Daily Ausaf:
2025-02-20@20:27:01 GMT

کون ہارا ، کون جیتا؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
غزہ کے نوجوانوں نے جنگ کو ایک نیا رخ دیا ہے، تاریخ کا ایک نیا باب وا کیا ہے، بموں اور ٹینکوں کے سامنے اپنے عزم، حوصلے اور جرات و بہادری کو لاکھڑا کیا ہے۔ تیزی سے وائرل ہوتی ویڈیوز کو روکنے کیلئے سوشل میڈیا پر بیٹھے متعصب مالکان اورامریکیو اسرائیلی بیانیے کے چوکیدار اس فکر میں ہیں کہ ان ویڈیوز پر کوئی نئی پابندی لگا دیں۔ ایسی خبروں کو پھیلنے سے روکیں اوردنیاکو صرف وہ جھوٹ دکھائیں جو یہودی مفادات کا تحفظ کرتا ہو۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کسی نے سوشل میڈیاپر کیا خوب شئیر کیا ہے: ایک شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ جنگ ختم ہورہی ہے، ہم غزہ کے بچوں کو اپنے گھر بسائیں گے۔ اس شخص کی بیوی نے جواب دیا: نہیں! بلکہ ہم اپنے بچوں کو غزہ کے بچوں کے پاس بھیجیں گے تاکہ وہ غزہ کے کھنڈرات میں ان کی تربیت کریں۔اس خاتون سے سوال کیا گیاکہ تم نے ایساکیوں سوچا؟اس کاجواب بھی سن لیں کہ یہ کوئی معمولی خاتون نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی اعلیٰ عہدیدار ہے اوراس کاتعلق بھی یورپ کے ایک ملک سے ہے۔اس نے کہا کہ میں نے دوران جنگ غزہ میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کوملنے کااتفاق ہوا،ایک بات سب میں مشترک دیکھی کہ وہ مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود،اپنی آنکھوں سے اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں اورتمام عزیزواقارب کے پرخچے اڑتے دیکھنے کے باوجودصبرکادامن یہ کہتے ہوئے تھامے رکھا کہ یہ تمام شہدا توکامیاب ہوگئے ہیں اورہمیں کامیابی کاراستہ دکھاگئے ہیں۔ان تمام بچوں کامانناتھاکہ موت سے کیساخوف،کیاوائٹ ہائوس اوردیگرمحلوں میں رہنے والوں کو موت نہیں آتی؟ ۔۔۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
مسلمانوں کو بے دخل کرنے، ان کے علاقوں سے دربدر کرنے اور دوسرے ملکوں میں بسانے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کے بجائے ظالم فوجی اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے فلسطینیوں پر مظالم کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنےمیں مصروف ہیں۔ چھٹیوں میں دوسرے ملکوں کا سفر کرنے والے یہودی فوجیوں کو خطرہ ہے کہ کوئی پہچان نہ لے اور ہماری فیس بک پوسٹس ہمارے خلاف گواہ نہ بن جائیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اس جنگ کے کئی پہلو ہیں، ایک طویل تاریخ،فلسطینیوں نے سامراجی طاقت سے مذاکرات کرکے دیکھے، اقوام متحدہ کی ہر شرط مان کر دیکھ لیا مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ سات اکتوبر سے ایک دن پہلے پہنچ جائیے اور کھڑے ہوکر دیکھیے تو سارا عالم عرب ہی اسرائیل سے دوستی گانٹھنے میں مصروف تھا، فلسطینیوں کا کسی جگہ بھی نام تک نہیں تھا۔ اپنے مفادات کی اسیر اسلامی ریاستیں فلسطینیوں کی عسکری مدد تو کب کی چھوڑ چکیں، انہوں نے سفارتی اور اخلاقی امداد بھی بندکردی تھی۔ ایسے میں سات اکتوبر کا واقعہ پیش آیا اور بازی الٹ دی گئی۔ دنیا کو پتہ چل گیا کہ فلسطینی الگ وجود رکھتے ہیں، ان کی مزاحمت زندہ ہے، ان کے حوصلے بلند اور ان کے جوان آج بھی وطن پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیاگیا ہے اور اب وہ قصہ ماضی ہے، انہیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہل غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈلفیا اور نیٹسارم کاریڈور اب ہمیشہ کیلئے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انہیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیت حنون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انہیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیئر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ ادھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں واضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دےرہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حساب سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکا کمزور پڑ گیا یا اس نے منہ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منہ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انہیں کوئی مسلمان ملک پانی ا ور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟یہ ہے کہ امریکی صدر اور نو منتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انہیں خبر ہو کہ جن کا خیال تھا رہے ہیں کہ کی مزاحمت جائے گا تھا کہ غزہ کے

پڑھیں:

’’جہنم کے دروازے‘‘

اسرائیل کے وزیر ِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق کام شروع کردیا گیا ہے۔ ۱۶ فروری کو امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو سے ملاقات میں نیتن یاہو نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کو محفوظ مستقبل سے ہم کنار کرنے کا ایک یہی طریقہ ہے۔ واضح رہے کہ امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو نے اتوار کو مشرقِ وسطیٰ کا دورہ اسرائیل میں قدم رکھ کر شروع کیا۔ اسرائیلی قیادت سے مشاورت کے بعد وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے اور امید کی جارہی ہے کہ وہ اس دورے میں صدر ٹرمپ کے مذموم منصوبے کے لیے بھرپور حمایت یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مارکو روبیو نے کہا کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات سے جنگ بندی سے متعلق دوسرے دور کی بات چیت کھٹائی میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

اسرائیلی وزیر ِاعظم کا کہنا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا رضاکارانہ ہوگا تاہم ناقدین کچھ اور کہتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ فلسطینیوں کو بزور نکالا جائے گا اور اسرائیل نے غزہ میں بہت زیادہ تباہی اِسی لیے یقینی بنائی کہ فلسطینیوں کو اُن کے علاقوں میں دوبارہ بسانا ممکن نہ ہوسکے۔ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی غزہ کی تباہی کو فلسطینیوں کے انخلا کے جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ غزہ کے حوالے سے امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر ِاعظم کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر حماس نے اسرائیل کے باقی ماندہ مغویوں کو نہ چھوڑا تو ایک بار پھر ویسی ہی تباہی واقع ہوگی جیسی ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد برپا کی گئی۔ حماس کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ نہ مانی تو پھر جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ غزہ کی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ دو ہفتوں میں ختم ہونے والا ہے۔ دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت دو ہفتے قبل شروع ہونے کا امکان تھا۔ اس دوسرے مرحلے میں حماس کی طرف سے باقی ماندہ درجنوں اسرائیلی مغوی چھوڑے جائیں گے۔ اِن کے بدلے مزید فلسطینی قیدی بھی رہائی پائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے ہونا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی اور اسرائیلی فوجی علاقے سے نکل جائیں گے۔

مشرقِ وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے فاکس نیوز کو بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت یقینی طور پر ہوگی۔ اسرائیل، مصر اور قطر سے مثبت کالز ملی ہیں۔ مصر اور قطر ثالت ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں جن اسرائیلیوں کو چھوڑا جائے گا اُن میں ۱۹ فوجی بھی شامل ہیں۔ نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات چیت پر مشاورت ہوگی۔ یاد رہے کہ امریکا نے اسرائیل کو ۹۰۰ کلو گرام والے ایم کے ۸۴ بموں کی شپمنٹ دے دی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یہ شپمنٹ روک دی تھی۔ رواں ہفتے غزہ پر اسرائیل کی طرف سے تھوپی جانے والی جنگ کے ۵۰۰ دن بھی پورے ہو رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد لڑائی دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم ایسا کرنا باقی ماندہ مغویوں کے لیے ڈیٹھ وارنٹ کے مترادف ہوگا۔

مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ جب تک حماس سلامت ہے، تشدد اور دہشت گردی کا امکان باقی رہے گا۔ اور یہ کہ حماس حکومت بھی چلاسکتی ہے۔ حماس نے گزشتہ ماہ جنگ بندی کے آغاز پر غزہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے پر زور دیا۔ غیر معمولی تباہی کے باوجود حماس چاہتی ہے کہ غزہ اُس کے کنٹرول میں رہے۔ نیتن یاہو نے حماس کو ’’چانس‘‘ دیا ہے کہ وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے اور اپنے تمام قائدین کو جلا وطن کردے۔ حماس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ اب بھی اس بات پر زور دے رہی ہے کہ غزہ پر حکومت فلسطینیوں کی ہونی چاہیے۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوع نے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے گفتگو میں کہا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ غزہ میں یا تو فلسطینیوں کی قومی حکومت ہو یا پھر کوئی ٹیکنوکریٹک کمیٹی غزہ کا نظم و نسق سنبھالے۔

امریکا بضد ہے کہ غزہ اُس کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ امریکی وزیر ِخارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کسی کے پاس غزہ کے لیے زیادہ معقول پروگرام یا پلان ہے تو پیش کرے۔ انہوں نے عرب ریاستوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کے بعد کی صورتِ حال کے لیے کوئی ایسا منصوبہ پیش کریں تو اسرائیل کے لیے قابل ِ قبول ہو۔ مارکو روبیو کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عرب دنیا کو حماس کے جنگجوؤں سے لڑنے کے لیے فوجی بھی بھیجنے چاہئیں! عرب دنیا مخمصے کا شکار ہے۔ وہ نہ تو فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور آباد کرسکتی ہے اور نہ ہی حماس کے جنگجوؤں سے لڑنے کے معاملے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں ہی منظرنامے اُس کے لیے ڈراؤنے خواب جیسے ہیں۔ اگر عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں کے خلاف جانے کی کوشش کی تو اُنہیں اندرونِ ملک انتہائی نوعیت کے ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں خطے کے معاملات مزید غیر متوازن ہوجائیں گے۔ مصر ۲۷ فروری کو ایک کانفرنس منعقد کر رہا ہے۔ وہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کسی ایسے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت فلسطینی اپنے علاقوں سے نہ نکلیں اور تعمیر ِنو کی بھی گنجائش پیدا ہو۔ انسانی حقوق کے گروپس نے خبردار کیا ہے کہ فلسطینیوں کو اُن کے علاقوں سے نکالنا بین الاقوامی قانون کی شدید خلاف ورزی پر مبنی اقدام ہوگا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور بسانے کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ (انڈیا ٹوڈے)

متعلقہ مضامین

  • شہر قائد میں ڈکیتی مزاحمت پر ایک اور شخص قتل، 2 ماہ میں تعداد 13 ہو گئی
  • کراچی: بلدیہ ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر نوجوان قتل
  • ’’جہنم کے دروازے‘‘
  • اینٹی بائیوٹک مزاحمت، ایک سنگین بحران
  • اسلامی جہاد کے وفد کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • میانوالی: ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، سیکیورٹی گارڈ اور لڑکا جاں بحق
  • اناج منڈی کے تاجر سے لوٹ مار،مزاحمت پر گولی مار دی گئی
  • پاکستان کی وہ قومی ٹیم جس نے کرکٹ کا ایک بھی میچ نہیں ہارا
  • اسرائیل غزہ جنگ ہار چکا ،سابق سربراہ اسرائیلی قومی سلامتی کونسل