فلسطینیوں کو ملک بدر کرنے کے کسی بھی منصوبے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، فلسطینی صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 16 February, 2025 سب نیوز

غزہ:فلسطین کے صدر محمود عباس نے ایتھوپیا میں افریقی یونین کے اڑتیسویں سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین، فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے کسی بھی منصوبے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے، چاہے وہ غزہ کی پٹی میں ہو، مغربی کنارے میں یا مشرقی یروشلم میں۔

محمود عباس نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر اپنے جائز حقوق سے دستبرداری کو قبول نہیں کریں گے۔ فلسطین کا مستقبل جلاوطنی اور نقل مکانی پر نہیں بلکہ اپنے عوام کی وابستگی پر مبنی ہونا چاہئے۔

فلسطینی صدر نے کہا کہ فلسطینی قیادت غزہ کے لئے جنگ کے بعد تعمیر نو کے منصوبے پر کام کر رہی ہے، بشرطیکہ غزہ کے عوام اسی زمین پر رہیں۔ کسی بھی تعمیر نو کی بنیاد فلسطینی عوام کے وجود اور حقوق کے تحفظ پر ہونی چاہیے نہ کہ تعمیر نو کے نام پر آبادی کی منتقلی پر۔محمود عباس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فلسطین ،”عرب امن اقدام ” کے لیے پرعزم ہے اور امید کرتا ہے کہ آئندہ ہنگامی عرب سربراہ اجلاس میں تمام فریقین اس موقف کو مزید مضبوط بنائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کسی بھی

پڑھیں:

مغربی کنارے کا الحاق اور فلسطینی اتھارٹی کی تنسیخ، 10 صہیونی منصوبے

اسلام ٹائمز: رکاوٹوں ختم کروانے اور بستیوں کی تعمیر روکنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نابلس اور رام اللہ کے گورنریٹس کے درمیان واقع دیہات سب سے زیادہ بستیوں پرآباد کاروں اور سیکورٹی فورسز کے حملوں کا شکار ہیں۔ 2024 میں صیہونی آباد کاروں نے تقریباً 10,000 پھل دار درخت کاٹ دیے اور 904 مکانات اور عمارتیں تباہ کر دیں۔ اس سال صہیونی فوج اور آباد کاروں نے 16,612 حملے کیے جن میں سے 3,000 حملے صہیونی آباد کاروں نے کیے جس کے نتیجے میں آباد کاروں کی فائرنگ سے 10 فلسطینی کسان شہید ہوئے۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی

مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کا "اسٹیل وال" آپریشن مسلسل دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے اور اس میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، جن میں جنین، طلکرم کیمپ اور یہاں تک کہ صوبہ توباس، خاص طور پر تمون اور الفا کیمپ شامل ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ کارروائی صیہونی حکومت کی سیاسی اور سیکورٹی کابینہ کی جانب سے جنگی اہداف میں "مغربی کنارے میں سیکورٹی کو مضبوط بنانے" کی شق کو شامل کرنے کے فیصلے کے بعد شروع ہوئی اور صیہونی حکومت کے وزراء نے اس سال کو مغربی کنارے کے الحاق اور اس پر خودمختاری کے استعمال کے سال کے طور پر متعارف کرایا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں، صیہونی حکومت نے تمام شعبوں میں جارحانہ، پرتشدد اجتماعی سزا کی پالیسیاں اپنائی ہیں، جن میں قتل، نقل مکانی، حراست اور روزمرہ کے حملوں کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے اور عوامی سہولیات کی تباہی؛ اس آپریشن کے آغاز سے اب تک 60 فلسطینی شہید اور 220 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ دسیوں ہزار فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور صیہونی حکومت نے تقریباً 14 بار بمباری کی ہے۔

1۔ جبالیہ پلان کا اعادہ:
اسرائیلی چینل 12 ٹی وی نے 9 فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں جنین میں ہونے والی تباہی کو غزہ میں نسل کشی کی جنگ کے دوران جبالیہ اور غزہ کی تباہی کے تجربے کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے صہیونی ماہر محمد حلیح نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کا دائیں بازو سیکیورٹی رکاوٹوں کو توڑ کر اور خطے میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی جگہ کو استعمال کرتے ہوئے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔

2۔ جبری نقل مکانی:
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے ایک ہفتہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی حکومت کی فولادی دیوار کی کارروائی سے تقریباً 40,000 فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور بہت سے پناہ گزین کیمپوں کو خالی کر چکے ہیں، جس سے وہ رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ "آبادکاری کے امور کے ماہر، جمال جمعہ نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں نشاندہی کی کہ "جنین، طولکرم، نور شمس اور شمالی مغربی کنارے کے دیگر دیہاتوں میں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آپریشن صیہونی حکومت کی طرف سے  بنائے جانے والے منصوبے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جو کہ غزہ کو پیچھے دھکیلنے کے لیے لاگو کیا گیا ہے، بجلی، پانی سمیت تمام سہولیات،انفراسٹرکچر جیسے سڑکیں، اور طبی مراکز وغیرہ کو تباہ کرنا ہے جس کی وجہ سے فلسطین کے مختلف علاقوں میں رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔"

3۔ ابتدائی قوانین
29 جنوری کو، اسرائیلی کنیسٹ نے ایک ابتدائی اجلاس میں ایک قانون منظور کیا جو اسرائیلی آباد کاروں کو مغربی کنارے میں زمین خریدنے اور اس کے مالک ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ صیہونی اخبار کے رپورٹر کے مطابق یہ قانون غیر ملکیوں کو جائیداد کی لیز اور فروخت سے متعلق اردنی قانون کو مؤثر طریقے سے منسوخ کرتا ہے، یا 1953 کا قانون نمبر 40، جس میں مغربی کنارے میں ایسے غیر ملکیوں کی طرف سے زمین خریدنے پر پابندی تھی جن کے پاس اردنی یا عرب شہری نہیں ہیں۔

4۔ قدیم مقامات کا الحاق
2023 میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینی قدیم مقامات کو اسرائیلی نوادرات اتھارٹی کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا، اور نوا سپیگل نے 7 جولائی 2024 کو اسرائیلی اخبار ہارتیز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں 3,200 سے زائد قدیم مقامات ہیں، جن میں سے زیادہ تر Area C، سو سے زائد Area B کے اندر واقع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ نیسیٹ میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ یہ علاقے یہودی تاریخ سے گہرے جڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان دریافتوں کا PA سے کوئی تاریخی یا دوسرا تعلق نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہودیہ اور سامریہ (مغربی کنارے) کی سیاسی حیثیت کا اسرائیل کی اپنے لوگوں سے متعلق آثار قدیمہ کی دریافتوں کی ذمہ داری پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔"

5۔ بستیوں کی تعمیر
21 جنوری 2025 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 کے دوسرے نصف حصے میں نام نہاد "B" علاقوں میں 7 نئے آباد کاری مراکز کی تعمیر کا مشاہدہ کیا گیا، جو کہ 1995 میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کی شقوں کی پہلی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق "B" کے زیرِ انتظام شہری علاقوں سمیت مکمل طور پر سرحدی علاقوں میں آباد ہیں۔ سروے اینڈ کنسٹرکشن اتھارٹی اور صیہونی حکومت کے پاس ان علاقوں پر صرف سیکورٹی کنٹرول ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے سال مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 52 آباد کاری مراکز کی تعمیر کا مشاہدہ کیا گیا، جو کہ مغربی کنارے میں آباد کاری کے مراکز کی کل تعداد میں 13 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

6۔ اتھارٹی کی منسوخی:
گذشتہ سال جولائی میں اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے کے 3 فیصد حصے پر محیط ایریا B خاص طور پر صحرائے بیت المقدس میں فلسطینی اتھارٹی کے انتظامی اختیارات کو منسوخ کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ان علاقوں کو اسرائیلی سول انتظامیہ کی نگرانی میں کام کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے آباکاری امور کے ماہر جمال جمعہ نے بتایا کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد غیر ملکی اداروں اور فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے کے 60 فیصد علاقے پر محیط علاقے C میں تعمیر و ترقی کو روکا اور ان علاقوں کے مکینوں کو نقل مکانی اور اپنے گھر چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا، جس کی وجہ سے اس وقت صرف 300,000 فلسطینی وادیٔ فلسطین میں موجود ہیں۔

7۔ آبادکاروں کی دہشت گردی
صیہنیوں کے لئے غزہ کی جنگ ایک بار پھر مغربی کنارے میں سب سے بڑے دہشت گردانہ  حملوں کا بہانہ بن گئی۔ رکاوٹوں ختم کروانے اور بستیوں کی تعمیر روکنے کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نابلس اور رام اللہ کے گورنریٹس کے درمیان واقع دیہات سب سے زیادہ بستیوں پرآباد کاروں اور سیکورٹی فورسز کے حملوں  کا شکار ہیں۔ 2024 میں صیہونی آباد کاروں نے تقریباً 10,000 پھل دار درخت کاٹ دیے اور 904 مکانات اور عمارتیں تباہ کر دیں۔ اس سال صہیونی فوج اور آباد کاروں نے 16,612 حملے کیے جن میں سے 3,000 حملے صہیونی آباد کاروں نے کیے جس کے نتیجے میں آباد کاروں کی فائرنگ سے 10 فلسطینی کسان شہید ہوئے۔ اس سال فلسطینیوں سے 46,597 دونم اراضی بھی ضبط کی گئی تھی اور صیہونی حکومت نے 24,000 دونم اراضی کو قومی زمین ہونے کے بہانے ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے جو 1967 میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد زمین کی ضبطی کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔

8۔ فلسطینی شہروں کے گرد حصار:
گزشتہ سال 14 اگست کو اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بیت المقدس کے مغرب میں تعمیر ہونے والی صہیونی بستی نہال ہلیٹس کو 148 فیڈان اراضی مختص کرنے کا حکم جاری کیا۔ 21 جنوری کو شائع ہونے والی "مغربی کنارے میں 2024... الحاق اور نقل مکانی کا سال" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں، پیس ناؤ تنظیم نے اعلان کیا کہ سول انتظامیہ اور یروشلم میونسپلٹی نے تعمیراتی اجازت نامے نہ  ہونےکے بہانے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 1,280 عمارتوں کو مسمار کر دیا ہے۔

9۔ سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن کا قیام:
29 مئی کو صیہونی حکام نے زمین اور بستیوں سے متعلق انتظامی اختیارات فوج سے حکومت کے سول شعبے کو منتقل کر دیے۔ تاکہ صہیونی بستیوں سے متعلق اختیارات صہیونی فوج سے لے کر "سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن" کو منتقل کر دیے جائیں، جو براہ راست سموٹریچ کی وزارت کی نگرانی میں کام کرتی ہے اور جس کے سربراہ، یھودا الباہو، "ریگافیم" آبادکاری تنظیم کے قیام میں سموٹریچ کے شراکت دار ہیں۔ 19 اگست 2024 کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ "قانونی اور ساختیاتی تبدیلیاں حکومت کی خودمختاری کے استعمال کی پالیسی کو نافذ کرتی ہیں اور مقبوضہ علاقوں کی علیحدہ انتظامیہ کو ختم کرتی ہیں، اس لیے سیٹلمنٹ ایڈمنسٹریشن مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے معاملے کو ادارہ جاتی شکل دیتی ہے۔"

10۔ امریکی حمایت:
21 جنوری 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث اسرائیلی آباد کاروں پر سے پابندیاں اٹھانے کے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔ یہ اقدام سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے مغربی کنارے میں ہنگامی حالت کو مزید ایک سال کے لیے بڑھانے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں سامنے آیا ہے۔ عبرانی زبان کے اخبار اسرائیل ٹوڈے نے گزشتہ نومبر میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو صیہونی حکومت کے سخت حامی ہیں اور مغربی کنارے کے بجائے "یہودا اور سامریہ" کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پیس موومنٹ اپنی 2024 کی رپورٹ کا اختتام یہ کہہ کر کرتی ہے کہ "قانونی، انتظامی اور مادی صورتحال کسی بھی چیز سے زیادہ واضح طور پر اسرائیل کے مزید تجاوز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔" اس طرح، 2024 نہ صرف آباد کاری کے منصوبے کے عروج کا سال تھا، بلکہ الحاق کا سال بھی تھا۔ یہاں تک کہ صیہونی حکومت نے مقبوضہ علاقوں کو غاصب ریاست کا ایک لازم و ملزوم حصہ بنا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ فلسطین کا سب سے بڑا دشمن ہے، فلسطینی عوام 
  • امریکا فلسطین کا سب سے بڑا  دشمن ہے، فلسطینی عوام 
  • اسلامی جہاد کے وفد کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • مغربی کنارے کا الحاق اور فلسطینی اتھارٹی کی تنسیخ، 10 صہیونی منصوبے
  • خامنہ ای نے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی مسترد کردی
  • غزہ فلسطینیوں کا ہے، سیاسی سودے بازی کیلئے بارگیننگ چپ نہیں، چین
  • اسلام آباد میں منعقد ہونیوالی بین الاقوامی فلسطین کانفرنس کا 14 نکاتی اعلامیہ
  • محمود عباس نے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کی مالی امداد بند کرنے سے انکار پر محکمہ امور اسیران کے سربراہ کو برطرف کر دیا
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ کے قسط وار ناکام منصوبے
  • صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ قسط وار ناکام منصوبے