے جھگڑے پر میرے بیٹے کا قتل مجھے سمجھ نہیں آتا،کالے شیشے اور بنا نمبر پلیٹ کی گاڑی ڈیفنس سے نکل کر حب کے مقام تک کیسے گئی؟۔
مصطفی کے قتل میں صرف ارمغان اور شیراز ملوث نہیں ،مصطفی بنا نمبر پلیٹ کی گاڑی ڈیفنس سے باہر نہیں لیکر جاتا تھا،مکینک کے پاس کورنگی بھی نمبر پلیٹ لگا کر جاتا تھا، گاڑی کو آگ لگانا اور دھماکہ ہونا کیا کسی نے آواز نہیں سنی ہوگی؟لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل مصطفی ارمغان کی کال نہیں ریسیو کررہا تھا۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ایس ایس پی
پڑھیں:
کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
سپریم کورٹ جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹوملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
دورانِ سماعت بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کرسکتی، آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سیکشن ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا؟
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جاسکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگرچہ مارشل لاء میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں آئین کا آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف آئین کا آرٹیکل 175 کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، فوج آئین کا آرٹیکل 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا (3) 8 کے مقصد کے لیے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹیو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹیو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟
وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ وقفہ کے بعد عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔