مشکل وقت میں خود کو زیادہ خدا کے قریب محسوس کرتی ہوں: یمنیٰ زیدی
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اور ہر دلعزیز اداکارہ یمنیٰ زیدی نے کہا ہے کہ مشکل وقت میں خود کو زیادہ روحانی اور خدا کے قریب محسوس کرتی ہوں۔
ایک انٹرویو کے دوران یمنیٰ زیدی نے کہا کہ میں نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور تجربہ کیا ہے، دوسری چیزیں آتی جاتی رہتی ہیں جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف محبت اور وفاداری ہے۔
معروف اداکارہ نے اپنے والد کے انتقال اور اس کے بعد کی زندگی پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح غم نے زندگی میں اہم کردار ادا کیا اور اللّٰہ تعالیٰ کے قریب تر کیا۔
اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے یمنیٰ نے کہا کہ میرے والد کی میری زندگی میں بہت اہمیت تھی، وہ بہت جلد مجھ سے جدا ہوگئے تھے، لیکن والد نے مجھ میں وفاداری، ایمانداری اور نیکی جیسی خوبیاں پیدا کیں جو ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔
یمنیٰ نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی زندگی میں ابو کی کمی کو بہت محسوس کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ مزید وقت گزارنا چاہتی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: زندگی میں
پڑھیں:
علم ہے رازِ حیات
اسلام ٹائمز: خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی
علم وہ روشنی ہے، جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر راستے دکھاتی ہے۔ علم کے بغیر زندگی اس ویران صحرا کی مانند ہے، جس میں بھٹکنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔علم ہی وہ طاقت ہے، جس سے انسان اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو وحی نازل فرمائی، وہ علم کے بارے میں تھی۔ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ تجربات، مشاہدات اور غور و فکر سے بھی علم حاصل ہوتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا کوئی وقت اور عمر نہیں ہوتی۔انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔
علم کی بدولت انسان دنیا کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ یہ اسے مسائل کو حل کرنے اور نئے آئیڈیاز پیدا کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ علم انسان کو باشعور بناتا ہے اور اسے اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے قابل بناتا ہے۔ علم کی اہمیت صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں، بلکہ اجتماعی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ علم کی بدولت معاشی خوشحالی آتی ہے اور سماجی برائیاں ختم ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم کی اہمیت کو کم سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تعلیم کو صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ علم کا حقیقی مقصد انسان کو بہتر انسان بنانا ہے۔
توجہ رہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے، جس میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، لیکن یہی نشیب و فراز زندگی کو بامعنی اور دلچسپ بناتے ہیں۔ زندگی کا کوئی ایک راز نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف رازوں کا مجموعہ ہے، جنہیں سمجھ کر ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ زندگی کا سب سے پہلا اور اہم راز خود شناسی ہے۔ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم کون ہیں، ہم کہاں سے آئے ہیں۔ ہمارا خالق کون ہے۔؟ہماری خلقت کا ہدف کیا ہے؟ ہماری طاقتیں کیا ہیں؟ ہماری کمزوریاں کیا ہیں؟ اور ہم زندگی سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمیں کیسے زندگی گزارنی چاہیئے۔؟
جب ہم خود کو جان لیتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں تجربات سے گزرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور بدلتے ہیں۔ اس سفر میں خود شناسی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود شناسی کا مطلب ہے اپنی ذات کو سمجھنا، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو جاننا، اپنی اقدار اور مقاصد کا تعین کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو ہمیں اپنی زندگی کو بامعنی اور کامیاب بنانے میں مدد کرتا ہے۔ خود شناسی ذاتی ترقی کی بنیاد ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہے۔
جب ہم اپنی اقدار اور مقاصد کو جانتے ہیں تو ہم ایسے فیصلے کرسکتے ہیں، جو ہمارے لیے صحیح ہوں۔ خود شناسی ہمیں دوسروں کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے میں مدد کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھتے ہیں تو ہم دوسروں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ خود شناسی ہمیں ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو قبول کرتے ہیں تو ہم زیادہ پر اعتماد اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ خود شناسی کیسے حاصل کریں۔؟ خود شناسی ایک مسلسل عمل ہے، جس میں وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ انسان مختلف طریقوں سے خود شناسی حاصل کرسکتا ہے۔ سب سے اہم طریقہ غور و فکر ہے۔ اپنے خیالات، احساسات اور رویوں پر غور کریں۔ آپ کیا سوچتے ہیں؟ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ آپ کیوں اس طرح برتاؤ کرتے ہیں؟
دوسرا اہم طریقہ تجربہ ہے۔ نئی چیزیں آزمائیں۔ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔تیسرا اہم طریقہ مطالعہ ہے۔ خود شناسی کے بارے میں مختلف شخصیات کی کتابیں اور مضامین پڑھیں۔ چوتھا اہم طریقہ مشاورت ہے۔ کسی مشیر سے بات کریں۔ وہ آپ کو اپنی ذات کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے میں مدد کرسکتا ہے۔ الغرض خود شناسی ایک قیمتی تحفہ ہے، جو آپ خود کو دے سکتے ہیں۔ یہ آپ کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور ایک کامیاب اور خوشگوار مستقبل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے تو آئیے آج ہی خود شناسی کے سفر پر گامزن ہوں اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیں۔ توجہ رہے کہ کردار سازی میں علم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی حس سے نوازتا ہے۔
علم کی بدولت ہی انسان معاشرے میں بہتر رویوں کا مظاہرہ کرتا ہے اور منفی سرگرمیوں سے بچتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی کردار سازی پر توجہ دیں۔ اساتذہ اپنے طلباء کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے کردار پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک استاد کا اپنا ذاتی کردار ایسا ہونا چاہیئے کہ شاگرد اس پر رشک کرے۔ اگر طلبہ کو زندگی کے ابتدائی مراحل میں ایمانداری، انصاف پسندی اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھایا جائے تو وہ آگے چل کر معاشرے کے فعال اور ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں۔ کردار سازی کے ذریعے نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
انہیں والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سکھائے جاسکتے ہیں اور یہ بھی سکھایا جاسکتا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں کیسے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں تبدیلی لائی جائے، تاکہ طلبہ پر پڑھائی کا دباؤ کم ہو اور انہیں اپنی شخصیت کو نکھارنے کا موقع مل سکے۔ درسگاہوں میں کردار سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جانا چاہیئے، تاکہ طلبہ مہذب اور با اخلاق بن سکیں۔کردار کی تعلیم ایک جامع اصطلاح ہے، جو بچوں میں خوش اطواری اور خوش اسلوبی کی صلاحیتیں ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ کردار سازی پر مبنی تعلیم کو سماجی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے ترجیح دی جانی چاہیئے۔ بے شک علم ہے راز حیات۔