بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
سچ کی شہ رگ پر انگلی رکھ کر ریاستیں چلائی جاسکتی ہوتیں تو کوئی آمر قضا کا سزاوار نہ ہوا ہوتا۔حکمرانوں نے 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ کی تلوار ایک ساتھ لٹکا کرجو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس پر پھولے نہیں سماتے وہ بھول گئے ہیں کہ کبھی کبھی صیاد اپنے ہی دام میں آجایا کرتا ہے ۔
حکمران جمہوریت کے گھوڑے پر چڑھ کر آئیں یا آمریت کی رتھ پر سوار ہوکر، اپنے کئے کی جزا وسزا پائے بغیر کبھی نہیں گئے۔ فارم 47 کی کاغذی کشتی ہچکولے کھانے کے باوجود بھی ڈوب نہیں رہی تو یہ حکمرانوں کی لیاقت کا کمال نہیں بلکہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ کی حب الوطنی کا طلسم ہے، جس کا بچپن خیالی نقش تراشنے والے محب وطن کی اس چھولداری کے سائے تلے پروان چڑھا جو چھولداری اتفاق فائونڈری کی تیار کی ہوئی طنابوں کی مرہون منت ہے اور ہم سب اس چھولداری کی چھت سے الٹے لٹکے حالات کا رخ بدلنے کے منتظر ہیں کہ جب ان کے لفظوں سے تراشے بتوں کے کندھوں پر کھڑے تخت گریں گے تو ہم وہ دن دیکھیں گے جس کا وعدہ ہے۔ مگر یہاں تو خیالی نقش تراشنے والوں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے، مگر وہاں مولانا کی دستور زباں بندی کے قانون سے جکڑی زبان کو نئے سرے سے اذن ملے گا۔ جو شکوہ سرا ہیں کہ ’’سیاستدانوں کو ملکی نظام سے بے دخل کیا جارہا ہے۔‘‘
مدبر سیاستدان اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمان فرماتے ہیں کہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے شب خون مارا گیا ،لیکن ہم نے مقابلہ کیا ،عدلیہ کو اپنی لونڈی بنانے کی کوشش کی گئی،ہم نے آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مسترد کیا ،سیاسی لوگ ہیں بات چیت پر یقین رکھتے ہیں ۔
26 ویں ترمیم کی 56 شقیں تھیں 36 شقوں سے ہم نے حکومت کو دستبردار کرادیا۔ کچھ لوگ نظریات کی جنگ لڑتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی اتھارٹی کی جنگ لڑتے ہیں مگر سیاستدانوں کو ملکی نظام سے بے دخل اور پارلیمنٹ کو کمزورکیا جارہا ہے۔ بات انہوں نے سچ کی ہے مگر ’’بات ہے رسوائی کی‘‘ تو شہباز سرکار اس پر کان کیوں دھرنے لگی ۔خوشحالی کے جھوٹے دعوے خادم ملک کی عادت ہے اور عادتیں سر کے ساتھ جاتی ہیں۔
دھر ملک کے بہت ہی بڑے منصبدار جن کانام لیں تو زبان پر انگارے دھر دیئے جانے کا خوف، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ انہوں نے صحافیوں کے بڑے ہجوم کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ ’’مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا اور اگر مل بھی گیا تو پڑھوں گا نہیں ،وزیراعظم کو بھجوا دوں گا‘‘ ہاں مگر یہ اتنے بڑے منصبدار کے شایان شان نہیں کہ ایسی بات کریں ۔ان کو زیبا کچھ اور ہے ۔اگر یہ کسی کا خواب بھی ہے تو اس کی تعبیر بننے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی امن و امان کا ایک دروازہ ہی ہوگا جو کسی طور بھی کھل جائے تو قوم کچھ نہ کچھ نیا ضرور پالے گی ۔آخر انہوں نے بھی تو آرزوئوں کے چراغ جلائے ہوئے ہی ہیں ان کو بھی تو روشن رکھنے کا اہتمام انہی بڑوں ہی کو کرنا ہے۔
معیشت کی خوشحالی کے دعوے کب تک امید کے دھاگوں سے کاٹے جاتے رہیں گے۔ رہے وزیراعظم کے اختیارات تو بھلا کس کے پاس ہیں ؟ یہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ بس ایک شفقت کا ہاتھ ہی تو ہے جو کسی کے سر پر رکھنا ہے شاید اسی سے کو ئی لاینحل گتھی سلجھ جائے ۔
ممکن ہے ’’نامہ‘‘ تحریر کرنے والوں نے جسے نامہ بر بنایا ہو اس کی پر واز میں تاخیر ہو گئی ہو یا پھر خط کی قبولیت کے لئے پہلے تشہیر کرکے مزاج یار کا انداز لگایا گیا ہو ۔اچھا ہوتا اگر اس مرحلے کوطے کرنے کے لئے مولانا کی خدمات پر ہی صاد کیا جاتا ،ان کے سیاسی تدبر سے استفادہ کیا جاتا کہ اب اس بے لذت گناہ سے تو دست کش ہو ہی چکے کہ کپتان یہودی ایجنٹ ہے۔یہ بھلے اسی الزام کا کفارہ ہی کیوں نہ سمجھ لیتے۔
ہمارے محترم مولانا جنہوں نے پی ٹی آئی سے پینگیں تو بڑھا ہی لی ہیں اور اب وہ حکمرانوں کے خلاف محاذ بنانے کے بھی کتھا گت کے چکرمیں ہیں اس سلسلے میں قوم پرست لیڈر محمود اچکزئی صاحب سے بھی معاملات طے فرما چکے ہیں ،کوئی دن نہیں وہ کشتی طوفان میں ڈال دیں یوں اپنی قیمتی شرائط پر معاشی اور سیاسی بھنور میں پھنسی حکمرانوں کے کشتی کو کنارے لے آئیں یا خود بھی اس کشتی میں کسی نہ کسی صورت بیٹھ جائیں۔ان سارے امکانات کے در وا لگتے ہیں۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا اپنے تدبر کا پورا پورا فائدہ اٹھانے میں سرخرو ٹھہریں ۔کہ حضرت والا نے کبھی بے ثمر آرزو تو کی ہی نہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہیں کہ
پڑھیں:
کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، مولانا فضل الرحمان
کراچی میں شارع قائدین پر اسرائیل مخالف مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی-ف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عوام نے اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے، خون کے آخری قطرے تک فلسطینی عوام کے ساتھ رہیں گے، اسرائیل کے خلاف سیلاب بن کر کھڑا ہونا ہوگا، اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے، اسرائیل سے معاشی تعلقات قائم کرنا کسی کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ کراچی میں شارع قائدین پر اسرائیل مخالف مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عوام نے اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے، خون کے آخری قطرے تک فلسطینی عوام کے ساتھ رہیں گے، اسرائیل کے خلاف سیلاب بن کر کھڑا ہونا ہوگا، اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کوئی ملک نہیں، اس نے سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے ظالم کے حق میں اپنا مؤقف لیا ہوا ہے، آج کے اجتماع سے پیغام دیا ہے کہ مظلوم فلسطینی تنہا نہیں، 27 اپریل کو لاہور میں فلسطین مارچ کیا جائے گا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ غزہ کے 60 ہزار افراد کی شہادت بھی حکمرانوں کو نہیں جگا سکی، حکمرانوں کی پرواہ کیے بغیر امت مسلمہ کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کی، 1917ء میں صرف 2 فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے، پھر کیسے کہا جاتا ہے کہ فلسطین نے اپنی زمین فروخت کی، 1948ء میں صرف چھ فیصد حصے پر یہودی فلسطین میں رہتے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف فیصلہ دے چکی کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکا کو کہنا چاہتے ہیں کہ بس بہت ہوگیا، اسرائیل کوئی ملک نہیں۔ شہر قائد میں جے یو آئی ف کے شاہراہ قائدین پر "اسرائیل مردہ باد مارچ" سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آج کے اجتماع سے ہم نے اہل غزہ کو پیغام دینا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ف کے کارکنان اہلیان فلسطین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کراچی میں عوام کو جمع کرکے حکمرانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے حکمران مفادات کے غلام بن چکے ہیں۔ سربراہ جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ خون کے آخری قطرے تک فلسطین کے عوام کے ساتھ رہیں گے، امریکا کو کہنا چاہتے ہیں بس بہت ہوگیا، اسرائیل کوئی ملک نہیں ہے، یہودیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسلامی ممالک کے حکمران کٹھ پتلی بن چکے ہیں، ہمارے ملک کے بانی قائداعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا، ہم اس کو کسی سطح پر بھی قبول کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ببانگ دہل کہتے ہیں کہ حماس دہشت گرد نہیں مجاہد ہے، دہشت گرد اسرائیل اور امریکا ہیں، 27 اپریل کو لاہور مینار پاکستان میں ملین مارچ ہوگا۔