Daily Ausaf:
2025-04-13@17:06:08 GMT

آرمی چیف کی جھنڈی

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاست میں جوڑ توڑ اور چالاکیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ آج پھر اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804، یعنی سابق وزیراعظم عمران خان اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے تازہ ترین اقدامات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھنا شامل ہے جو ان کی نئی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان نے اپنی مشکلات سے نکلنے کے لئے بیرونی یا اندرونی قوتوں سے رجوع کیا ہو۔ اس سے قبل وہ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر بین الاقوامی دبائو پیدا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر نتیجہ صفر رہا۔ اب وہ ایک بار پھر آرمی چیف کو مخاطب کر رہے ہیں حالانکہ ماضی میں انہی کے خلاف تحریکیں چلا چکے ہیں۔عمران خان اور جنرل عاصم منیر کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ جب جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تھے، تب انہوں نے عمران خان کی حکومت کے دوران ان کی کرپشن کے کئی معاملات سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں فرح گوگی اور بشریٰ بی بی کے مبینہ مالی معاملات، پنجاب میں تبادلوں اور تقرریوں کی ’’نیلامی‘‘، توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت، اور سرکاری زمینوں پر قبضے جیسے الزامات شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جب آرمی چیف کی تقرری کا وقت آیا تو عمران خان نے سڑکوں پر نکل کر کھلے عام جنرل عاصم منیر کی مخالفت کی اور انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ جو شخصیت کبھی عمران خان کی نظروں میں ناقابل قبول تھی آج وہی شخصیت ان کی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔یہ عمران خان کا تیسرا خط ہے مگر آرمی چیف کی طرف سے واضح جواب آیا کہ نہ تو انہیں کوئی خط ملا ہے اور اگر ملا بھی تو وہ اسے وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ سیدھے الفاظ میں آرمی چیف نے انہیں ’’جھنڈی‘‘کرا دی ہے یعنی اشارہ دے دیا کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
عمران خان کے لئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سیاست کرنے کے عادی رہے ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو یہی اسٹیبلشمنٹ ان کے حق میں تھی اور جب اقتدار میں آئے تو خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھنے لگے۔ لیکن جیسے ہی اقتدار ختم ہوا وہی ادارہ جو کبھی ان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اب ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف ان کی رہائی میں مدد کریں گے یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست شدید مشکلات کا شکار ہے، پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے، اور رہنما اپنا اپنا بچائو کر رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی یہ چالیں عوامی توجہ حاصل کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری کے بعد پارٹی میں کوئی مضبوط قیادت موجود نہیں اور پی ٹی آئی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح خود کو خبروں میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہادر لیڈر ہیں جو جیل میں رہ کر بھی سیاست کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر چال ناکامی سے دوچار ہو رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان مسلسل عالمی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر موجودہ حکومت محض بیانات تک محدود ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم ہوتے اور اپوزیشن کے کسی رہنما نے ایسا کیا ہوتا تو غداری کے مقدمات درج ہو چکے ہوتے، اور بشریٰ بی بی اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مخالفین کو ’’غدار‘‘ثابت کرنے کے احکامات دے چکی ہوتیں۔ لیکن موجودہ حکومت کا ردعمل کمزور اور غیر مثر دکھائی دیتا ہے۔ یہی کمزوری مستقبل میں مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے کیونکہ اگر ایک بار کسی سیاستدان کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ ملک کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور پھر بھی بچ سکتا ہے تو پھر آئندہ کوئی بھی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔عمران خان کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی سیاسی چالیں بے اثر ہو چکی ہیں۔ ان کا ہر نیا دائو انہیں مزید تنہا کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے اور ایسے خطوط لکھنے کا سلسلہ محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آج پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے تماشوں کی جن کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ایک وقت تھا جب عمران خان کا بیانیہ مقبول تھا کیونکہ لوگ انہیں تبدیلی کی علامت سمجھتے تھے، لیکن آج وہ خود کو اتنا متنازع بنا چکے ہیں کہ ان کے حمایتی بھی ان کی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔عمران خان کی سیاست اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ ہر راستہ آزما رہے ہیں، مگر کوئی راہ نکلتی نظر نہیں آ رہی۔ جیل میں بیٹھ کر خط لکھنے سے نہ تو حکومت گرائی جا سکتی ہے نہ ہی عوامی مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ سیاست عملی میدان میں لڑی جاتی ہے نہ کہ کاغذی بیانات اور خطوط کے ذریعے۔ پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی قیادت میں فوج نے واضح کر دیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ایسے میں عمران خان کو یہ حقیقت قبول کرنی ہوگی کہ ان کا روایتی طریقہ کار اب کارگر ثابت نہیں ہوگا۔پاکستان کی معیشت پہلے ہی دبا میں ہے اور عالمی سطح پر ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں عمران خان کے ان اقدامات سے ملک کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب ایک سابق وزیراعظم عالمی اداروں کو خطوط لکھ کر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی درخواست کرتا ہے تو یہ نہ صرف ملک کی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہوتا ہے بلکہ قومی مفادات کے بھی خلاف ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسا کوئی سیاستدان نہیں کرتا لیکن پاکستان میں سیاست دانوں کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔عمران خان کو اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اگر وہ واقعی سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں موجودہ حکمت عملی کو ترک کرکے حقیقت پسندی اختیار کرنی ہوگی۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ وہ اب اقتدار میں نہیں ہیں اور جو حربے وہ استعمال کر رہے ہیں، وہ انہیں مزید مشکلات میں دھکیل سکتے ہیں۔ خط لکھنے، جلسے کرنے اور الزامات لگانے سے وہ سیاسی منظرنامے پر اپنی جگہ نہیں بنا سکیں گے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور اس استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی غیر ضروری سیاسی کھیل ہیں۔ اگر سیاستدان واقعی ملک کی ترقی چاہتے ہیں، تو انہیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ عمران خان کے حالیہ اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح قومی مفاد نہیں بلکہ اپنی ذات ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو ان کی سیاست کو مزید مشکلات میں ڈال رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ عمران خان عمران خان کی ان کی سیاست پاکستان کو کر رہے ہیں سیاست میں آرمی چیف یہ ہے کہ کہ ان کی کی کوشش چکے ہیں ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات عمران خان کی رہائی میں حائل ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف نے جمرات کے پشاور کے نشتر ہال میں عمران خان کی رہائی کے لیے ورکرز کو فعال کرنے کے لیے یوتھ کنوینشن کا انعقاد کیا لیکن اس میں نہ ہی اہم لیڈرز نے شرکت اور نہ ہی ورکرز کی تعداد متاثرکن رہی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنماؤں میں اختلافات کی لہر برقرار، معاملہ عمران خان کے سامنے اٹھانے کی یقین دہانی

یوتھ کنوینشن کوور کرنے والے صحافیوں کے مطابق 10 اپریل کو عمران خان حکومت خاتمے کے خلاف پی ٹی آئی نے اس کنوینشن کا انعقاد کیا تھا اور عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کی تیاریوں کا بھی آغاز تھا لیکن قائدین کی عدم دلچسپی کے باعث وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا جو کبھی پی ٹی آئی کے جلسوں میں نظر آتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کو قرار دیا جارہا ہے۔

کنوینشن میں شریک پی ٹی آئی کے ایک ورکرز احمد شاہ کا کہنا تھا کہ کہ وہ عمران خان کے نام پر آئے ہیں اور کوئی شریک ہوتا یا نہیں اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی اصل طاقت ان کے ورکرز ہیں جو ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں تسلیم کیا قائدین کے آپس کے اختلافات نے ورکرز کو مایوسی سے دوچار کردیا ہے تاہم وہ عمران خان کے لیے کسی بھی وقت نکلنے کو تیار ہیں۔

پی ٹی آئی میں گروپنگ

پاکستان تحریک انصاف میں اختلافات پرویز خٹک کے دور اقتدار سے چلے آ رہے ہیں اور محمود خان دور میں عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل خان کو کابینہ سے بھی فارغ کیا گیا تھا جبکہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے عاطف گروپ اور تیور جھگڑا سمیت دیگر کو سازشی قرار دینے سے اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ پارٹی قائدین ایسے بیانات کو عمران خان کی رہائی سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اسد قیصر اور تیمور جھگڑا نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت تمام تر توجہ خان پر رہائی پر ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے ورکرز میں ایک تصور پایا جاتا ہے کہ قائدین عمران خان کی رہائی میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور تحریک اور جلسوں کو لیڈ کرنے کی بجائے بھاگ گئے ہیں جس کی وجہ سے حکومت دباؤ میں نہیں آ رہی۔ پارٹی ورکرز کا خیال ہے کہ عمران خان ڈیل کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر احتجاج اور تحریک چلا کر وفاق پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: پی ٹی آئی والوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، اس میں اختلافات ہونا بڑی بات نہیں، اسد عمر

پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار علی اکبر بھی ورکرز سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی عوامی رابطہ مہم اور تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور جتنے بھی مارچ و جلسے جلوس ہوئے بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ٹی ورکرز مخلص ہیں لیکن انہیں مخلص لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔

علی اکبر نے بتایا کہ اس وقت بانی چیئرمین جیل میں ہیں اور ان کی نظریں پارٹی رہنماؤں پر ہیں جبکہ لیڈر خود اندروانی ختلافات سے باہر نہیں آ رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کی رہائی سے زیادہ کرسی کے حصول لیے جہدوجہد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایک گروپ مذاکرات کو کامیاب ہونے نہیں دے رہا تو دوسرا گروپ جلسے جلوس۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس وقت سخت اندرونی اختلافات کی شکار ہے جس کی وجہ سے منظم تحریک چلانے میں ناکام رہی ہے اور یہ ہی اختلافات عمران خان کی رہائی میں سب اے بڑی رکاوٹ ہیں۔

دوسری جانب پشاور کے نوجوان صحافی محمد فہیم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جو ہر وقت اختلافات کا شکار رہتی ہے لیکن جب بات احتجاج کی ہو تو سب ایک پیج پر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: صوبے کے اختیارات کسی کو نہیں دیے جارہے، پروپیگنڈا کرنے والے عمران خان کے خیر خواہ نہیں، علی امین گنڈاپور

محمد فہیم کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں ورکرز کو فغال رکھنے کے لیے بھی اختلافات کی باتیں سامنے لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اندروانی ختلافات سے عمران خان کی رہائی مہم پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے اور اگر مہم شروع ہوئی تو سب مل کر نکلیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی اندرونی اختلافات عمران خان عمران خان رہائی مہم عمران خان قید

متعلقہ مضامین

  • آرمی چیف سے امریکی وفد کی ملاقات، آئی ٹی شعبے میں تعاون کے ایم او یوز پر دستخط
  • آرمی چیف سے امریکی کانگریس کے وفد کی ملاقات، سکیورٹی و دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
  • مچھر مار کر نام، وقت اور جگہ کا ریکارڈ رکھنے کی شوقین انوکھی لڑکی
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  • ایاز سموں نے گیم شوز کا پردہ فاش کر دیا‎
  • صدر مملکت آصف علی زرداری کی طبیعت بہتر، اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا
  • وقف قانون پر سیاست کے بجائے ایک جٹ ہوکر لڑیں، ممبر پارلیمنٹ میاں الطاف
  • حادثات کی آڑ میں جو سیاست اور فساد چاہتا ہے اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا، شرجیل میمن
  • پی ایس ایل؛ کیا پشاور زلمی کو بابراعظم دستیاب ہوں گے؟
  • کیا پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات عمران خان کی رہائی میں حائل ہیں؟