کراچی سے ہنی منانے کے لیے جانے والا نوبیاہتا جوڑا آزاد کشمیر کے ایک گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں دم گھنٹے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔رواں ماہ نئی زندگی کی شروعات کرنے والا نوبیاہتا جوڑا سید طحہٰ اور دعا زہرہ ہنی مون بنانے آزاد کشمیر گئے تھے۔ تاہم ان کی زندگی کی شروعات کا پہلا حسین سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔یہ جوڑا ہنی مون کے دوران آزاد کشمیر کے آٹھ مقام کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل میں مقیم تھا، جہاں کمرے میں دم گھٹنے سے دونوں جاں بحق ہوگئے۔متوفی شوہر سید طحہٰ مکینیکل انجینئر اور اہلیہ دعا زہرہ بی بی اے کی طالبہ تھی۔ ان کی شادی رواں ماہ 4 فروری جب کہ ولیمہ 8 فروری کو ہوا تھا۔متوفی کے اہلخانہ کے مطابق جوڑے سے آخری بار فون پر جمعہ کی رات بات ہوئی تھی۔ دونوں کو ہفتہ کی صبح گیسٹ ہاؤس سے نیلم ویلی روانہ ہونا تھا۔تاہم اگلی صبح دونوں مردہ حالت میں اپنے کمرے میں پائے گئے۔ پولیس کے مطابق گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں سلنڈر کے استعمال سے گیس بھر گئی تھی۔متوفی میاں بیوی کی میتیں آج اسلام آباد ایئرپورٹ سے کراچی منتقل کی جائیں گی اور یہاں ان کی تدفین کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی زندگی کیسی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کے مطابق ان کے لیے وہاں با عزت روزگار کے مواقع زیادہ ہیں۔ وہ وہاں اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب پیسے کما رہے ہیں جو ان کے لیے پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ ان افراد کی تنخواہیں ماہانہ دو سے تین ہزار ملائیشین رنگٹ کے درمیان ہیں (ایک ہزار رنگٹ تقریبا ساٹھ ہزار روپے کے برابر بنتے ہیں)۔

چونکہ ہم سیاح تھے اس لیے ہمارا زیادہ تر واسطہ کیشیئیر، بیروں، چوکیداروں اور صفائی ستھرائی کے عملے سے ہی پڑنا تھا۔

بہت سوں کو ان کی کمپنی کی طرف سے رہائش اور دو وقت کا کھانا بھی مل رہا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کے لیے کچھ رقم رکھ کر باقی پیسے پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ ملائیشیا میں جگہ جگہ ایسی دکانیں موجود ہیں، جو پاکستان سمیت، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، فلپائن اور سری لنکا سے ملائیشیا آنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کو اپنے اپنے ممالک میں رقوم کی منتقلی میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مزدور بمشکل اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ انہیں تفریح کے لیے نہ وقت مل پاتا ہے نہ وسائل۔ ملائیشیا میں یہ لوگ اپنی تفریح پر بھی پیسے خرچ کر رہے تھے۔ اکثر نے ملائیشیا کے مشہور سیاحتی مقامات کی سیر کی ہوئی تھی اور چھٹی والے دن بھی دوستوں کے ساتھ شہر میں کہیں نہ کہیں جانے کا منصوبہ بنا لیتے تھے۔ محنت کشوں اور مزدوں کے علاوہ بھی بہت سے پاکستانی روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں ملائیشیا میں مقیم ہیں۔

ملائیشیا کی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پاکستانی انجینئرز، آئی ٹی ماہرین، اور دیگر پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔

بیورو آف امیگریشن اینڈاوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971 سے 2025 تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ملائیشیا روزگار کے لیے منتقل ہو چکے ہیں۔ سنہ 2023 میں بیس ہزار افراد پاکستان سے ملائیشیا گئے تھے۔ ملائیشیا میں پاکستانی طالب علموں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔

علاوہ ازیں، ان لوگوں کے گھروالے بھی وہاں موجود ہیں جس کے باعث ملائیشیا میں پاکستانیوں کی تعداد اس تخمینے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں۔ ملائیشیا جغرافیائی طور پر پاکستان کے قریب واقع ہے۔ چھ گھنٹے کی براہِ راست پرواز کے ذریعے ملائیشیا پہنچا جا سکتا ہے جبکہ کم بجٹ میں سری لنکا کے راستے بھی بآسانی سفر کیا جا سکتا ہے۔

ملائیشیا کی معیشت مستحکم ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع موجود ہیں اور وہاں معیارِ زندگی بھی بہتر ہے۔

ملائیشیا میں اسلامی ثقافت کے رنگ کافی گہرے ہیں۔ ملائیشیا منتقل ہونے والے پاکستانی مسلمانوں کو بہت زیادہ ثقافتی جھٹکوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں زندگی کو ایک مخصوص ترتیب میں گزارنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے جو کہ دیگر ممالک میں بھی اپنانا ضروری ہوتا ہے۔

ملائیشیا کثیر الثقافتی ملک ہے۔ وہاں مالائی، چینی اور بھارتی نژاد افراد کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ ان کے امتزاج کے باعث ملائیشیا میں کسی بھی قمیت کے لوگوں کا رہنا چین، جاپان اور کوریا جیسے اپنی واضح پہچان اور ثقافت رکھنے والے ممالک میں رہنے کی نسبت آسان ہے۔ ملائیشیا کی پاکستانیوں کے لیے ویزہ پالیسی بھی آسان ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے وہاں جانا بہت مشکل نہیں۔

ملائیشیا میں کم خرچ میں بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے لیکن ایک مناسب زندگی گزارنے کے لیے زیادہ پیسوں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس لیے یہاں صرف وائٹ کالر نوکری پیشہ افراد یا کاروباری افراد اپنے خاندانوں کے ہمراہ رہنا برداشت کر سکتے ہیں۔

ملائیشیا میں بغیر نوکری کے رہنا مہنگا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ جن کے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں، ملائیشیا سے واپس اپنے ممالک لوٹ جاتے ہیں۔

ملائیشیا کی شہریت حاصل کرنا بھی قدرے مشکل کام ہے، لہٰذا لوگ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد کسی ایسے ملک میں جانا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں کچھ سالوں بعد شہریت مل سکے۔

ملائیشیا خواتین کے لیے بھی محفوظ ہے۔ خواتین رات گئے تک سڑکوں پر نظر آتی ہیں، کیفے میں بیٹھی کافی پی رہی ہوتی ہیں اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہوتی ہیں۔ میرا قیام کوالا لمپور کے مشہور جڑواں ٹاوروں کے قریب تھا۔

رات کو ٹاور دیکھنے کے لیے نکلے تو آس پاس بہت سی خواتین موجود تھیں جو بے فکری سے وہاں بیٹھی ٹاورز کا نظارہ کرتی ہوئی نظر آئیں۔

ملائیشیا اپنے مقامی افراد اور غیر ملکیوں کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی زندگی فراہم کرتا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی بہت سے پاکستانی موقع ملنے پر ملائیشیا منتقل ہونا پسند کرتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: واٹر ٹینکر نے ایک اور ماں کی گود اجاڑ دی
  • ہوٹل میں جاسوس کیمروں سے بچنے کیلئے تنہا خاتون نے بیڈ پر اپنا خیمہ تیار کرلیا
  • پراسرار حالات میں ہلاک ہونیوالی نوبیاہتا دلہن کی لاش برآمد
  • کراچی میں ٹرالر اور ڈمپر بے قابو؛ ٹکر سے مزید 2 افراد زندگی کی بازی ہار گئے
  • ایران: بائیک پر دنیا گھومنے والا جوڑا جاسوسی کے الزام میں گرفتار
  • ملائیشیا میں پاکستانیوں کی زندگی کیسی ہے؟
  • وقت اور زندگی کی حقیقت
  • شادی کے طویل ترین دورانیے کا ریکارڈ اپنے نام کرنے والا جوڑا
  • صفائی کے بہانے کمرے میں بلاکر ملازمہ سے جنسی زیادتی کرنے والا ملزم گرفتار 
  • علم ہے رازِ حیات